Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے بےبس اولاد چھوڑ جائیں، تو کیا کچھ اندیشہ ان کے بارے میں رکھیں گے، پس انہیں چاہیے کہ وہ (دوسروں کے یتیموں کے بارے میں بھی) ڈریں اللہ سے، اور بات کریں راستی کی
21 یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کیلئے ایک موثر انداز تعلیم و تبلیغ : پس جو بھلائی اور خیر خواہی تم لوگ اپنے ان بےسہارا یتیم بچوں کیلئے چاہو، اسی کا معاملہ تم دوسروں کے ان یتیم بچوں کے ساتھ بھی کرو، جو تمہاری کفالت اور پرورش میں ہوں، جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے پیچھے رہ جانے والے بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ ہو، اس طرح تم ان کے بارے میں بھی ایسا ہی چاہو کہ جس طرح آج یہ بچے یتیم اور بےسہارا ہیں اسی طرح کل تمہارے بچے بھی ہوسکتے ہیں، سو جو لوگ یہ بات اپنے پیش نظر رکھیں گے وہ دوسروں کے یتیم بچوں کا کبھی کوئی حق نہیں مار سکتے، اور ان کے ساتھ کبھی کسی زیادتی کا ارتکاب نہیں کرسکتے، بہرکیف اس ارشاد سے یہ ہدایت فرمائی گئی کہ آدمی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ جس طرح دوسروں کے بچے یتیم ہوتے ہیں، اس کے بچے بھی یتیم ہوسکتے تھے، اور ہوسکتے ہیں، تو انسان سوچے کہ ایسی صورت میں اس کو اپنے بچوں کے بارے میں کیا کچھ اندیشے ہوسکتے تھے اور ہوسکتے ہیں، سو اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر اس کو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ سو یتیموں کے ساتھ حسن سلوک ایک اہم مطلب ہے ۔ وباللہ التوفیق -
Top