Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 81
وَ یَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ١٘ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَیَّتَ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ١ۚ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں طَاعَةٌ : (ہم نے) حکم مانا فَاِذَا : پھر جب بَرَزُوْا : باہر جاتے ہیں مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کے پاس بَيَّتَ : رات کو مشورہ کرتا ہے طَآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْھُمْ : ان سے غَيْرَ الَّذِيْ : اس کے خلاف جو تَقُوْلُ : کہتے ہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ يَكْتُبُ : لکھ لیتا ہے مَا يُبَيِّتُوْنَ : جو وہ رات کو مشورے کرتے ہیں فَاَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْھُمْ : ان سے وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور کہتے ہیں (یہ منافق لوگ جب یہ آپ کے پاس ہوتے ہیں) کہ ہم نے حکم مانا مگر جب یہ آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو انہی میں سے ایک گروہ اپنے کہے کے خلاف منصوبے گانٹھنے لگ جاتا ہے، (حق اور اہل حق کیخلاف) اور اللہ لکھ رہا ہے ان کے وہ سب منصوبے جو یہ لوگ اس طرح گانٹھتے (بناتے) ہیں، پس آپ ان سے درگرز ہی کیا کریں، اور اللہ پر بھروسہ کریں اور کافی ہے اللہ کارسازی کے لئے،
194 منافقوں کے طاعت کے زبانی کلامی دعوے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے حکم مانا۔ معلوم ہوا کہ طاعت و فرمانبرداری کے محض زبانی کلامی اور بلند بانگ دعوے کرنا کافی نہیں۔ اور یہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں بلکہ یہ منافق لوگوں کا شیوہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ مخلص اہل ایمان محض زبانی کلامی دعو وں کی بجائے اپنے عمل و کردار سے اپنے صدق و اخلاص کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اور یہی اصل مقصود ہے یہاں پر۔ " طاعَۃ “ ٌ خبر ہے مبتداء محذوف کی۔ اور عربی کے اس اسلوب کے مطابق جب مبتداء کو حذف کیا جاتا ہے تو اس سے مقصود سارا زور خبر پر دینا ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب یہ لوگ پیغمبر کی مجلس میں ہوتے ہیں تو طاعت و فرمانبرداری کے زبانی کلامی دعوے کرتے ہوئے کہتے ہیں " سر تسلیم خم ہے "، " ہم اطاعت و فرمانبرداری کے لئے حاضر ہیں " وغیرہ وغیرہ۔ مگر جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس کے خلاف منصوبے گانٹھنے لگتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 195 اہل باطل کی اہل حق کیخلاف منصوبہ سازی کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو انہی میں سے ایک گروہ اپنے کہے کے خلاف منصوبے گانٹھنے لگ جاتا ہے۔ حق اور اہل حق کیخلاف۔ ان کا راستہ روکنے کیلئے، اور اس طرح رات کے اندھیروں میں کئے جانے والے اپنے ان منصوبوں کے بارے میں یہ احمق تو سمجھتے ہیں کہ ان کی حرکتوں کا کسی کو علم نہیں، مگر انہیں معلوم نہیں کہ ان کی ایسی کوئی حرکت ہم سے مخفی اور پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور یہ کہ ان کی ایسی تمام حرکتوں کا پورا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے۔ سو اہل باطل اپنے عزائم اور منصوبوں کو خفیہ رکھنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں، اللہ وحدہ لاشریک سے ان کو چھپانا ان کیلئے کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ " بَیَّتَ " کے اصل معنیٰ رات کو کام کرنے کے آتے ہیں۔ لیکن پھر اس میں توسع پیدا کر کے اس کو خفیہ مشوروں اور چھپ کر کام کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ یہاں پر یہی مراد ہے۔ 196 کارسازی اللہ ہی کی ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ کافی ہے کارسازی کیلئے : سو وہ کارسازِمطلق آپ کو بھی ان کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ان کو بھی اس انجام تک پہنچا دے گا جس کے یہ لائق ہیں۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی درس ملتا ہے کہ اہل ایمان کو دشمنوں کے مقابلے میں اور ان کی شر انگیزیوں سے بچنے کیلئے اعتماد و بھروسہ ہمیشہ اسی کارساز مطلق وحدہ لا شریک پر رکھنا چاہئیے ۔ جل و علا شانہ ۔ کہ سب کچھ اسی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ وہ جو چاہے اور جیسے چاہے کرے۔ اس کیلئے نہ کوئی مشکل ہوسکتی ہے اور نہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ۔ پس آپ ان سے اعراض کر کے بھروسہ ہمیشہ اسی وحدہ لاشریک پر رکھیں جو سب کا کار ساز ہے۔ اور بڑا ہی عمدہ کارساز ہے { فنعم المولی و نعم النصیر } سو کار ساز سب کا اللہ وحدہ لا شریک ہی ہے اور اس کی کارسازی سب کے لیے بس ہے۔
Top