Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 79
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ١٘ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ١ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
مَآ : جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ حَسَنَةٍ : کوئی بھلائی فَمِنَ اللّٰهِ : سو اللہ سے وَمَآ : اور جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ سَيِّئَةٍ : کوئی برائی فَمِنْ نَّفْسِكَ : تو تیرے نفس سے وَاَرْسَلْنٰكَ : اور ہم نے تمہیں بھیجا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے رَسُوْلًا : رسول وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
جو بھی کوئی بھلائی پہنچتی ہے تجھے (اے انسان ! ) تو وہ اللہ ہی کی طرف سے (اور اسی کے فضل سے) ہوتی ہے اور جو بھی کوئی بدحالی پیش آتی ہے تجھے تو وہ تیری اپنی ہی وجہ سے ہوتی ہے اور ہم نے (بہر حال اے پیغمبر ﷺ ! ) آپ کو بھیجا ہے سب لوگوں کے لیے رسول بناکر، اور کافی ہے اللہ گواہی دینے کو،3
189 ہر بھلائی اللہ ہی کی طرف سے ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو بھی کوئی بھلائی تم کو پہنچتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے پہنچتی ہے۔ کہ وہی ہے بخشنے والا اور عطاء فرمانے والا۔ اور وہی ہے سب کا خالق ومالک۔ اور اس کی کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مشیئت ومنظوری سے ہوتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور جو بھی کوئی چیز انسان کو ملتی ہے وہ اسی کی طرف سے اور بغیر کسی سبب کے محض اس کی عنایت اور مہربانی سے ملتی ہے۔ خود ہمارے وجود اور ان کے اندر پائی جانے والی قدرت کی بیشمار اور عظیم الشان نشانیاں اور نعمتیں محض اس کی عطاء و بخشش ہی کا نتیجہ وثمرہ ہیں۔ ہم نے ان میں سے کسی کیلئے کوئی جدوجہد تو درکنار، کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔ اور مطالبہ کیا معنی، ہمیں تو اس کا کوئی احساس و ادراک بھی نہیں تھا۔ سو یہ سب کچھ اسی کی عطاء و بخشش ہے جو اس نے محض اپنے فضل و کرم سے فرمائی ہے۔ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور سب کچھ اسی وہاب کریم کا دیا بخشا ہے۔ بہرکیف اصل حقیقت یہی ہے کہ اس کائنات میں خیر اور شر کی صورت میں جو بھی کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے کہ اپنی پیدا کردہ اس کائنات میں حاکم و متصرف وہی وحدہ لاشریک ہے اور اس میں جو بھی ہوتا ہے وہ سب اسی کی مشیت اور اسی کے اذن سے ہوتا ہے کہ اس سب کائنات میں اسی کا حکم اور اسی کی مشیت کارفرما ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 190 بری حالت کا سبب اور باعث انسان خود ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو بھی کوئی برائی اور بدحالی تجھے ہے اے انسان وہ تیری اپنی ہی طرف سے ہوتی ہے کہ اس کا سبب تیری اپنی ہی کوئی کوتاہی اور بدعملی ہوتی ہے اے انسان۔ ورنہ اس وحدہ لاشریک کی طرف سے تو اپنے بندوں کیلئے رحمت ہی رحمت، عنایت ہی عنایت اور عطاء ہی عطاء ہے، کہ اس نے اپنی ذات پر اپنے کرم سے رحمت کو لازم قرار دے رکھا ہے۔ چناچہ اس کا اپنا فرمان حق ترجمان ہے " کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہ الرَّحْمَۃَ " الآیۃ (الانعام : 54) ۔ پس ہر حمد و ثنا کا حقدار وہی وحدہ لاشریک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نیز اس کا فرمان و ارشاد ہے کہ عذاب تو میں جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں یعنی جب کہ وہ اپنے اعمال اور کرتوتوں سے اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا دیتا ہے، لیکن میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے { قَالَ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِہ مَنْ اَشَائُ وَرَحْمِنیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیِئٍ } الآیہ (الاعراف : 156) سو خیر و شر میں سے جو بھی کچھ اس کائنات میں ہوتا ہے وہ سب اسی کی مشیت اور اسی کے اذن سے ہوتا ہے، لیکن اس میں فرق یہ ہے کہ خیر اس کی رحمت کے اقتضاء سے ظہور پذیر ہوتی ہے جبکہ شرکا ترتب اس کے اذن سے ہوتا ہے اور شر کا ترتب انسان کے اپنے اعمال پر ہوتا ہے۔ سو اس اعتبار سے شر کا تعلق انسان کے اپنے نفس سے ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہر قسم کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 191 پیغمبر کے لیے سامان تسلیہ و تسکین : سو ارشاد فرمایا گیا اور کافی ہے اللہ گواہی دینے والا۔ اور جب اس کی گواہی آپ کی رسالت کے لئے موجود ہے اور اس نے اپنے معجزات کے ذریعے آپ کی صداقت و حقانیت کی گواہی دے دی، تو پھر کوئی اور اس کی گواہی دے یا نہ دے اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ سو اب سعادت و سرخروئی آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع میں ہے اور اس سے اعراض و انکار بہرحال ہلاکت و تباہی کا سامان ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف یہاں پر منافقین کو خطاب کرنے کے بعد پیغمبر کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ منافقین تمہاری رسالت کے بارے میں تردد میں ہیں اور تمہارے ہر قول و فعل کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے تو آپ اس کی پرواہ نہ کرو کہ آپ کی رسالت ان کی گواہی کی محتاج ہیں۔ خدا کی گواہی آپ کی نبوت و رسالت کی تصدیق کے لئے کافی ہے۔ سو اس میں پیغمبر کے لیے بڑا سامان تسلیہ و تسکین ہے ۔ والحمد للہ جل وعلا -
Top