Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 144
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوا : نہ پکڑو (نہ بناؤ) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع اَوْلِيَآءَ : دوست مِنْ دُوْنِ : سوائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مسلمان (جمع) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَجْعَلُوْا : کہ تم کرو (لو) لِلّٰهِ : اللہ کا عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) سُلْطٰنًا : الزام مُّبِيْنًا : صریح
اے ایمان والوں (خبردار ! ) کہیں تم بھی (منافقوں کی طرح) کافروں کو اپنا دوست نہ بنا لینا ایمان والوں کو چھوڑ کر، کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ (اس طرح کرکے) تم لوگ اپنے اوپر اللہ کے لئے کھلی حجت قائم کرلو ؟3
374 ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنانے کی ممانعت : سو ایمان والوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ کہیں تم لوگ کافروں کو اپنا دوست نہیں بنانا ایمان والوں کو چھوڑ کر۔ کہ تمہارے ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ پس کہیں ایسا نہ ہو کہ اس طرح کفر کے جراثیم تمہارے اندر بھی سرایت کر جائیں اور اس کے نتیجے میں تم کفر کی راہ پر چل کر ہمیشہ کے خسارے میں پڑجاؤ ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس تم لوگ کفر اور کفار کے ایسے خطرات سے ہمیشہ محتاط رہنا { مِنْ دُوْن المؤمِنیْن } کی قید سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کفار کو دوست اور حلیف بنانا اسی صورت میں منع ہے جب کہ یہ اہل ایمان کو چھوڑ کر اور ان کے بالمقابل ہو اور اگر یہ صورت نہ ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسا کہ ظاہر اور اس قید کا تقاضا ہے۔ 375 کفار سے دوستی اپنے اوپر اللہ کیلئے حجت قائم کرنا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگ یہ جانتے ہو کہ اس طرح کر کے تم اپنے اوپر اللہ کے لیے کھلی حجت قائم کرلو ؟ کہ دعویٰ تو کرو تم ایمان کا اور دوستی کا دم بھرو کفار سے۔ اور اس طرح اللہ کے حکم کی خلاف ورزی و نافرمانی کر کے تم اس کے عذاب کو دعوت دو ؟ استفہام انکار اور تنبیہ و تذکیر کیلئے ہے۔ یعنی تم لوگ کہیں ایسا نہیں کرلینا کہ اس کا نتیجہ تمہارے لیے بہت ہولناک ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ اگر تم نے مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کو دوست بنانے کے اس جرم کا ارتکاب کرلیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ تو یاد رکھو کہ یہ جرم کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ اس کے ارتکاب کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کو ایک ایسی کھلی اور قطعی حجت دے دی جس کے بعد تمہارے لئے کسی عذر معذرت اور حیل و حجت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائیگی۔ کہ اس صورت میں تمہارا کفر بالکل قطعی اور تمہارا دوزخ کا مستحق ہوجانا بالکل ظاہر اور مبرہن ہوجائے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top