Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 123
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
مدار نہ تمہاری (آرزوں اور) امیدوں پر ہے، (اے مسلمانو ! ) اور نہ ہی اہل کتاب کی امیدوں پر، (بلکہ ضابطہ یہ ہے کہ) جو بھی کوئی برائی کرے گا، وہ اس کا بدلہ پائے گا اور ایسے لوگ نہیں پاسکیں گے اپنے لئے اللہ کے سوا، کوئی یار، اور نہ مدد گار،
314 محض امیدوں پر جینا ایک دھوکہ ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ مدار نہ تمہاری امیدوں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر۔ بلکہ اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ جو بھی کوئی برائی کرے گا وہ اس کا بدلہ پائے گا۔ پس محض امیدوں سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ صحیح عقیدہ و ایمان کی اساس و بنیاد قائم نہ ہو اور عمل و کردار کا سرمایہ موجود نہ ہو۔ اور جو لوگ محض امیدوں پر جیتے اور انہی پر تکیہ کرتے ہیں وہ ایسے بےبنیاد سہاروں پر عمل و کردار کی دولت سے لاپرواہ اور محروم ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہی بھول بھلیوں میں لگ کر اور ایسی بےحقیقت چیزوں میں کھوکر وہ حیات مستعار کی متاع گرانمایہ کو تمام کردیتے ہیں اور ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ سو ایسی فرضی اور بےبنیاد امیدوں پر جینا ایک دھوکہ اور ہولناک دھوکہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لئے یہاں پر واضح فرما دیا گیا کہ جھوٹی آرزوؤں سے کچھ نہیں بنتا، خواہ وہ تمہاری ہوں اے مسلمانو ! (اشارہ منافقین کی طرف ہے) یا اھل کتاب کی بلکہ اصل چیز ایمان و عمل ہے۔ سو انسان کی نجات و فلاح کا دار و مدار اس کے اپنے عمل و کردار پر ہے۔ 315 مدار نجات ایمان مستقیم اور عمل صالح پر ہے : سو ہر کوئی اپنے کیے کرائے کا صلہ اور بدلہ پائے گا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ گورا ہو یا کالا، مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، کوئی سی زبان بولتا ہو، اور کسی بھی ملک و معاشرے سے تعلق رکھتا ہو، کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف عقیدہ و ایمان اور عمل و کردارہی کی دولت درکار ہے اور بس۔ سو مدار نجات محض امیدوں اور آرزوؤں پر نہیں بلکہ ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے اور یہی وہ اصول و ضابطہ کلیہ ہے جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پس جو برائی کریگا وہ اس کا بھگتان بھگتیگا، خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ کسی کے لئے بھی محض اس کے حسب و نسب کی بنا پر اس سے خلاصی اور چھٹکارے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ پس اہل کتاب کا یہ کہنا کہ ہمیں دوزخ کی آگ چھوئیگی بھی نہیں سوائے گنتی کے چند دنوں کے، محض ایک دھوکہ اور ان کا خود ساختہ مفروضہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 316 اللہ کے سوا نہ کوئی یار نہ کوئی مددگار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگ اللہ کے سوا نہ کوئی یار پاسکیں گے نہ مددگار۔ جو اس کی واقعی کوئی مدد کرسکے یا محض زبانی کلامی ہی ہمدری و خیر خواہی کا اظہار کرسکے کہ وہاں دنیا کے یہ سب آسرے اور سہارے ختم ہوجائیں گے اور سب رشتے ٹوٹ جائیں گے { وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الاَسْبَابُ } اور اس وقت لوگوں کے سامنے یہ حقیقت کھل جائے گی کہ ایسے خودساختہ اور فرضی سہارے جن پر ایسے لوگوں نے تکیہ کر رکھا تھا سب بےاصل اور بےبنیاد تھے۔ سو حامی و ناصر تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کا خالق ومالک بھی ہے اور ان کا حامی بھی ناصر بھی۔ اس سے ایسے لوگوں نے تعلق رکھا ہی نہیں تھا اور جن بےحقیقت اور بےبنیاد چیزوں پر انہوں نے تکیہ و آسرا کر رکھا تھا وہ کسی کام آنے والی تھیں ہی نہیں کہ وہ سب بےبنیاد چیزیں تھیں، جو ھَبَائً مَّنْثُوْرًا ہوجائیں گی۔
Top