Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 70
وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۠   ۧ
وَوُفِّيَتْ : اور پورا پورا دیا جائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا عَمِلَتْ : جو اس نے کیا (اس کے اعمال) وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا يَفْعَلُوْنَ : جو کچھ وہ کرتے ہیں
اور پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا ہر کسی کو اس کے (زندگی بھر کے) کئے (کرائے) کا اور وہ (وحدہ لاشریک) پوری طرح جانتا ہے ان کے ان تمام کاموں کو جو یہ لوگ کرتے رہے تھے (اپنی دنیاوی زندگی میں)1
125 اعمال کا پورا بدلہ صرف قیامت کے روز : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ قیامت کے روز ہر کسی کو اس کے کیے کرائے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور تاکید کے ماضی کے صیغے کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " اس روز پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر کسی کو اس کے ۔ زندگی بھر کے ۔ کیے کرائے کا "۔ سو اعمال کا کچھ بدلہ مختلف شکلوں میں اگرچہ اس دنیا میں بھی بعض اوقات مل جاتا ہے مگر پورا اور کامل بدلہ بہرحال آخرت ہی میں دیا جائے گا کہ دنیا کے ظرف میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ کسی کو اس کے عمل کا پورا بدلہ اس میں دیا جاسکے۔ اور دنیا اس کا محل بھی نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا " دارالعمل " ہے نہ کہ " دارالجزاء "۔ اور " دارالجزائ " دراصل آخرت ہی ہے۔ سو بدلہ و جزا کے اس دن میں ہر کسی کی جزا و سزا کے سلسلے میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو اپنی کامل اور آخری شکل میں پورا کیا جائے گا۔ پس وہاں پر نہ کسی کی کوئی حق تلفی ہوگی اور نہ کوئی زیادتی۔ 126 اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا حوالہ و ذکر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہوسکتی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ خوب جانتا ہے وہ سب کچھ جو یہ لوگ کرتے رہے تھے اپنی اپنی زندگیوں میں "۔ اس لئے اس کو نہ تو کسی محاسب اور کاتب کی ضرورت ہے اور نہ حساب و کتاب کی کہ وہ سب کچھ خود ہی جانتا ہے۔ پس حساب و کتاب اور گواہوں وغیرہ کی بات تو محض تکمیل حجت اور ازالہ عذر و معذرت کے لئے ہوگی۔ ورنہ اللہ پاک کے علم کامل کو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے کوئی بھی اپنے کیے کا بھگتان بھگتنے سے بچ نہیں سکے گا۔ پس اس سے ان مشرکوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جنہوں نے طرح طرح کے مفروضے گھڑ کر اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top