Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 68
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونک ماری جائے گی صور میں فَصَعِقَ : تو بیہوش ہوجائے گا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوائے مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ ۭ : چاہے اللہ ثُمَّ : پھر نُفِخَ فِيْهِ : پھونک ماری جائے گی اس میں اُخْرٰى : دوبارہ فَاِذَا : تو فورا هُمْ : وہ قِيَامٌ : کھڑے يَّنْظُرُوْنَ : دیکھنے لگیں گے
اور پھونک مار دی جائے گی صور میں جس کے نتیجے میں بےہوش ہو کر گرپڑیں گے وہ سب جو کہ آسمانوں میں ہیں اور وہ سب بھی جو کہ زمین میں ہیں مگر جسے اللہ چاہے پھر ایک اور مرتبہ صور پھونکا جائے گا جس کے باعث یہ سب کے سب یکایک کھڑے دیکھ رہے ہوں گے
121 نفخ صور اور اس کے نتیجہ و اثر کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس روز پھونک مار دی جائے گی صور میں جس سے یہ سب بیہوش ہو کر گرپڑیں گے "۔ اور پھر گر کر سب مرجائیں گے۔ اسی لئے یہاں پر " صعق " کو موت کے معنیٰ میں لیا گیا ہے۔ (مدارک، ابن کثیر، جامع البیان اور معارف وغیرہ) ۔ سو یہ نفخہ ثانیہ کا بیان ہے۔ اس سے پہلے نفخہ فزع ہوگا جس کا ذکر سورة نمل کی آیت نمبر 87 میں فرمایا گیا ہے اور اس کے بعد تیسرا نفخہ وہ ہوگا جو کہ قیام لرب العالمین کے لئے ہوگا اور یہی قول ہے جمہور اہل علم کا ۔ " الجمہور علی انہ ثلٰث الاولیٰ للفزع والثانیۃ للموت والثالثۃ للاعادۃ " ۔ یعنی جمہور کے نزدیک نفخ صور تین مرتبہ ہوگا۔ پہلا نفحہ فزغ جس سے سب گھبرا اٹھیں گے۔ دوسرا نفحہ صعق جس سے سب بےہوش ہو کر گرپڑیں گے۔ اور پھر سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ اور تیسرا نفحہ قیام لرب العلمین کیلئے ہوگا۔ جس پر سب کے سب ازسر نو زندہ ہو کر رب کے حضور کھڑے ہوجائیں گے تاکہ اپنی زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھرپور بدلہ پاسکیں۔ جنتی جنت کی سدا بہار نعمتوں کی شکل میں ۔ اللہ ہم سب کو انہی میں سے کرے ۔ اور دوزخی دوزخ کے حوالے کر دئیے جائیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس نفخ صور پر سب اٹھ کھڑے ہوں گے اور حیرت و تعجب سے سب مناظر اپنی آنکھوں سے خود دیکھ رہے ہوں گے۔ اور کسی اینکڑی پینکڑی کے بغیر سب کے سب اپنی اپنی قبروں سے نکل نکل کر دوڑے چلے آرہے ہوں گے۔ جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورة یسین میں ارشاد ہوتا ہے ۔ { وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِنَ الاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ } ۔ (یٓسین۔ 51) اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوگا کہ اس روز اس مالک الملک کی طرف سے یہ پکار سنتے ہی سب اس کی تسبیح کرتے ہوئے اس کے حضور دوڑتے ہوئے حاضر ہوں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ (بنی اسرائیل : 52) مگر ظالم لوگ آج نہیں مانتے ۔ والعیاذ باللہ - 122 " صعق " سے محفوظ رہنے والوں کا ذکر وبیان : سو اس " صعق " اور بیہوشی سے بچنے والوں کا استثناء کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا " مگر جن کو اللہ چاہے "۔ یہ کون حضرات ہوں گے جو اس نفخہ صعق و ہلاک سے مستشنٰی ہوں گے ؟ اس کے بارے میں قرآن پاک میں یا کسی صحیح حدیث میں کوئی تصریح نہیں فرمائی گئی۔ اسی لئے حضرت قتادہ ؓ کہتے ہیں ۔ " لا نَدْرِیْ مَنْ ہُمْ " ۔ یعنی " ہم نہیں جانتے یہ کون حضرات ہوں گے "۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، خازن وغیرہ) ۔ اور یہی طریقہ اصولی بھی ہے اور سلامتی والا بھی مگر دوسرے حضرات اہل علم سے اس بارے میں مختلف اقوال مروی و منقول ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس سے مراد حاملین عرش، جبرائیل، میکائیل، عزرائیل اور ملک الموت ہیں۔ جو اس موقع پر ہلاک نہیں ہوں گے بلکہ بعد میں ہوں گے۔ اور سب سے آخر میں ملک الموت کی موت ہوگی۔ جس کے بعد حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ ارشاد فرمائیں گے ۔ { لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم } ۔ کہ " آج حکومت کس کی ہے ؟ " ۔ اور پھر خود ہی اس کے جواب میں ارشاد فرمائیں گے ۔ { لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ } ۔ " اللہ ہی کے لئے ہے جو اکیلا اور سب پر غالب ہے "۔ (جامع البیان، ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ) ۔ بہرکیف اس سے مشرکین کے اس خود ساختہ شرکیہ فلسفے کی جڑ نکال دی گئی کہ ہمارے وہ شرکاء جن سے ہم وابستہ ہیں اور جن کا لڑ ہم نے پکڑ رکھا ہے وہ بڑی پہنچ والی " سرکاریں " ہیں۔ وہ وہاں پر اڑ کر بیٹھ جائیں گی اور منوا کر چھوڑیں گی۔ سو واضح فرما دیا گیا کہ اس روز سب کے ہوش اس طرح اڑ جائیں گے کہ کسی کے اندر اس طرح کی کوئی ہمت اور سکت ہی نہیں ہوگی۔ پس اس طرح کے مشرکانہ تصورات بےبنیاد اور محض اوہام و خرافات ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top