Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 18
الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ
الَّذِيْنَ : وہ جو يَسْتَمِعُوْنَ : سنتے ہیں الْقَوْلَ : بات فَيَتَّبِعُوْنَ : پھر پیروی کرتے ہیں اَحْسَنَهٗ ۭ : اس کی اچھی باتیں اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہیں هَدٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں ہدایت دی اللہ نے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمْ : وہ اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
جو غور سے سنتے ہیں ہماری بات کو پھر وہ پیروی کرتے ہیں اس کے بہترین پہلو کی یہی ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے نوازا ہدایت (کی دولت) سے اور یہی ہیں عقول سلیمہ رکھنے والے (خوش نصیب)
40 بات کو غور سے سننا ایک عمدہ صفت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جو بات کو غور سے سنتے ہیں "۔ تاکہ یہ حق کو صحیح طور پر سمجھ کر صدق دل سے اپنا سکیں۔ کیونکہ کسی بھی کلام کو سمجھنے اور اس کے حقیقی مطلب تک رسائی کیلئے اولین تقاضا اور بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کو غور اور توجہ سے سنا جائے۔ بہرکیف ان خوش نصیب لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ایسے لوگ نہیں ہوتے کہ جب انکے سامنے حق و ہدایت کی بات پیش کی جائے تو یہ لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں اور بولنے والے کا منہ نوچنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ بلکہ یہ بات کو غور سے سنتے ہیں تاکہ یہ حق وباطل اور صحیح و غلط کے درمیان فرق وتمیز کرسکیں اور اس کے بعد حق کو اپنا سکیں۔ تاکہ اس کے فوائد وثمرات سے مستفید و فیضیاب ہو سکیں۔ سو حق بات کو سننا اور ماننا یعنی سمع وطاعت، اصلاح احوال کے لیے ایک اہم اور بنیادی صفت ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ 41 حق کی پیروی کرنا ایک اور اہم صفت : سو ان سلیم الفطرت لوگوں کے بارے میں مزید ارشاد فرمایا گیا کہ " پھر وہ پیروی کرتے ہیں اس کے بہترین پہلو کی "۔ ان لوگوں کے برعکس جو کہ کجی اور ٹیڑھے پن کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْم جل و علا ۔ سو ایسے لوگ کلام حق کو صحیح طور پر اور پوری توجہ سے سنتے ہیں اور اس کے صحیح پہلو کو اپنا کر گوہر مطلوب سے سرفراز و بہرہ ور ہوتے ہیں۔ سو اس ارشاد میں " خاسرین " کے مقابلے میں " مصلحین " اور " فائزین " کی صفات کو واضح فرما دیا گیا ۔ وباللہ التوفیق ۔ اور احسن کی اتباع و پیروی میں دو باتیں آجاتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ غور سے سننے کے بعد احسن اور اچھے کلام کو لے لیتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہوتا ہے اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور دوسرا مفہوم و مطلب اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ عمدہ کلام کی پیروی بھی اس کے اچھے پہلو اور اچھے مفہوم و مطلب کے اعتبار سے کرتے ہیں نہ کہ اس کا غلط مطلب نکال کر جس طرح غلط کار اور اوندھے مزاج کے لوگوں کا حال ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 42 عقل سلیم رکھنے والوں کی نشاندہی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہی لوگ ہیں جو ہدایت کی دولت سے سرفراز ہوئے اور یہی ہیں عقل سلیم رکھنے والے ۔ خوش نصیب۔ لوگ "۔ جو کہ کفر و شرک اور زیغ و ضلال وغیرہ کی کدورات اور اوساخ سے سالم و محفوظ ہوتے ہیں۔ سو ایسے ہی لوگ کفر و شرک کے اندھیروں سے محفوظ ہوتے ہیں۔ اور یہی ہیں جو خداوند قدوس کی تذکیر و یاددہانی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر آیت نمبر 8 میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الاَلْبَاب } ۔ جبکہ میلی اور زنگ آلود عقلیں اس شان سے عاری اور محروم ہوتی ہیں۔ وہ حق کو حق سمجھنے کی اہلیت و صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top