Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
اور اس کے برعکس جو لوگ بچتے ہیں طاغوت کی پوجا (و بندگی) سے اور وہ (صدق دل سے) رجوع کئے رہتے ہیں اللہ کی طرف ان کے لئے بڑی خوشخبری ہے سو خوشخبری سنا دو میرے ان بندوں کو
38 مفلحین کی پہلی صفت بندگی طاغوت سے اجتناب : سو " خاسرین " کے مقابلے میں " مفلحین " کی صفات کے بیان کے سلسلے میں پہلی صفت یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ لوگ بچتے رہے طاغوت کی بندگی سے۔ " طاغوت " اصل میں " طغیان " سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ جیسے " رحمت " سے " رحموت " اور " عظمت " سے " عظموت " وغیرہ۔ (ابوالسعود، ابن کثیر اور روح وغیرہ) ۔ اور یہ غیر اللہ کے لیے ایک جامع تعبیر ہے۔ اسی لئے اس کے معنیٰ میں کہا گیا ہے ۔ " کُلُّ مَا عُبِدَ مِنْ دُوْنَ اللّٰہِ " ۔ یعنی اللہ پاک کے سوا جس کی بھی پوجا کی گئی ہو وہ " طاغوت " ہے۔ بشرطیکہ اس کی رضا اس میں شامل ہو اگر وہ صاحب ارادہ ہو۔ کہ عبادت و بندگی اللہ وحدہ لاشریک ہی کا حق ہے۔ اس کے سوا کسی کی بھی عبادت و بندگی بجا لانا بڑی سرکشی اور طغیان ہے۔ اور چونکہ اس جرم عظیم کا اصل اور سب سے بڑا محرک ابلیس لعین ہی ہوتا ہے اس لئے عام طور پر طاغوت سے شیطان ہی مراد لیا جاتا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا مظہر چونکہ بت پرستی ہے جو کہ اصل میں شیطان ہی کے اغواء واضلال سے کی جاتی ہے اس لئے اس سے بت اور بتوں کی پوجا و پرستش بھی مراد لی گئی ہے۔ اپنے معنوی عموم کے لحاظ سے یہ لفظ ان سب ہی صورتوں کو شامل ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان طاغوت کی پوجا سے بچے اور اسکا انکار کرے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے تصریح فرمائی گئی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ { فَمَنْ یَکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُوْمِنْ باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَ انْفِصَامَ لَہَا } ۔ ( البقرۃ : 256) ۔ سو طاغوت عام ہے کہ خواہ مصنوعی بت اور مورتیاں ہوں یا جنات و شیاطین یا وہ لوگ جو دوسروں کو اللہ کی عبادت و بندگی اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے برگشتہ کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اور ہر موقع پر اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 39 مفلحین کی دوسری صفت انابت و رجوع الی اللہ : سو ان کی دوسری صفت کے بیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ رجوع کیے رہے اللہ کی طرف "۔ اس کے سوا سب سے منہ موڑ کر کہ حاجت روا و مشکل کشا اور امیدوں و آرزؤوں کا مرکز و مرجع وہی وحدہ لاشریک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو انابت و رجوع الی اللہ ایک ایسی عظیم الشان صفت ہے جو انسان کو اس صحیح راہ پر ڈال دیتی ہے جو اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار و سرفراز کرنے والی عظیم الشان راہ ہے۔ سو یہ مفلحین کی دوسری اہم صفت ہے جس کو یہاں بیان فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے لیے خوشخبری ہے یعنی ان کی ان اور ان عمدہ خصال وصفات کی بنا پر۔ سو ان ارشادات سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی اصل قدر و قیمت اس کی ایمان ویقین، اخلاق وصفات اور اس کے عمل و کردار سے ہے نہ کہ دوسرے مصنوعی فوارق پر۔ اور دوسری حقیقت یہ واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کے صلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے قلب وباطن سے ہے نہ کہ محض ظواہر و مظاہر پر۔ جیسا کہ بہت سے ظاہر پرست لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔ اور تیسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہی کہ اس کی باطنی صفات و خصال میں اصل اہمیت ان ہی دو صفتوں کی ہے۔ یعنی بندگی طاغوت سے احتراز و اجتناب اور اللہ تعالیٰ کی طرف انابت و رجوع کہ انہی دو بنیادی صفتوں کی بنا پر وہ فیضان خداوندی سے سرفراز و بہرہ ور ہوتا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top