Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
اور بلاشبہ ہم نے اس کو ان کے درمیان طرح طرح سے پھیرا ہے تاکہ لوگ سبق لیں مگر لوگوں کی اکثریت ایمان و یقین سے متعلق ہر اچھے روئیے کا انکار ہی کرتی رہی اور انہوں نے نہیں اپنایا مگر کفر اور ناشکری ہی کو
62 حکمت تصریف کی توضیح و تشریح : سو اس سے قرآن حکیم کو مختلف اسالیب میں بیان کرنے کے احسان کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ ہم نے اس کو انکے درمیان طرح طرح سے پھیرا ہے تاکہ لوگ سبق لیں "۔ یعنی ہدایت کے اس مضمون کو ہم نے طرح طرح سے بیان کیا ہے تاکہ لوگ سبق لیں اور نصیحت حاصل کرلیں۔ اور ہدایت کے نور سے اپنے باطن کو منور کریں کہ اس میں ان کی سعادت و کامرانی ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور یہ تفسیر مبنی ہے اس قول و احتمال پر کہ { صرفناہ } کی ضمیر مفعول کا مرجع قرآن ہے۔ جیسا کہ بعض اہل علم نے اس کو ترجیح دی ہے۔ جبکہ اس میں دوسرا قول و احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر کا مرجع بارش ہی ہو۔ یعنی ہم اس بارش کو پھیر پھیر کر برساتے ہیں۔ کبھی کہیں کبھی کہیں۔ کہیں کم کہیں زیادہ۔ اور کہیں مسلسل و لگاتار اور کہیں بالکل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ بارش کسی سال کم یا زیادہ نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کے اعمال کے مطابق اس کو پھیرا کر کبھی کہیں اور کبھی کہیں کسی جگہ کم اور کسی جگہ زیادہ برسایا جاتا ہے۔ جس سے کسی پر انعام کرنا اور کسی کو عذاب دینا مقصود ہوتا ہے وغیرہ۔ تو یہ اس کی قدرت بےنہایت اور رحمت و عنایت بےغایت کی عظیم الشان دلیل ہے۔ مگر لوگوں کی اکثریت ہے کہ اس میں غور کرنے اور سبق لینے کی بجائے کفر و ناشکری ہی کی راہ پر چلی جا رہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف یہ قدرت کی رحمت و عنایت کا ایک عظیم الشان مظہر ہے جس میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیکر انسان اپنے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرسکتا ہے۔ لیکن ٹیڑھی کھوپڑی اور الٹی سمجھ والے لوگ اپنی کج فکری اور الٹی روش کی بنا پر الٹا اس سے اپنی ہلاکت و محرومی کا سامان کرتے ہیں۔ کوئی اس کو اپنی دیویوں اور دیوتاؤں کی کارستانی کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ کوئی اس کو ستاروں کی طرف منسوب کرتا ہے اور کوئی کسی اور طرف ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ نور معرفت و بصیرت سے سرشار و سرفراز رکھے ۔ آمین۔
Top