Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 40
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا
وَلَقَدْ اَتَوْا : اور تحقیق وہ آئے عَلَي : پر الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْٓ : وہ جس پر اُمْطِرَتْ : برسائی گئی مَطَرَ السَّوْءِ : بری بارش اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا : تو کیا وہ نہ تھے يَرَوْنَهَا : اس کو دیکھتے بَلْ : بلکہ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے نُشُوْرًا : جی اٹھنا
اور یقینی طور پر ان لوگوں کا گزر اس بستی پر بھی ہوتا ہے جس پر ایک بڑی بری بارش برسائی جا چکی ہے تو کیا یہ لوگ اس کو دیکھتے نہیں نگاہ عبرت و بصیرت سے ؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی امید اور توقع ہی نہیں رکھتے
47 قوم لوط کی بستی سے درس عبرت لینے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا " اور یقینا ان لوگوں کا گزر اس بستی پر بھی ہوتا ہے جس پر بڑی بری بارش برسائی گئی ہے "۔ اس سے مراد قوم لوط کی وہ تباہ شدہ اور الٹی ہوئی بستیاں ہیں جسکے باشندے اپنے خلاف وضع فطری فعل کے ارتکاب کی بنا پر اس ہولناک اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے تھے۔ اور اہل مکہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران ان کی ان تباہ شدہ بستیوں پر سے گزرا کرتے تھے۔ اس لئے ان کو اس طرح دعوت غور و فکر دی گئی ہے کہ یہ لوگ دوسری قوموں کے حالات سے اگر ناواقف و نابلد ہیں تو کیا یہ اس بدبخت قوم کے انجام سے بھی ناواقف ہیں جو کہ ان سے زیادہ دور بھی نہیں ؟ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ } ۔ یعنی وہ بستی آج کے ان ظالموں سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ (ھود :83) اور اپنے تجارتی سفروں کے دوران یہ لوگ ان کے کھنڈرات اور ان کے آثار و نشانات پر سے رات دن گزرتے رہتے ہیں۔ تو پھر یہ ان کے اس انجام سے درس عبرت کیوں نہیں لیتے۔ مگر غافلوں کی غفلت کا ہمیشہ یہی حال رہا کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے ۔ الا ما شاء اللہ - 48 کیا یہ لوگ اس کو دیکھتے نہیں ؟ : یعنی اس میں غور و فکر سے کام نہیں لیتے تاکہ ان کو درس عبرت مل سکے۔ سو صرف ظاہری آنکھوں سے دیکھنا کافی نہیں کہ یہ دیکھنا تو حیوانوں کا دیکھنا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کو بھی حاصل تھا۔ کیونکہ ایسا دیکھنا نہ مقصود ہے نہ مطلوب۔ بلکہ مقصود و مطلوب وہ دیکھنا ہے جو دل کی آنکھوں سے اور عبرت و بصیرت کی نگاہ سے ہو جو کہ اس بارے غور کرنے کے لیے ہو کہ یہ کون لوگ تھے جن کے یہ کھنڈرات موجود و مشاہد ہیں۔ اور ان لوگوں کا یہ حشر و انجام آخر کیوں ہوا ؟ کس نے کیا ؟ اور اس میں ہمارے لئے کیا درس عبرت و بصیرت ہے ؟ وغیرہ۔ مگر انسان کی غفلت شعاری اور بےحسی کل بھی ایسے ہی تھی اور آج بھی ایسے ہی ہے کہ وہ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا اور کوئی دھیان نہیں کرتا ۔ الا ماشاء اللہ ۔ سو کل کی طرح آج بھی آثار قدیمہ کی حفاظت کے نام و عنوان سے گڑھے مردے تو جگہ جگہ سے کھود کھود کر نکالے جاتے ہیں اور اس پر بڑے بڑے اخراجات کے بوجھ بھی اٹھائے جاتے ہیں مگر عبرت گیری اور درس آموزی کے اصل مقصد سے دنیا آج بھی اسی طرح غافل ہے جس طرح کل تھی۔ بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر۔ اِلَّامَا شَائَ اللّٰہُ والعیاذ باللّٰہ العظیم ۔ سو آخرت کے عقیدئہ و یقین سے محرومی کے بعد انسان کی زندگی بےمقصد، لایعنی، حرارت سے خالی اور بجھ کر رہ جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور جس قدر اس بارے میں کسی کا ایمان و یقین پکا پختہ اور صحیح ہوگا اسی قدر اس کی زندگی سنجیدہ بامقصد اور فعال ہوگی ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ الّذِیْ شَرَّفَنَا بِنِعْمَۃِ اِلْاِیْمَانِ وَالْیَقِیْنِ ۔ اَللّٰہُمَّ فَزِدْنَا مِنْہُ و ثَبِّتْنَا عَلَیْہِ ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ و زلل سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ثابت و مستقیم رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔۔ 49 عقیدئہ آخرت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ان کے اصل مرض کی تشخیص کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی امید نہیں رکھتے۔ اس لیے یہ غیر ذمہ دار اور لاپرواہ ہو کر رہ گئے۔ ان کی نگاہیں دنیائے دوں کے عارضی فائدوں اور وقتی لذتوں میں اٹک کر اور کھو کر رہ گئیں اور فانی دنیا کے عارضی اور فانی فائدوں ہی کو انہوں نے اپنا مقصد بنالیا ہے۔ یہ اسی کیلئے جیتے اور اسی کیلئے مرتے ہیں۔ اس سے آگے دیکھنے اور سوچنے کیلئے یہ تیار ہی نہیں ہوتے۔ اور حق اور حقیقت کو دیکھنے اور جانچنے پرکھنے کیلئے یہ آنکھیں کھولتے ہی نہیں جس سے یہ اپنے قصد و اختیار سے اندھے اور اوندھے بن کر رہ گئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آدمی کی نگاہوں کے اندر بصیرت کی روشنی آخرت کے تصور ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر یہ چیز نہ ہو تو اس کی نگاہوں کو ٹک ٹک دیکھنے کے باوجود حق اور حقیقت کی کوئی چیز نظر نہیں آتی اور وہ دل کا اندھا بن کر رہ جاتا ہے۔ اور دل کا اندھا ہوجانا ہلاکت و تباہی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ۔ { فَاِنَّہَا لاَ تَعْمَی الاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ } ۔ (الحج : 46) سو " آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہوتے ہیں " ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top