Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 34
اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَ١ۙ اُولٰٓئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے عَلٰي : پر۔ بل وُجُوْهِهِمْ : اپنے منہ اِلٰى جَهَنَّمَ : جہنم کی طرف اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ شَرٌّ : بدترین مَّكَانًا : مقام وَّاَضَلُّ : اور بہت بہکے ہوئے سَبِيْلًا : راستے سے
جن لوگوں کو ان کے مونہوں کے بل گھسیٹ کر دوزخ کی طرف لایا جائے گا وہ اپنے ٹھکانے کے اعتبار سے بھی بہت برے ہیں اور اپنے راستے کے اعتبار سے بھی سب سے بدتر و گمراہ
41 دوزخیوں کی تذلیل و تحقیر اور ان کی بدحالی کی ایک تصویر : سو ان کی تذلیل و تحقیر اور بدحالی کی تصویر پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کو ان کے مونہوں کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ انکا ٹھکانا بھی بہت برا اور ان کا راستہ بھی سخت گمراہی کا "۔ یعنی جس طرح دنیا میں یہ لوگ حق کے مقابلے میں الٹے اور اوندھے ہو کر چلتے رہے تھے اسی طرح وہاں یہ الٹے اور اوندھے کر دئیے جائیں گے اور ان کو پاؤں کی بجائے مونہوں کے بل چلا کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے جب اس بارے عرض کیا گیا کہ وہ لوگ مونہوں کے بل کس طرح چلیں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس ذات نے ان کو پاؤں پر چلایا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ان کو مونہوں کے بل چلا دے ۔ والعیاذ باللّٰہِ الْعَزِیْزِ الّٰذِیْ لَا اِلٰہَ غَیْرُہ ۔ سو اس ارشاد ربانی میں { اضل سبیلا } سے اس طرف اشارہ فرما دیا گیا کہ گمراہوں کو اپنی اصل منزل کا پتہ نہیں ہوتا اور ان کو اس حقیقت کا احساس و داراک نہیں ہوتا کہ جس راہ پر وہ چل رہے ہوتے ہیں وہ سیدھی دوزخ کو جارہی ہے۔ اور آخرت میں جب ان کی اصل منزل یعنی دوزخ انکے سامنے آجائیگی تب ان کو پتہ چل جائے گا کہ وہ کس راہ پر چل رہے تھے اور اس کا انجام کیا تھا۔ مگر بےوقت کے اس افسوس سے ان کو فائدہ نہیں ہوگا سوائے آتش یاس و حسرت میں اضافے کے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو راہ حق و ہدایت سے محرومی کا نتیجہ و انجام بہرحال دوزخ اور وہاں کا ہولناک ٹھکانا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top