Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 23
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا
وَقَدِمْنَآ : اور ہم آئے (متوجہ ہونگے) اِلٰى : طرف مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیے مِنْ عَمَلٍ : کوئی کام فَجَعَلْنٰهُ : تو ہم کردینگے نہیں هَبَآءً : غبار مَّنْثُوْرًا : بکھرا ہوا (پراگندہ)
اور اس روز ہم متوجہ ہوں گے ان کے ان تمام اعمال کی طرف جو انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں کیے کرائے ہوں گے
31 اہل کفر و باطل کے اعمال بےوزن وبے حقیقت : سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ اہل کفر کے اعمال کو اس روز غبار پریشان کی طرح اڑا دیا جائے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ یعنی ان کے ایسے اعمال جو انہوں نے اپنے طور پر نیکی سمجھ کر کئے کرائے ہوں گے۔ مثلاً غریبوں کی پرورش، یتیموں کی خبر گیری، محتاجوں کو کھلانا پلانا، سڑکیں بنانا، ہسپتال قائم کرنا، فلاحی ادارے قائم کرنا وغیرہ وغیرہ۔ سو انکے ان تمام کاموں کو اس دن روزن دیوار سے داخل ہونے والی دھوپ میں اڑتے ہوئے نظر آنے والے ان بےوزن اور بےقدر و قیمت ذروں کی طرح غبار پریشان کر کے ضائع کردیا جائے گا۔ اور یہ وہاں پر ان کے کچھ بھی کام نہیں آسکیں گے۔ کیونکہ کفر و شرک کے باعث ایسے اعمال کسی بھی درجہ میں وہاں پر قابل قبول اور لائقِ اعتناء نہیں ہوں گے کہ قبولیت عند اللہ کے لئے ایمان و توحید کی شرط بنیادی شرط اور اولین اساس ہے۔ اسی لئے دوسری جگہ ان اعمال کو راکھ کے اس ڈھیر سے تشبیہ دی گئی ہے جس کو ایک سخت زور دار ہوا اڑا کر " کَاَن لَّمْ یَکُنْ " کر دے۔ اس پر یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ پھر اللہ پاک کے اس عدل و انصاف کا ظہور ان کے حق میں کس طرح ہوگا جس کے مطابق ہر عمل پر بدلہ دیئے جانے کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ کسی کا عمل ضائع نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے کہ قرآن پاک میں دوسرے مقامات پر اس کی تصریح فرما دی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کے اس طرح کے تمام اعمال کا بدلہ ان کو اسی دنیا میں دے دیا جائے گا اور بس۔ چناچہ دنیاوی مال و منال، جاہ و جلال، صحت و عافیت، سیادت و قیادت، حکومت و اقتدار اور شہرت و ناموری وغیرہ کی طرح طرح کی نعمتوں کی شکل میں ان لوگوں کو جو نوازا جاتا ہے ان کے ذریعے ان کا حساب کتاب یہیں چکا دیا جاتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے دوزخ کی آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ چناچہ اس بارے میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ ، اُوْلِٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِیْ الاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَبَاطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ۔ (ہود : 16-15) ۔ سو آخرت میں اعمال کی قبولیت اور ان کے نافع ہونے کے لئے تین شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایمان و یقین، صدق و اخلاص اور اتباع ھدی ۔ وباللہ التوفیق ۔ ورنہ وہاں پر کسی عمل کا کوئی وزن نہیں ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top