Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا (آدم سے کہ) اے آدم رہو تم بھی اور تمہاری بیوی بھی جنت میں اور کھاؤ (پیو) تم اس میں بفراغت جہاں سے چاہو مگر اس درخت کے قریب بھی مت پھٹکنا ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے
109 آدم و حوا کے لیے جنت کی نعمتوں کی اباحت و اجازت کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرت آدم و حوا کو جنت کی نعمتوں سے متمتع ہونے کی پوری آزادی : پس تم اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جہاں سے چاہو کھاؤ پیو اور جیسے چاہو فائدہ اٹھاؤ، نہ کسی محنت کی ضرورت، نہ مشقت کی، نہ ختم ہوجانے کا کوئی ڈر، نہ کسی کمی کا کوئی خطرہ، کہ جنت کی نعمتوں کی شان یہی ہے کہ نہ وہاں کوئی روک ہے نہ ٹوک، اور ان کی شان ہے۔ { لامَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃ } ۔ اور یہ اس لئے کہ جنت اور اس کی یہ نعمتیں اس اکرم الاکرمین کی طرف سے ضیافت و مہمانی ہیں جس کی رحمت و عنایت کا کوئی کنارہ نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ } ۔ بہرکیف حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے حضرت آدم اور حوا دونوں کو ارشاد فرمایا گیا کہ تم اس جنت سے پوری وسعت اور فراغت کے ساتھ جہاں سے چاہو کھاؤ پیو۔ تاکہ اس طرح تم تمام ماکولات اور مشروبات کے آثار و خواص اور منافع و مضار سے آگاہ ہو سکو اور پھر اپنے اسی علم و تجربے کے مطابق دنیا کے ماکولات و مشروبات میں تصرف کرسکو اور زمین میں تمہارے لیے جو اشجار و اثمار وغیرہ پیدا کیے گئے ہیں ان سے نفع اٹھا سکو اور ان کے مضار سے بچ سکو ( معارف للکاندھلوی ) ۔ 110 شجرہ ممنوعہ سے قرب کی ممانعت کا ذکر وبیان : سو اس سے واضھ فرما دیا گیا کہ آدم و حوا کو شجرئہ ممنوعہ کے قریب پھٹکنے کی بھی ممانعت : تاکہ اس طرح تم حکم عدولی اور معصیت و نافرمانی کے اسباب و خطرات سے بھی دور اور محفوظ رہو۔ سو اس میں سدّ ذرائع کی تعلیم ہے، جو کہ شریعت مطہرہ کی حکمتوں بھری تعلیمات مقدسہ کا ایک اہم عنصر ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ وہ درخت کو نسا تھا ؟ تو اس کے متعلق قرآن پاک کی نصوص مطہرہ یا کسی صحیح حدیث میں کوئی تحدید و تعیین نہیں فرمائی گئی۔ البتہ حضرات مفسرین سے اس بارے مختلف اقوال منقول ہیں کہ یہ درخت گندم کا تھا، یا انگور کا، یا انجیر کا، وغیرہ۔ مگر جب نصوص شرعیہ میں سے کسی میں اس کی تصریح و تعیین نہیں فرمائی گئی، تو از خود اس کی تعیین و تصریح کی نہ تو کوئی ضرورت ہے، اور نہ ہی اس بارے یقین و وثوق کے ساتھ کوئی بات کہی جاسکتی ہے۔ سو جب کلام خداوندی میں اس کا ذکر مبہم طور پر آیا ہے تو اسے ابہام کے اس پردے میں ہی رہنے دیا جائے، کہ سلامتی اور بہتری کی راہ تو بہرحال یہی ہے، جیسا کہ محققین کا ارشاد ہے کہ ۔ " اَبْہِمُوْا مَا اَبْہَمَہُ الْقُرْآنُ " ۔ " جس چیز کو قرآن نے مبہم رکھا ہو تم بھی اس کو مبہم ہی رہنے دو "۔ بہرکیف کوئی درخت وہاں پر ایسا تھا جسکے بارے میں حضرت آدم سے بطور ابتلاء و آزمائش یہ ارشاد فرمایا گیا تھا کہ تم اس کے قریب بھی نہ پھٹکنا، ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف آدم وحوا کو جنت میں پوری آزادی کے باوجود ایک خاص درخت سے روکا گیا تھا۔
Top