Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب وہ قوت ایمان و یقین سے معمور و سرشار مجاہد میدان کارزار میں نکلے تو انہوں نے ظاہری اسباب و وسائل کے فرق و تفاوت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور عرض کیا اے ہمارے رب اپنے خاص کرم اور عنایت سے ہم پر فیضان فرما دے صبر اور استقامت کا ہمیں نواز دے ثابت قدمی کے جوہر سے اور ہماری مدد فرما ان کافر لوگوں کے مقابلے میں4
714 سچے اہل ایمان کا قابل تقلید نمونہ : کہ وہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگئے اور اسی سے دعا کرنے لگے۔ سو یہ طریقہ ہے مومن صادق کا، کہ وہ اپنے بس کی حد تک ضروری اسباب و وسائل تیار کرلے۔ اور مقدور کی حد تک ان سے کام بھی لے، مگر اصل بھروسہ اور اعتماد ان اسباب و وسائل پر نہیں، بلکہ ان اسباب کے خالق ومالک پر رکھے، کہ سب کچھ اسی کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے۔ اور یہ سب چیزیں اسی کے حکم و فرمان کے تابع ہیں۔ پس جان بوجھ کر اسباب و وسائل سے منہ موڑنا، اور ان کو ترک کرنا بھی غلط ہے۔ اور اسباب ہی پر تکیہ کرنا، انہی کو سب کچھ سمجھ لینا اور مسبب الاسباب کی طرف رجوع نہ کرنا، اس سے بھی برا ہے ۔ وَالْعَیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ اور نبئ اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ اپنے بس کی حد تک اپنے اسباب کو اپناؤ اور پوری طرح اپناؤ، لیکن بھروسہ ان اسباب پر نہیں، بلکہ مسبب الاسباب پر رکھو۔ سو یہی طریقہ ہے جو کہ افراط وتفریط دونوں کی انتہاؤں سے محفوظ، اور عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ اس لیے مومن صادق ضرورت کی حد تک اور اپنی ہمت و بساط کے مطابق اسباب و وسائل یکجا کرنے کے بعد معرکہ کارزار میں اپنے رب ہی کی طرف رجوع کرتا اور اسی سے مدد مانگتا ہے، جیسا کہ ان حضرات نے اس موقع پر کیا، کہ حاجت روا و مشکل کشا سب کا بہرطور اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن آج کا جاہل مسلمان ایسے مشکل مواقع میں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اس کی کسی عاجز مخلوق کی طرف رجوع کرتا، اور اسی کو پکارتا ہے۔ کوئی کہتا ہے " یا علی مدد "، کوئی " پیر دستگیر "، اور کوئی شرکیہ راگ الاپتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ حالانکہ اللہ کے یہ سب پیارے اپنی حاجتوں میں اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ 715 سوال و دعاء ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی سے : سو ان بندگان صدق وصفا نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے ہمارے رب ہم پر فیضان فرما دے صبر کا۔ ہمیں نواز دے ثابت قدمی سے اور ہماری مدد فرما کافر لوگوں کے مقابلے میں۔ سو یہ دوسری اہم بنیاد ہے اسلامی عقائد کی، کہ رجوع ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف کیا جائے، اور دعاء اسی سے مانگی جائے کہ حاجتوں کو پورا کرنا اور مشکلات کو دور کرنا اسی وحدہ لاشریک کی شان اور اسی کا کام ہے۔ اسی کی تعلیم قرآن و سنت کی نصوص کریمہ میں جا بجا اور طرح طرح سے دی گئی ہے۔ صحیحین وغیرہ کی مشہور حدیث میں حضرت نبئ معصوم ﷺ کا ارشاد ہے " اِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَل اللّٰہ " کہ جب تم سوال کرو تو اللہ ہی سے کرو " وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہَ " یعنی جب تم مدد مانگو تو اللہ ہی سے مانگو، اور قرآن حکیم میں بھی صاف اور صریح طور پر اسی کا حکم دیا گیا ہے کہ تم لوگ مجھ ہی کو پکارو میں تمہاری دعاء و پکار کو سنوں گا ۔ { اُدْعُوْنی آَٓسْتَجِبْ لَکُمْ } ۔ نیز مومن کو سکھایا گیا کہ وہ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھے { اِیاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } " مالک ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، اور کرتے رہیں گے، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے " مگر افسوس کہ اس سب کے باوجود آج کا جاہل مسلمان اللہ پاک کو چھوڑ کر اس کی عاجز مخلوق کو پکارتا اور اسی سے مدد مانگتا ہے، اور وہ " یا علی مدد "، " یا حسین "، " یا غوث "، اور " یا پیر دستگیر " جیسے طرح طرح کے شرکیہ نعرے لگاتا ہے۔ سچ فرمایا قرآن حکیم نے { وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ باللّٰہ الاَّ وَھُمْ مُّشرِکُوْنَ } کہ ان کی اکثریت ایسی ہے جو ایمان لانے کے باوجود شرک میں مبتلا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ کفر و شرک کے ہر شائبہ سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ راہ حق و صواب پر گامزن رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top