Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور لڑو تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرنا5 کہ بیشک اللہ پسند نہیں فرماتا زیادتی کرنے والوں کو
525 تم ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں : تاکہ وہ حق کا راستہ روکنے نہ پائیں، اور اس طرح بول بالا حق اور اہل حق ہی کا ہو، کہ حق ہی کا یہ حق ہے کہ وہ غالب رہے، اور اسی میں بھلا ہے خلق خدا اور اس پوری کائنات کا۔ سو اسلامی تعلیمات کی رو سے جہاد و قتال کا اصل مقصد یہی ہے کہ غلبہ حق ہی کا ہو، اور باطل اور اس کے کارندے و کارپرداز حق کی راہ میں روڑے نہ اٹکا سکیں، اور وہ اپنے کفر و باطل پر چلیں تو بھی اسلام کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے کہ حق بہرحال یہی اور صرف یہی ہے، جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { حَتّٰی یُوْتُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ } ۔ (توبہ :29) ۔ سو اس ارشاد ربانی میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ اگر حج کے سلسلہ میں جنگ کی نوبت آجائے تو تم لڑ سکتے ہو کہ ایسے میں " اشہر حرم " کے اندر دفاعی جنگ جائز ہے۔ البتہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا کہ یہ بات اللہ کو پسند نہیں۔ پس نہ تو تم لوگ " اشہر حرم " میں جنگ کیلئے پہل کرنا اور نہ ہی ضرورت پڑنے پر جنگ کی صورت میں ضرورت سے زیادہ کوئی کاروائی کرنا کہ ایسی کسی بات کی تمہیں اجازت نہیں۔ سو اسلامی جہاد کا اصل مقصد راہ حق کی رکاوٹیں دور اور صاف کرنا ہے۔ 526 اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا : پس نہ تو تم " حدود حرم " اور " اشہر حرم " میں ازخود لڑائی کا آغاز کرو، اور نہ لڑائی کے دوران بوڑھوں، بچوں، عورتوں، اور معذوروں، کو قتل کرو اور نہ مثلہ کرو، کہ یہ سب کچھ اعتداء اور تجاوز و زیادتی میں داخل ہے۔ سبحان اللہ ! کیا کہنے اس دین حق کی ان رحمت بھری تعلیمات اور اس کی عظمت شان کے، کہ عین جنگ کے دوران بھی زیادتی اور بےرحمی کے ارتکاب سے روکا جا رہا ہے، اور رحمت و شفقت اور حدود کی پابندی و التزام کا درس دیا جا رہا ہے۔ کیا ہے دوسرا کوئی دین اور نظام جو اس کا کوئی نمونہ پیش کرسکے سوائے خدائے رحمن و رحیم کے اس دین حق کے ؟ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے " اشہر حرم " میں دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی ہے، مگر اتنی اور اس قدر جتنی کہ مدافعت کیلئے ضروری ہو۔ اس سے آگے بڑھنے اور تجاوز کی اجازت نہیں، کہ دین حنیف میں حدود کی پابندی لازم اور ضروری ہے۔
Top