Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
سَاَلَكَ
: آپ سے پوچھیں
عِبَادِيْ
: میرے بندے
عَنِّىْ
: میرے متعلق
فَاِنِّىْ
: تو میں
قَرِيْبٌ
: قریب
اُجِيْبُ
: میں قبول کرتا ہوں
دَعْوَةَ
: دعا
الدَّاعِ
: پکارنے والا
اِذَا
: جب
دَعَانِ
: مجھ سے مانگے
ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا
: پس چاہیے حکم مانیں
لِيْ
: میرا
وَلْيُؤْمِنُوْا
: اور ایمان لائیں
بِيْ
: مجھ پر
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَرْشُدُوْنَ
: وہ ہدایت پائیں
اور جب پوچھیں آپ سے اے پیغمبر میرے بندے میرے بارے میں تو واضح رہے کہ میں بہت ہی قریب ہوں3 سنتا اور قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی پکار کو جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے پس ان کو چاہیے کہ یہ میرا حکم بجا لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ یہ راہ رشد و صواب پاسکیں
507 بندوں کا سوال اپنے رب کے بارے میں اور رب کی طرف سے اس کا جواب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں کہ میں ان کے قریب ہوں یا دور، جیسا کہ روایات میں وارد ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ " کیا ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس کو آہستہ سے پکاریں، یا دور کہ اسے زور زور سے پکاریں " ۔ " اََرَبُّنَا قَرِیْبٌ فَنُنَاجِیْہ اَمْ بََعِیْدٌ فَنُنَادِیْہِِ ؟ " ۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (صفوۃ التفاسیر، جامع البیان، روح المعانی، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اور اس میں صاف اور صریح طور پر بتادیا گیا کہ تمہارا رب تمہارے نہایت قریب ہے۔ اس لیے اس کو بلانے پکارنے کیلئے زور لگانے کی ضرورت نہیں۔ پھر کتنا قریب ہے اس کی تفصیل اگلے حاشیے میں آرہی ہے۔ اور یہ آیت کریمہ دراصل تمہید ہے ان تمام سوالوں کے جواب کی جو روزے کے حکم کے نزول کے بعد ماہ رمضان کے احترام اور روزے کے احکام و آداب سے متعلق لوگوں کے ذہن میں ابھرے، یا ان کی زبانوں پر آئے اور اللہ تعالیٰ نے انکا جواب دیا اور وضاحت فرمائی۔ سو ایسے لوگوں کو قرآن حکیم کے اس ارشاد سے یہ ہدایت فرمائی گئی کہ یہ لوگ اپنے اس طرح کے شکوک و شبہات اور اعتراضات کو خداوند قدوس اور اس کی شریعت مقدسہ کی مخالفت یا اس کی تنقید و تضحیک کا ذریعہ نہ بنالیں، بلکہ انکے سلسلہ میں رہنمائی کی طلب کیلئے یہ لوگ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کریں، اور جو کوئی صدق و اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، اللہ اس کی طلب کو ضرور پورا کرتا ہے۔ خواہ اس کی ایسی طلب کا تعلق کسی دنیاوی ضرورت سے متعلق ہو یا اخروی ضرورت سے۔ پس بندوں کا کام رب کی طرف دل و جان سے رجوع رہنا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 508 رب تعالیٰ کا قرب اپنے بندوں سے ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ میں بہت قریب ہوں اور اتنا قریب کہ ان کی شہ رگ جو کہ رگ جاں کہلاتی ہے، اس سے بھی زیادہ قریب ہوں، جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہ مِنْ حَبْل الْوَََرِیْد } ۔ (ق : 16) اور اتنا قریب کہ اس کے بندے جہاں اور جس حال میں بھی ہوں گے وہ ان کے ساتھ ہوگا، اپنے علم اور اپنے تصرف وقدرت کے اعتبار سے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ۔ { وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ } ۔ (الحدید : 4) نیز فرمایا گیا ۔ { اِلَّا ہُوََ مَعَہُمْ اَیْنََ مَا کَانُوْا } ۔ (المجادلہ : 7) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے سفر کے دوران ایک موقع پر کچھ حضرات اونچی آوازوں سے دعائیں کرنے لگے تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ لوگو ! تم اپنی جانوں پر رحم کرو [ اتنا زور لگانے کی ضرورت نہیں کہ ] جس کو تم پکار رہے ہو وہ نہ تو بہرا ہے اور نہ تم سے کہیں دور۔ وہ سب کچھ سننے والا، نہایت قریب ہے۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔ (المراغی، الروح وغیرہ) ۔ اور ایک اور صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ " جس کو تم پکارتے ہو وہ تم میں سے ہر شخص کے اس سے بھی زیادہ قریب ہے، جتنا کہ اس کی سواری کی گردن " ( صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعا الخ) ۔ شیخ سعدی (رح) نے کیا خوب فرمایا ۔ دوست من نزدیک تر از من است ۔ ویں عجیب ترکہ من ازو دورم ۔ یعنی " میرا محبوب تو میری جان سے بھی بڑھ کر مجھ سے قریب ہے، مگر یہ عجیب بات ہے کہ میں پھر بھی اس سے دور ہوں " اور شاید اسی قرب بےمثل کے اظہار وبیان کیلئے یہاں پر جواب میں " قل " کا لفظ بھی ذکر نہیں فرمایا گیا، یعنی یوں نہیں فرمایا گیا " فَقُلْ اِنِّیْ قَرِیْبٌ " ۔ " تم کہو کہ میں قریب ہوں " بلکہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ} ۔ " تو واضح رہے کہ میں بہت ہی قریب ہوں " حالانکہ ایسے سوال و جواب کے مواقع پر بالعموم لفظ " قل " ذکر فرمایا گیا ہے، جیسے سورة بقرہ میں فرمایا گیا ہے۔ { یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنََ قل الْعَفْوَ } ۔ (البقرۃ : 2 19) ۔ اور جیسے ۔ { یَسْئَلُوْنَکَ عََن الْیََتٰمٰٰی قُلْ اِصْلاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌٌٌ} ۔ (البقرۃ :220) یا جیسے ۔ { یََسْئَلُوْنَکَ عَن الْمَحِیْض قُلْ ہُوَ اَذًی } ۔ (البقرۃ : 222) وغیرہ وغیرہ۔ سو یہاں سے اہل بدعت کے اس خود ساختہ مشرکانہ فلسفے کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے، جو وہ لوگ اس طرح بگھارتے ہیں کہ صاحب، جب تم کسی دنیاوی بادشاہ کے حضور خود براہ راست نہیں پہنچ سکتے، اور پہنچ بھی جاؤ تو تمہاری وہاں کوئی شنوائی نہیں ہوتی، جب تک کہ تم کوئی ذریعہ اور وسیلہ نہ اپناؤ، تو جب دنیاوی بادشاہوں کے سامنے تم براہ راست اپنا مدعا عرض نہیں کرسکتے، تو پھر تم لوگ اللہ پاک کے حضور براہ راست کیسے پہنچ سکتے ہو ؟ پس لازم ہے کہ تم کچھ ایسے واسطے اور وسیلے اپناؤ جن کے ذریعے تم اپنی عرضداشت اس کے حضور پیش کرسکو کہ " ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے " وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ سب من گھڑت اور مشرکانہ فلسفہ طرازی ہے، اور خرابیوں کی خرابی اس مشرکانہ فلسفے میں یہ ہے کہ اس میں حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کو اس کی مخلوق پر قیاس کیا گیا ہے، جو کہ قطعی طور پر قیاس مع الفارق ہے۔ بھلا جو ذات اقدس و اعلیٰ ۔ سبحانہ تعالیٰ ۔ انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو، اس کو دنیاوی بادشاہوں اور عاجز مخلوق پر قیاس کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ ۔ { فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوّاً کَبِیْرًا } ۔ نیز یہاں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کو زور زور سے اور چیخ چیخ کر پکارنا، دین حق کے مزاج اور اس کی سچی اور پاکیزہ تعلیمات کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اوپر آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ " لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو، جس کو تم پکار رہے ہو وہ نہ بہرا ہے اور نہ کہیں دور "۔ بھلا جو ذات اقدس وا علیٰ اپنے صاف وصریح ارشاد کے مطابق انسان کے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو، اس کو چیخ چیخ کر اور زور لگا لگا کو پکارنے کی کیا ضرورت ؟ مگر اس کے باوجود آج ہمارے ملک کے اہل بدعت کا حال یہ ہے کہ وہ مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کو پوری پاور سے آن کر کے چیختے ہیں۔ اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک مرتبہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ایک اعلیٰ سطحی مجلس میں گفتگو کے دوران پاکستان کی عدالت عالیہ کے ایک جج صاحب اپنی نجی گفتگو میں فرما رہے تھے، کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب لوگ اپنے لئے مکان ایسی جگہ ڈھونڈا کرتے تھے جہاں مسجد نزدیک ہو، تاکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکیں، لیکن اب وہ مکان ایسی جگہ ڈھونڈتے ہیں، جو کہ مسجد سے کہیں دور ہو، تاکہ وہاں کے شور سے بچ سکیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے ایک اور جج صاحب نے اس موضوع پر " لاؤڈ سپیکر کا ظالمانہ استعمال " کے، عنوان سے ایک مستقل مضمون بھی حال ہی میں لکھا، جو کہ خاصا مقبول ہوا اور ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں چھپا، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ لوگ اس طرح کے شور شرابے سے کس قدر تنگ ہیں۔ مفسر مصطفیٰ مراغی مرحوم نے اس موقع پر اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو زور زور سے پکارنا اور یاد کرنا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ (تفسیر المراغی) ۔ پھر کیا خیال ہے ان لوگوں کے بارے میں جو اس خلاف ورزی پر اڑے ہوئے ہیں ؟ اور اس کے خلاف وہ حق و ہدایت کی کوئی آواز بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اور وہ اپنے چیخنے چلانے ہی کو دین کا تقاضا سمجھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ من کل زیع و ضلال - 509 قبولیت دعاء مشیت خداوندی کے تابع : سو ارشاد فرمایا گیا کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ یعنی اپنی حکمت و مشیئت کے مطابق۔ اور ویسا جیسا کہ انسان کیلئے بہتر ہوتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { فَیََکْشِفُ مََا تَدْعُوْنَ اِلَیْہ اِنْ شَائَ } ۔ (الانعام : 4 1) سو دعا قبول کرنا بھی دوسرے تمام امور کی طرح اس ۔ وحدہ لاشریک ۔ کی مشیئت کے تابع ہے کہ وہی جانتا ہے کس کیلئے کیا اور کیسے بہتر ہے۔ سبحانہ تعالیٰ ۔ دعاء سے متعلق دوسری ضروری باتیں راقم آثم نے اپنی کتابوں خاص کر " تحفہ علم و حکمت " اور " قرآن و سنت کی مقدس دعائیں " میں کافی تفصیل سے بیان کردیا ہے جو کہ عرصہ ہوا چھپ چکی ہیں ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ ۔ تفصیل کیلئے ان کی رجوع فرما لیا جائے۔ بہرکیف بندے کا کام ہے مانگنا۔ آگے قبول کرنا اور کس طرح قبول کرنا یہ سب اس کی مشیئت کے تابع ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اللہ تعالیٰ پر صدق دل سے ایمان لانا اور اس کے احکام کی بجاآوری انسان کیلئے راہ حق و ہدایت سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ بندہ جب اپنے رب کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کو سنتا اور قبول فرماتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ بندہ اپنے رب کو پکارے اور وہ اس کی مدد نہ فرمائے، اور اس کی داد رسی اور فریاد رسی کو نہ پہنچے۔ شرط صرف یہ ہے کہ بندہ اسکا بندہ بن کر اس کو اخلاص و تضرع کے ساتھ پکارے، اور اس کو اسی چیز کیلئے پکارے جس کیلئے پکارنا اس کو زیبا ہے۔ اگر بندہ اپنے رب سے وہ کچھ مانگے جو مانگنے کا ہے، اور اس طرح مانگے جس طرح مانگنا چاہیئے تو وہ کچھ اس کو ضرور عطا فرمایا جائے گا۔ اگر فوراً نہیں ملتا تو اس کو اس کے مستقبل یا اس کی آخرت کیلئے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ اور اگر اس کو وہ اس شکل میں نہیں ملتا جس میں وہ اس سے مانگتا ہے تو اس سے بہتر صورت میں مل جاتا ہے۔ یا اس کے نتیجے میں کسی اور سختی اور مصیبت کو اس سے ٹال دیا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن و سنت کی مختلف نصوص میں ان تمام باتوں کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ اس لیے اپنے رب سے مانگنا بہرکیف کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتا۔ پس بندے کا کام اور اس کی بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے رب سے ہمیشہ مانگتا ہی رہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 510 ایمان و اطاعت باعث سرفرازی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ایمان و اطاعت رشد و ہدایت سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ یعنی یہ رشد و ہدایت کی اس راہ کو پاسکیں جس پر چل کر یہ لوگ دنیاوی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوں، اور اخروی فوز و فلاح سے بھی۔ سو راہ حق و ہدایت سے سرفرازی قدرت کا سب سے بڑا اور عظیم الشان عطیہ ہے اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اس قدر قریب بھی ہے، اور وہ ان کی دعاء و پکار کو سنتا اور قبول بھی فرماتا ہے تو پھر اسی کا ان پر یہ حق ہے کہ یہ اس کی دعوت پر لبیک کہیں اور صدق دل سے اس پر ایمان لائیں۔ اور اس طرح رشد و ہدایت اور راہ صدق وصفات سے سرفراز و بہرہ ور ہوں۔ کیونکہ اس کے بعد اس کی طرف سے روگردانی کرنے اور کسی اور کی طرف متوجہ ہونے کیلئے کوئی ادنی وجہ جواز بھی باقی نہیں رہتی ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و ضلال وسوء وانحراف۔
Top