Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو کہ وہ وصیت کر جائے اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق مناسب طور پر یہ حق ہے پرہیزگاروں کے ذمے1
489 وصیت کی فرضیت اور اس کی منسوخی : شروع میں یہ وصیت کرنا مرنے والے کے ذمے فرض تھا، لیکن بعد میں جب آیت میراث نازل ہوگئی، اور ہر صاحب حق کا حصہ مقرر کردیا گیا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ چناچہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے۔ پس اب کسی وارث کیلئے کوئی وصیت نہیں " فَلا وَصَیَّۃَ لَوارثٍ " (ترمذی، کتاب الوصایا) ۔ لہذا اب وارث کیلئے وصیت کرنا جائز نہیں، الا یہ کہ دوسرے ورثاء اس سے راضی ہوں۔ اور وہ اس وصیت کی اجازت دے دیں۔ کیونکہ ابن عباس ؓ کی روایت کے مطابق اس حدیث میں یہ استثناء موجود ہے " اِلَّا اَنْ تُجِیْزُہُ الْوَرَثَۃُ " البتہ یہ وصیت ثلث سے زیادہ نہیں ہونی چاہیئے، جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مگر واضح رہے کہ یہ بیان اس وصیت کا ہے جس کا تعلق مرنے والے کے مال اور اس کے ترکہ سے ہو، کہ یہ اب منسوخ ہوگئی ہے۔ رہ گئی وہ وصیت جس کا تعلق ان حقوق سے ہو جو کہ مرنے والے کے ذمے دوسرے لوگوں کے عائد ہوتے ہوں، جیسا کہ دوسروں کے مختلف قروض، دیون اور امانات، وغیرہ تو ان سے متعلق وصیت کرنا اس کے ذمے اب بھی لازم ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ اس پر دو یا تین راتیں گزریں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔ بہرکیف وصیت معروف اور دستور کے مطابق ہونی چاہیئے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
Top