Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جن (کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب ان) کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم سب تو اللہ ہی کا مال ہیں،1 اور ہمیں بہرحال اسی کے یہاں لوٹ کر جانا ہے،2
427 ہم سب اللہ تعالیٰ ہی کا مال ہیں : اور مالک اپنی ملکیت میں جو تصرف چاہے فرمائے۔ اس پر کسی چون و چرا کی گنجائش ہی کیا ہوسکتی ہے۔ پھر ہمارا خالق ومالک تو اس کے ساتھ ساتھ رحمن و رحیم اور حکیم و کریم بھی ہے۔ اس لئے وہ ہم سے جو بھی معاملہ فرماتا ہے اس میں ہماری خیر اور بہتری ہی ہوتی ہے اگرچہ ہم اس کو نہ سمجھ سکیں۔ کیونکہ وہ ہم پر خود ہم سے بھی کہیں بڑھ کر مہربان ہے۔ " اَرْحَمُ بِنَا مِنَّا لِاَنْفُسِنَا " ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ فَلَکَ الْحَمْدُ وََالشَّکْرُ یَارَبِّیْ عَلٰی کُلِّ حَالٍ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ حََال اَہْل النَّارِ ۔ سو صبر و شکر مومن کی عظیم الشان صفات میں سے ہیں، اور یہ دونوں صفتیں ایسی عظیم الشان صفتیں ہیں کہ مومن کی ہر حالت کو اس کیلئے خیر بنا دیتی ہیں۔ نعمت ملے تو بھی اور تکلیف پہنچے تو اس کو بھی۔ اور یہ شان مومن کے سوا اور کسی کو نصیب نہیں ۔ والحمدللہ جل و علا ۔ جبکہ دولت ایمان سے محروم لوگوں کا معاملہ اس سے یکسر مختلف اور بالکل برعکس ہیـ۔ ان کو نعمت ملتی ہے تو بھی ان کے لیے عذاب بنتی ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بھی عذاب بن جاتی ہے۔ 428 سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " صبر والے کہتے ہیں کہ ہم سب یقینا اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم سب نے بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے "۔ اور وہاں پہنچنے پر وہ واہب مطلق ۔ جل و علا شانہ ۔ ہمیں اپنی رحمت بےنہایت کی بنا پر اس سے بھی کہیں بڑھ کر ان نعمتوں سے نوازے گا جن کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ فَلَہُ الْحَمْدُ وَلَہُ الشُّکْرُ ۔ سو اس کے سامنے دنیا کی یہ ساری آزمائشیں اور یہ تمام نقصان کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے، کہ آخرت کی وہ نعمتیں دائمی اور ابدی ہیں۔ اور اس اکرم الاکرمین کی مزید شان کرم ملاحظہ ہو کہ اس کی ان پاکیزہ اور مقدس تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان کو مصیبت پر بھی اور اسی دنیا میں عظیم الشان اجر وثواب سے نوازا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بطور نمونہ صحیح مسلم وغیرہ کی یہ حدیث ملاحظہ ہو جو کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ حضرت نبئ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے مصیبت پر (صدق دل سے) یہ دعا پڑھی یعنی { اِنَّا لِلّٰہ } الخ۔ اور اس کے ساتھ مزید یہ ٹکڑا بھی ملا دیا " اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلِفْ لِیْ خَیْْرًا مِّنْہَا } " اے اللہ، مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور اس سے بہتر بدلہ عطاء فرما " تو اللہ پاک اس کو ضرور اس سے کہیں بہتر بدلہ عطا فرمائیگا۔ حضرت ام سلمہ ۔ ؓ ۔ فرماتی ہیں کہ جب میرے شوہر ابوسلمہ کا انتقال ہوگیا تو میں نے اس ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق یہ دعا تو پڑھی مگر میرے دل میں یہ بات تھی کہ ابو سلمہ سے بہتر اور کون ہوسکتا ہے جو کہ ان اور ان خوبیوں کے مالک تھے۔ مگر اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اس کا مصداق میرے سامنے آگیا کہ میرا دوسرا نکاح خود رسول اللہ ﷺ سے ہوگیا۔ سبحان اللہ ! قدرت کا کتنا عظیم تحفہ ہے یہ عظیم الشان دعا، جو اس اکرم الاکرمین نے اپنی رحمت و عنایت سے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے، مگر بندے ہیں کہ اس سے غافل و بیخبر ہیں، الا ماشاء اللہ۔ اور حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ یہ کلمہ اس امت ۔ امت مسلمہ ۔ ہی کو ملا ہے۔ پہلی امتوں میں یہ نہیں تھا۔ اسی لئے حضرت یعقوب (علیہ الصلوۃ والسلام) نے حضرت یوسف (علیہ الصلوۃ والسلام) کے غم میں اس کی بجائے ۔ { یََا اَسَفَا عَلٰی یُوْسُفَ } ۔ فرمایا تھا (معارف للکاندہلوی ) ۔ مگر واضح رہے کہ اس سے مراد محض زبانی طور پر پڑھ لینا نہیں بلکہ اصل مقصد اس کے معنی اور مطلب کو سمجھ کر اسے دل سے ادا کرنا ہے ۔ سبحان اللہ ! ۔ کتنا عظیم ہے یہ دین اور کس قدر سچی اور پاکیزہ ہیں اس کی یہ تعلیمات کہ اس سے مصیبت بھی نعمت بلکہ کئی نعمتوں کا ذریعہ اور مجموعہ بن جاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے " اِنَّمَا الْمُصَابُ مََنْ حُرِمَ الثَّوَابَ " کہ " مصیبت زدہ شخص تو درحقیقت وہ ہے جو [ اپنی بےعلمی اور بےدینی ۔ والعیاذ باللہ ۔ کی بنا پر ] اجر وثواب کی دولت سے محروم رہا "۔ ورنہ صابر و شاکر کیلئے تو اس کی مصیبت بھی الٹا نعمت، بلکہ کئی نعمتوں کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ فالحمدللہ رب العالمین۔
Top