Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، مدد حاصل کرو تم (اللہ سے) صبر اور نماز کے ذریعے، بیشک اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے،5
422 صبر و صلوۃ مدد خداوندی سے سرفرازی کے دو اہم ذریعے : سو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے دو بڑے ذریعے صبر اور نماز۔ یعنی مدد تو ہمیشہ اللہ ہی سے مانگو کہ مدد دینا بہرحال اسی وحدہ لاشریک کی شان اور اسی کا کام ہے، جیسا کہ بخاری و مسلم وغیرہ کی مشہور و معروف حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا گیا ۔ " واِذَا ساَلْتَ فَاسْئَل اللّٰہٗ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَََاسْتَعِنْ باللّٰہ " ۔ کہ جب تمہیں کچھ مانگنا اور سوال کرنا ہو تو اللہ ہی سے مانگو۔ اور اسی سے سوال کرو۔ اور جب مدد طلب کرنا ہو تو اسی وحدہ لاشریک سے طلب کرو "۔ اسی لئے مومن کو تعلیم دی گئی کہ وہ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں ۔ { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } ۔ کے ذریعے اس کے حضور اسی حقیقت کا اظہار اور اس کا اقرار و تکرار کرے، کہ " مالک ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، اور کرتے رہیں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے "۔ بہرکیف مدد دینے والا وہی وحدہ لاشریک ہے، اور اس کی اس مدد کے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ یہ ہے کہ صبر و صلوٰۃ سے کام لیا جائے کہ صلوٰۃ یعنی نماز کے ذریعے بندہ اپنے جسم و جان اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع ہوتا اور اس کی عبادت و بندگی میں مشغول رہتا ہے، اور صبر سے استقامت اور پختگی نصیب ہوتی ہے۔ اسی لئے بعض حضرات اہل علم کے نزدیک یہاں پر صبر سے مراد روزہ ہے، جو کہ صبر و استقامت کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ کی مدد سے سرفرازی کیلئے صبر وصلاۃ دو عظیم الشان ذریعے ہیں۔ ان کے ذریعے ہمیشہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ وباللہ التوفیق - 423 اللہ تعالیٰ کی معیت اور اس کے ساتھ ہونے کا مطلب ؟ : یعنی " اللہ تعالیٰ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے "۔ اپنی تائید و نصرت اور مدد و عنایت کے اعتبار سے جو کہ عبارت ہے معیت خاصہ سے جو کہ اہل ایمان اور ان میں سے صابرین وغیرہ کے ساتھ مختص ہے۔ جبکہ اس کی معیت عامہ جو کہ احاطہ علم وقدرت کے معنی میں ہے وہ عام ہے اور سب ہی مخلوقات کو شامل ہے کہ وہ سب ہی اس کے احاطہء علم وقدرت میں داخل ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { ہُوَ مَعََکُمْ اََیْنَمََا کُنْتُمْ } ۔ (الحدید :4) اور جیسا کہ ۔ { وََہُُوَ مَعَہُمْ اَیْنَمَا کَانُُوْا } ۔ (المجادلۃ : 7) میں فرمایا گیا ہے۔ اور جب اللہ پاک کی تائید و نصرت اور اس کی معیت و عنایت خاصہ نصیب ہوجائے تو پھر اور کیا چاہیئے ؟ ۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین۔
Top