Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فساد مت مچاؤ تم لوگ (اللہ کی) اس زمین میں تو یہ لوگ کہتے ہیں (کہ نہیں صاحب) ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
28 کفر و نفاق، فساد فی الارض کی جڑ بنیاد، والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ اللہ کی زمین میں فساد مت مچاؤ اپنے کفر و نفاق سے جو کہ فساد کی جڑ بنیاد ہے۔ وَالْعِیَاذ باللَّہِ ۔ کما قال ابن مسعود ؓ (ابن جریر، ابن کثیر، محاسن، صفوہ، وغیرہ) سو کفر و نفاق خرابی و فساد کی جڑ بنیاد ہے، اگرچہ اس کے روگی اور علمبردار اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے اور بڑے خوشنما وعدے اور دعوے کرتے ہوں، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ امن و صلاح کا مدارو انحصار اس پر ہے کہ ہر ایک کے حقوق کی صحیح تعیین و تشخیص سے آگہی حاصل ہو، اور اس کے مطابق ان تمام حقوق کو ادا کرنے کی سعی اور کوشش کی جائے، اور حقوق میں سب سے پہلا، سب سے مقدم اور سب سے بڑا حق اس خالق ومالک کا ہے، جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور بلاشرکت غیرے اس میں حاکم و متصرف ہے، پھر اس کے بعد مخلوق کے حقوق ہیں جو کہ اپنے درجات و مراتب کے مطابق مختلف ہیں، اور ان تمام حقوق کو جاننا دین کی تعلیمات مقدسہ کے بغیر ممکن نہیں، اور جب حقوق کا صحیح علم نہیں تو پھر ان کی ادائیگی کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ بس جو لوگ دین حق کی تعلیمات مقدسہ کی ہدایات اور ان کی روشنی سے غافل و محروم ہیں، وہ سراسر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور وہ پرلے درجے کے فسادی ہیں، خواہ وہ اپنے طور پر اصلاح کے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں، اور اصلاح کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی سے مستنیر و سرشار ہوں۔ اور جو لوگ دین و ایمان کی روشنی سے محروم ہیں وہ بہرحال فسادی ہیں خواہ وہ اصلاح کے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں۔ کیونکہ پیغام حق و ہدایت کا انکار کرنے کے بعد انسان نہ اپنے خالق ومالک کا حق پہچان سکتا ہے اور نہ اس کی مخلوق اور خاص کر انسانی برادری کے حقوق کو پہچان سکتا ہے۔ تو پھر اصلاح کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے۔ سو اصل اور حقیقی اصلاح صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جبکہ پیغام الہی اور دستور خداوندی کی روشنی میں اور اسی کی ہدایت کے مطابق کی جائے۔ ورنہ وہ اصلاح نہیں فساد ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 29 منافقوں کے دھوکے کا ایک مظہر اور نمونہ : یہ منافقوں کی دھوکہ دہی کا ایک نمونہ و مظہر ہے کہ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ ہم مصلح ہیں، اور ہم اپنے صلح کن رویے سے مسلمانوں سے بھی بنائے رکھتے ہیں، اور کفار سے بھی، اور دونوں کو خوش رکھتے ہیں، حالانکہ ہوتا اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ ایسے لوگ اس منافقانہ رویے سے دونوں ہی کا اعتبار کھو بیٹھتے ہیں، کہ نہ ان پر مسلمانوں کو اعتبار رہتا ہے اور نہ کھلے کفار کو، اور یہ ہر طرف سے بےوزن اور بےاعتبار ہو کر دونوں کے درمیان ڈانواں ڈول رہتے ہیں جیسا کہ قرآن حکیم نے دوسری جگہ خود انکا حال اس طرح بیان فرمایا ہے ۔ { مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذَالِکَ لا الی ہٰٓؤُلاَئ وَلاَ اِلٰی ہٰٓؤلاَ } ۔ مگر اس کے باوجود ان کو نہ اپنی اس ذلت آمیز صورت حال کا شعور و احساس ہوتا ہے، اور نہ ہی اس کے اسباب کے ازالہ کی کوئی فکر و پرواہ، اور اگر دیکھا جائے تو آج کے مسلم معاشرے میں بھی بہت سے عناصر اسی منافقانہ روش کا شکار، اور اس کے ذلت آمیز نتیجہ و انجام سے دو چار ہیں، اور وہ اس سے بچنے کی فکر کرنے کے بجائے الٹا اس کو اپنی سیاست اور چالاکی قرار دیتے ہیں، اور اس طرح وہ اپنی منافقت کی اس دلدل میں مزید پھنستے اور دھنستے چلے جاتے ہیں۔ سو منافقت محرومیوں کی محرومی اور ذلت و خواری کا باعث ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَظِیْمِ-
Top