Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 92
اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ قَبِیْلًاۙ
اَوْ : یا تُسْقِطَ : تو گرادے السَّمَآءَ : آسمان كَمَا زَعَمْتَ : جیسا کہ تو کہا کرتا ہے عَلَيْنَا : ہم پر كِسَفًا : ٹکڑے اَوْ تَاْتِيَ : یا تو لے آوے بِاللّٰهِ : اللہ کو وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے قَبِيْلًا : روبرو
یا گرا دیں آپ ہم پر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے، جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے، یا ہمارے سامنے لے آئیں آپ اللہ اور اس کے فرشتوں کو،
166۔ آسمان کے ٹکڑے کرادینے کا مطالبہ :۔ سو انہوں نے کہا یا گرا دو ہم پر آسمان کے ٹکڑے جیسا کہ آپ کا دعوی ہے کہ قیامت آئے گی جس میں آسمان پھٹ پڑے گا اور ایسے اور ایسے ہوگا۔ اور اس سے آپ ہمیں ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں حالانکہ وہ احمق اتنا بھی نہیں سمجھتے تھے کہ قیامت کا وہ حادثہ اور اس کا وہ منظر اس دنیا میں اور اس طرح نہیں آئے گا کہ یہ زندہ سلامت بیٹھے دیکھتے رہیں، اور اوپر سے آسمان کے ٹکڑے گرپڑیں اور بس۔ نہیں بلکہ وہ تو اس وقت ہوگا جب یہ سارا علم درہم برہم ہوجائے گا جسکے بعد کسب واکتساب کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ 167۔ اللہ اور اس کے فرشتوں کو سامنے لاکھڑا کرنے کا مطالبہ :۔ سو ان بدبختوں نے اپنے مطالبات اور فرمائشی معجزات کے سلسلے میں ترقی کرتے ہوئے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ یا آپ ہمارے سامنے لئے آئیں اللہ اور اس کے فرشتوں کو۔ جن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ اور وہ آپ ﷺ کی صداقت و حقانیت کی گواہی دیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کے اس مطالبے کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ وقال الذین لا یرجون لقائنا لولا انزل علینا الملئکۃ اونری ربنا، (الفرقان : 21) یعنی ” جو لوگ ہماری ملاقات اور ہمارے یہاں حاضر اور پیش کی امید اور توقع نہیں رکھتے انکا کہنا ہے کہ ہم پر فرشتوں کو کیوں نہیں اتاردیا جاتا یا ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم لوگ اپنے رب کو خود دیکھ لیتے “ سو اس کے جواب میں وہاں ارشاد فرمایا گیا کہ ” یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے ہیں جو ایسی باتوں کا مطالبہ کرتے ہیں “۔ سو ارشاد فرمایا گیا۔ لقد استکبروا فی انفسہم وعتوا عتوا کبیرا، یعنی ” انہوں نے اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھا اور انہوں نے بہت بڑی سرکشی کا ارتکاب کیا “۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔
Top