Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 58
وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ قَرْيَةٍ : کوئی بستی اِلَّا : مگر نَحْنُ : ہم مُهْلِكُوْهَا : اسے ہلاک کرنے والے قَبْلَ : پہلے يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن اَوْ : یا مُعَذِّبُوْهَا : اسے عذاب دینے والے عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت كَانَ : ہے ذٰلِكَ : یہ فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مَسْطُوْرًا : لکھا ہوا
اور کوئی بستی ایسی نہیں، جسے ہم ہلاک (اور تباہ و برباد) کردیں قیامت سے پہلے، یا اسے کوئی سخت عذاب نہ دے دیں، یہ بات اس کتاب میں لکھی ہوئی ہے،2
105۔ ظالموں نے اپنے ظلم کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے :۔ کہ یہ مکافات عمل کا لازمی اور طبعی تقاضا ہے۔ پس اس سلسلے میں ملنے والی ڈھیل سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ہر سرکش کو عذاب بہرحال آنا ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ وعمل کو روکنے کی قدرت وطاقت کسی بھی ہستی میں نہیں اور تاکہ ہر کسی کو اس کے کیے کرائے کا پھل مل کر رہے اور اس طرح پاداش عمل کا ظہور ہو اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ اور یہ ان لوگوں کے اپنے کئے کرائے کا لازمی نتیجہ اور طبعی ثمرہ ہوتا ہے۔ ورنہ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ہوتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ وما ظلمنا ہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون۔ (النخل : 118) سو ایسی بستیوں کو یعنی ان کے باشندوں کو اپنے کیے کرائے کا بھگتان بھگتنا ہوگا اور ان کا انجام بہت خسارے کا ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ فذاقت وبال امرھا وکان عاقبۃ امرھا خسرا، (الطلاق : 9) سو ظالموں کو اپنے ظلم کا انجام بہرحال بھگتنا ہوگا۔ کسی کو اس بارے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ سو اس سے کفار کے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے جو وہ لوگ مطالبہ عذاب کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ لے آؤ ہم پر وہ عذاب جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم ہر سرکش بستی پر قیامت سے پہلے ہی عذاب لے آئیں گے۔ پھر یا تو اسے بالکل ہلاک کردیں گے یا اس کو سخت عذاب دیں گے مگر ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ قدجعل اللہ لکل شیء قدرا۔ (الطلاق : 3) سو عقل وخرد کا تقاضا یہ ہے کہ عذاب مانگنے کی بجائے اس سے بچنے کی فکر کی جائے اور ہمیشہ عافیت ہی مانگی جائے اور ہمیشہ عافیت ہی مانگی جائے۔ 106۔ نوشتہ تقدیر کا حوالہ وذکر :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” یہ بات لکھی ہوئی ہے اس عظیم الشان کتاب میں۔ “ جو سب مقادیر کو حاوی، سب کی جامع اور عظیم الشان کتاب ہے۔ یعنی لوح محفوظ جو کہ داراصل کنایہ ہے اللہ پاک کے علم محیط وشامل سے۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا۔ پھر اس سے فرمایا لکھ “ (اخرجہ الترمذی (رح)) ۔ سو نوشتہ تقدیر کے اس حوالے سے بتادیا گیا کہ خداوند قدوس کے دفتر میں یہ سب کچھ مرقوم و مذکور ہے کہ فلاں قوم اپنے ارادہ واختیار سے ان اور ان جرائم کا ارتکاب کرے گی جس کے نتیجے میں اس کو اس طرح اس کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ پس ظالموں کو اس سلسلے میں جو ڈھیل مل رہی ہے اس سے کبھی کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top