Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 51
اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَكْبُرُ فِیْ صُدُوْرِكُمْ١ۚ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا١ؕ قُلِ الَّذِیْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ۚ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْكَ رُءُوْسَهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ١ؕ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَرِیْبًا
اَوْ : یا خَلْقًا : اور مخلوق مِّمَّا : اس سے جو يَكْبُرُ : بڑی ہو فِيْ : میں صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینے (خیال) فَسَيَقُوْلُوْنَ : پھر اب کہیں گے مَنْ : کون يُّعِيْدُنَا : ہمیں لوٹائے گا قُلِ : فرمادیں الَّذِيْ : وہ جس نے فَطَرَكُمْ : تمہیں پیدا کیا اَوَّلَ : پہلی مَرَّةٍ : بار فَسَيُنْغِضُوْنَ : تو وہ بلائیں گے (مٹکائیں گے) اِلَيْكَ : تمہاری طرف رُءُوْسَهُمْ : اپنے سر وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہیں گے مَتٰى : کب هُوَ : وہ۔ یہ قُلْ : آپ فرمادیں عَسٰٓي : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : وہ ہو قَرِيْبًا : قریب
یا اور کوئی ایسی مخلوق بن جاؤ جس کا زندہ ہونا تمہارے خیال میں بہت مشکل بات ہو، (پھر بھی تم نے اٹھ کر رہنا ہے) ، اس پر یہ کہیں گے کہ (اچھا تو) وہ کون ہے جو ہمیں (اس حالت پر بھی) دوبارہ زندہ کر دے گا ؟ کہو وہ وہی ہے جس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا، (جب کہ تمہارا کوئی نام و نشان تک بھی نہ تھا1) اس پر یہ لوگ سر ہلاتے ہوئے یہ سوال کریں گے کہ (اچھا تو) یہ کب ہوگا ؟ جواب دو کہ کیا عجب کہ وہ وقت تمہارے قریب ہی آگیا ہو،
88۔ تم لوگوں کو بہرحال دوبارہ اٹھنا ہے :۔ تاکہ حساب کتاب ہو اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اور تم کو اٹھانا اس ذات اقدس واعلیٰ کے لئے جو قادر مطلق ہے، کچھ بھی مشکل نہیں اور اس کیلئے کوئی بھی چیز ناممکن اور مشکل نہیں ہوسکتی کہ اس کی صفت وشان ہے۔ علی کل شیء قدیر، کہ ” وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ “ جو چاہے اور جیسا اور جب چاہے کرسکتا ہے۔ اور اس کیلئے اس کو صرف حکم دینا اور ارشاد فرمانا ہوتا ہے اور بس کہ اس کی شان ” کن فیکون “ کی شان ہے جو صرف اسی وحدہ لاشریک کی شان ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 89۔ منکرین بعث کیلئے مختصر اور بھر پور جواب :۔ جس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” تم کو دوبارہ وہی اٹھائے گا جس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا فرمایا ہے “ یعنی اپنے اس سوال کے جواب کے لئے تمہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لئے تم لوگ خود اپنی ذات اور اپنے اس وجود ہی میں غور کرلو کہ جس نے تم لوگوں کو یہ وجود بخشا اور تمہیں نیست سے ہست کیا ہے۔ اس کیلئے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا آخر کیونکر اور کیا مشکل ہوسکتا ہے ؟ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو آج سے ایک زمانہ پہلے جب تمہارا کوئی نام ونشان تک نہ تھا اس نے تمہیں پیدا کرکے یہ وجود بخشا۔ تو پھر اس کیلئے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا آخر کیوں اور کیا مشکل ہوسکتا ہے ؟۔ 90۔ قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے :۔ سومنکرین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ” ہوسکتا ہے کہ اس کا وقت قریب ہی آلگاہو “ کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے کہ اس نے بہرحال آکر ہی رہنا ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے ” کل ماہو ات فھوقریب “ یعنی ” جس چیز نے آنا ہوتا ہے وہ بہرحال قریب ہی ہوتی ہے۔ “ (المراغی، الصفوۃ، ابن کثیر وغیرہ) پس عقل مند وہ ہے جو آنے والی اس حقیقت کبری کیلئے تیاری کرے قبل اس سے کہ فرصت عمل جو کہ عبارت ہے اس کی حیات محدود ومستعار سے وہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ وباللہ التوفیق وھو المستعان، اور ہر انسان کی قیامت تو اس کی اپنی موت سے ہی قائم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ موت کے آنے کے بعد پھر تمہارے لئے اس دنیا میں واپس آنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ اور تمہاری موت کبھی بھی آسکتی ہے۔ (معارف القرآن وغٰیرہ) سو اس ارشاد سے کہ ” کہو کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا وقت قریب ہی آلگا ہو “ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو آشکارا فرما دیا گیا ہے کہ جہاں تک وقوع قیامت کا تعلق ہے وہ تو ایک قطعی حقیقت اور ہونی شدنی چیز ہے۔ اس نے اپنے وقت پر بہرحال آکر اور واقع ہو کر رہنا ہے۔ لیکن جہاں تک اس کے وقت وقوع کا تعلق ہے اس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو بھی نہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر کو بھی اس کا علم نہیں۔ اس کو اپنے وقت پر اللہ ہی ظاہر کرے گا۔ لایجلیھا لوقتھا الا ہوا۔ (الاعراف : 178) لیکن اس بناء پر انکار کرنا کہ اس کے وقوع کا وقت معلوم نہیں ہوسکتا تو کیا محض اس بناء پر کہ اس کا وقت معلوم نہیں کسی کیلئے اس کا انکار درست ہوسکتا ہے ؟ سو قیامت نے آنا تو بہرحال ہے لیکن اس وقوع کے وقت کا اللہ کے سوا کسی کو بھی علم نہیں۔
Top