Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 48
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا
اُنْظُرْ : تم دیکھو كَيْفَ ضَرَبُوْا : کیسی انہوں نے چسپاں کیں لَكَ : تمہارے لیے الْاَمْثَالَ : مثالیں فَضَلُّوْا : سو وہ گمراہ ہوگئے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : پس وہ استطاعت نہیں پاتے سَبِيْلًا : کسی اور راستہ
دیکھو تو سہی (عقل کے دشمن اور نصیب کے کھوٹے) یہ لوگ آپ کے لئے کیسی کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں، سو یہ ایسے بھٹکے کہ اب انھیں کوئی راہ دکھائی ہی نہیں دیتی
86۔ انکار حق کا نتیجہ مت ماری اور حواس باختگی۔ والعیاذ باللہ :۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ ایسے بھٹک گئے کہ ان کو کوئی راستہ مل ہی نہیں رہا۔ سو اظہار تعجب اور حیرت وحسرت کے انداز میں ارشاد فرمایا گیا ” سودیکھو تو سہی کہ یہ لوگ آپ کیلئے کیسی کیسی عجیب مثالیں بیان کرتے ہیں۔ “ جن کا حقیقت اور واقعہ سے کوئی تعلق اور جوڑ نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے بلکہ یہ ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں جو خود باہم متصادم ومعارض اور ایک دوسرے کی تردید کررہی ہوتی ہیں۔ مثلا کبھی آپ ﷺ کو ساحر کہتے ہیں اور کبھی مسحور۔ کبھی شاعر اور کبھی مجنون۔ سو اس سے خود ان کی اپنی سخافت عقل اور ان کے اندھے اور اوندھے پن کا پتہ چلتا ہے۔ اور اس طرح ان لوگوں کی مت مار دی جاتی ہے اور ان کو راہ حق وصواب سے سرفرازی نصیب نہیں ہوسکتی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بلکہ اپنی اس طرح کی حرکتوں سے یہ لوگ راہ حق و ہدایت سے مزید دور ہوتے اور بھٹکتے جاتے ہیں اور ان کی محرومی اور پھٹکار میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو منہ میں آیا وہی بک دیتے ہیں اور اس طرح اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سو ایسوں کے جواب میں صبر و برداشت ہی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top