Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 44
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
تُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَهُ : اس کی السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) السَّبْعُ : سات وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان میں وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتی ہے بِحَمْدِهٖ : اس کی حمد کے ساتھ وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَفْقَهُوْنَ : تم نہیں سمجھتے تَسْبِيْحَهُمْ : ان کی تسبیح اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : بردبار غَفُوْرًا : بخشنے والا
اسی کی پاکی بیان کرتے (اور اس کی عظمت کے گن گاتے) ہیں یہ ساتوں آسمان اور زمین، اور اس کے اندر کی سب مخلوق، (خواہ زبان حال سے خواہ زبان قال سے) ، اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو تسبیح نہ کرتی ہو، اس کی حمد (وثناء) کے ساتھ، مگر تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے، یقیناً وہ نہایت ہی بردبار، بڑا ہی بخشنے والا ہے،1
78۔ ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے “ یعنی وہ ” سبحان اللہ وبحمدہ “ کہتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ہم کھانا کھا رہے ہوتے تھے اور اس سے تسبیح کی آواز سنائی دے رہی تھے۔ (کنا نسمع تسبیح الطعام وھو یؤکل) یعنی جب کھانا کھایا جاتا تو ہم اس کی تسبیح سنا کرتے۔ (ابن کثیر، جامع البیان، معارف، محاسن وغیرہ) سو تم لوگوں کو اس خالق ومالک نے ایک محدود دائرہ کے اندر جو اختیار بخشا ہے اس کی بناء پر اور اس سے فائدہ اٹھا کر تم جو خود ساختہ اور ناروا باتیں چاہو اس کی طرف منسوب کرو لیکن ساتوں آسمان اور زمین اور ان کے اندر کی ساری مخلوق تسبیح کرتی ہے اپنی زبان حال سے بھی، اور اپنی زبان قال سے بھی۔ لیکن تم لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ فسبحان اللہ وبحمدہ و سبحان اللہ العظیم ماتتعاقب الیل والنہار۔ 79۔ اللہ تعالیٰ کی صفت حلم اور مغفرت کا حوالہ وذکر :۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اور حرف ان کی تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ وہ بڑا ہی بردبار اور انتہائی بخشنہار ہے۔ سو اس کی تصریح فرما دی گئی کہ وہ بڑا ہی حلیم و بردبار اور غفور و غفار ہے۔ اسی لیے وہ اپنے بندوں کو ان کے کفر و معاصی پر فورا نہیں پکڑتا۔ بلکہ ان کو ڈھیل پر ڈھیل دئے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ عمروں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ سو اس کے حکم اور کرم کی بناء پر دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ ہمیشہ اور دل وجان سے اس کے آگے جھکے رہا کرو۔ اور اس کی ناراضگی اور اس کی گرفت وپکڑ سے بچنے کی فکر و کوشش میں رہنا چاہیے کہ جہاں اس کا حلم وکرم بہت بڑا ہے وہاں اس کی گرفت وپکڑ بھی بہت سخت ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (معارف للکاندھلوی وغیرہ) ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی موت کا وقت آیا تو آپ نے اپنے دونوں بیٹوں سے فرمایا کہ میں تمہیں ” سبحان اللہ وبحمدہ “ کی تسبیح کی تاکید کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ ہر چیز کی عبادت ہے اور اسی سے ہر چیز کو روزی ملتی ہے۔ اخرجہ احمد وابن مردویہ۔ (المراغی وابن کثیر وغیرہ) والحمد للہ جل وعلا۔ 80۔ ایک عظیم الشان تسبیح کی تعلیم و تلقین :۔ سو اللہ تعالیٰ کے حلم وکرم کے ساتھ اس کی مغفرت وبخشش کا بھی ذکر فرمایا دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” وہ بڑا بخشنے والا ہے “ پس جو کوئی سچے دل سے اور صحیح طور پر توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرے گا وہ اس کی بخشش فرما دے گا خواہ اس کے گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اس کی رحمت وبخشش کا کوئی کنارہ نہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس اس کے حضور توبہ اور رجوع صدق دل سے اور صحیح طور پر کیا جائے۔ وباللہ التوفیق۔ مسند احمد وغیرہ میں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی وفات کے وقت اپنے دونوں بیٹوں سے فرمایا کہ میں تم دونوں کو ” سبحان اللہ وبحمدہ “ کی تسبیح کا حکم دیتا ہے۔ کیونکہ یہی کائنات کی ہر چیز کی نماز ہے اور اسی سے ہر چیز کو روزی ملتی ہے۔ (ابن کثیر، المراغی وغیرہ ) ۔ سو جیسا کہ اوپر کے حاشیے میں بھی گزرا یہ ایک بڑی عظیم الشان تسبیح ہے۔ اس لئے اس کو حرز جان بنائے رکھنا چاہیے کہ یہ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔
Top