Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
(ان سے) کہو کہ اگر اس (وحدہ، لا شریک) کے ساتھ اور بھی معبود ہوتے، جیسا کہ ان کا کہنا ہے، تو یقیناً انہوں نے عرش والے تک پہنچنے کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ لیا ہوتا،
76۔ تردید شرک کے لئے ایک ٹھوس عقلی دلیل :۔ سو اس سے شرک کی تردید کیلئے ایک ٹھوس دلیل کو پیش فرمایا گیا ہے کہ اگر تمہارے کہنے کے مطابق بالفرض اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہوتے تو وہ ضرور صاحب عرش تک پہنچنے کیلئے کوئی راستہ ڈھونڈ لیتے اس پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے۔ جیسا کہ بادشاہوں کا حال ہوتا ہے۔ اور اس صورت میں آسمان و زمین کا یہ سارا نظام کبھی کا درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (لو کان فیھمآالھۃ الا اللہ لفسدتا ) ۔ الایۃ (الانبیاء : 22) یہ جمہور کا قول ہے اور اسی کو ابو السعود، صاحب کشاف وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔ اور یہی بعد والی آیت کریمہ کے مناسب ہے کہ وہ اس انکار میں صریح ہے (ابو السعود، کشاف، معارف، محاسن، وغیرہ) ۔ جبکہ دوسرا قول اس کی تفسیر میں یہ ہے کہ اگر بالفرض اس وحدہ لاشریک کے سو اور بھی کوئی معبود ہوتے تو وہ بھی یقینا عرش والے کا قرب ڈھونڈتے اور اس کی رضاء جوئی کی کوشش کرتے۔ کہ معبود برحق تو بہرحال وہی وحدہ لاشریک ہے۔ یہ قول ابن جریر اور ابن کثیر وغیرہ حضرات کا ہے۔ لیکن پہلا قول انسب اور اظہر ہے۔ والعلم عند اللہ تعالیٰ ۔ بہرکیف دونوں صورتوں میں یہ شرک کی تردید کیلئے ایک ٹھوس عقلی دلیل ہے جس سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ معبود برحق ایک اور صرف ایک ہے۔ یعنی صرف اللہ وحدہ لاشریک۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ نظام کائنات اس کا شاہد عدل ہے۔
Top