Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور (خبردار ! ) زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا بیشک وہ ایک بڑی بےحیائی اور بہت ہی بری راہ ہے،4
59۔ زنا کے قریب پھٹکنے کی بھی ممانعت :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور (خبردار) کبھی زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کہ یہ بڑی سخت بےحیائی اور کھلی برائی ہے “ پس تم لوگ ان اسباب و وسائل اور دواعی محرکات سے بھی بچنا اور دور رہنا جو زنا کے اس سنگین جرم کا ذریعہ بن سکتے ہیں والعیاذ باللہ۔ جیسا کہ غیرمحرموں سے آزادنہ میل جول رکھنا۔ اجنبی عورتوں کو دیکھنا ایسی کسی عورت کو ہاتھ لگانا یا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھنا اور آمد و روفت رکھنا وغیرہ وغیرہ کہ یہ سب ہی امور ممنوع اور اس بےحیائی میں مبتلا کرنے والے میں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اس حکم وارشاد کے مخاطب افراد بھی ہیں اور پورا معاشرہ اور حکومت کے ذمہ دار لوگ بھی۔ اس لیے ان کی حسب مراتب و درجات یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر اس سوراخ کو بند کردیں جس سے یہ ناسور پھوٹ سکتا ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے، آمین ثم آمین ـ۔ 60۔ زنا کاری کھلی بےحیائی اور بہت بری راہ ہے۔ والعیاذ باللہ :۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ بڑی بےحیائی اور بہت بری راہ ہے “۔ کہ اس سے نسب خراب ہوتے ہیں۔ عزتیں تباہ ہوتی ہیں۔ قتل و خونریزیاں ہوتی ہیں۔ امن برباد ہوتا اور آبادیاں اجرتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور حدیث صحیح میں وارد ہے کہ بنی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک شرک کے بعد اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص اپنا نطفہ کسی ایسے رحم میں رکھے جو اس کے لیے حلال نہ ہو (ابن کثیر وغیرہ ) ۔ سو زنا ایسی مہلک اور ہولناک برائی ہے جو صالح معاشرے کی جڑ بنیاد کو کاٹ کر رکھ دینے والی ہے۔ کیونکہ صالح معاشرے کی اساس و بنیاد صالح خاندان پر ہے۔ اور صالح خاندان کی صحیح فطری جذبات کے ساتھ صرف اسی صورت میں وجود پذیر ہوسکتا ہے جبکہ والدین کے ساتھ اولاد کا تعلق صحیح خون، صحیح نسب اور پاکیزہ رحمی رشتہ پر استوار ہو۔ اگر یہ یز مفقود ہوجائے تو پھر وہ خاندان انسانوں کا خاندان نہیں بلکہ فطرتی اور روحانی عواطف سے عاری و محروم حیوانات کا ایک گلہ بن جاتا ہے۔ بلکہ اس بھی گر کو وہ ” شرالبریہ “ یعنی بدترین مخلوق کا ایک درندہ صفت انبوہ بن کر رہ جاتا ہے۔ پھر کسی صالح معاشرے کے قیام ووجود کا کیا سوال پیدا ہوسکتا ہے ؟
Top