Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
اور (اس سے پہلے) ہم نے موسیٰ کو بھی وہ کتاب دی تھی3 اور اسے ہم نے ذریعہ ہدایت بنایا تھا بنی اسرائیل کے لئے، (اس تاکید کے ساتھ) کہ میرے سوا کسی کو اپنا کار ساز نہیں قرار دینا،
5۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اکرام وعزاز کا ذکر :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور ہم ہی نے موسیٰ کو دی تھی وہ کتاب “ یعنی تورات جو کہ اپنے دور میں ہدایت ونور کا منبع و ماخذ تھی۔ مگر بعد میں اس کے حاملین ووارثین نے اس کو بدل کر کچھ کا کچھ کردیا۔ یہاں تک کہ اب اس کے اصل نسخے کا وجود بھی کہیں باقی نہیں رہا۔ جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ یہ سب یقینی طور پر اللہ کلام ہے۔ بہرکیف اصل تورات آسمانی اور الہامی کتاب ہی تھی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطاء فرمائی گئی تھی۔ اور اس کو سرچشمہ ہدایت بنایا گیا تھا بنی اسرائیل کیلئے۔ سو پہلی آیت کریمہ میں اکرام محمدی کا ذکر تھا جس سے معجزہ اسراء و معراج کی صورت میں حضور ﷺ کو نوازا گیا تھا۔ اور اب یہ اکرام موسیٰ کا ذکر ہے جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطائے تورات کی صورت میں سرفراز فرمایا گیا تھا۔ (المارف، المحاسن، الکبیر، اور المراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی دوسرے انبیاء ورسل کی طرح اللہ تعالیٰ کے سچے نبی و رسول تھے۔ جنکو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اور آپ پر نازل فرمائی جانے والے کتاب یعنی تورات بھی آسمانی اور الہامی کتاب تھی۔ جس کو بنی اسرائیل کی ہدایت و راہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا تھا جو کہ اپنے دور میں ہدایت و راہنمائی کا منبع ومصدر اور سرچشمہ تھی۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں دوسرے مختلف مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کار ساز بنانا ممنوع :۔ سو اس میں صاف طور پر ارشاد فرمایا گیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کو کارساز بنانا کہ کار ساز سب کا اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ اور یہی یہ وہ مرکزی مضمون اور بنیادی ہدایت وتعلیم ہے جو کہ جملہ آسمانی کتابوں اور ادیان سماویہ میں ہمیشہ قدر مشترک کے طور پر موجود رہی ہے کہ وکیل و کارساز اور حاجت روا مشکل کشا سب کا اللہ اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کا کلمہ گو مشرک طرح طرح کی تاویلات و تحریفات کا سہارا لے کر اسی بنیاد کے ھدم وبیخ کنی کے درپے ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اللہ پاک کی طرف سے صاف اور صریح طور پر تاکید فرما دی گئی کہ اللہ کے سوا کسی کو مافوق الاسباب طور پر کارساز اور مختار امور نہیں بنانا۔ کیونکہ وکیل اسی کو کہا جاتا ہے۔ جس پر اپنے تمام امور پر بھروسہ کیا جائے اور اپنا معاملہ اسی چھوڑ دیا جائے۔ (قرطبی، کبیر اور مدارک وغیرہ) ۔ سو عطائے کتاب کے ذکر کے فوری بعد توحید کی اس صریح تعلیم سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ چیز دین متین کی تمام تعلیمات کیلئے اصل واساس اور مرکز ثقل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور دین و شریعت کی پوری عمارت اسی پر قائم ہے۔ اور اسی کے ساتھ وابستگی سے کوئی جاعت دین سے وابستہ رہ سکتی ہے۔ جہاں اس مرکز ثقل سے وابستگی میں ضعف آیا اور کمزوری واقع ہوئی وہیں ساری دینداری غارت ہو کر رہ گئی۔ یہاں تک کہ اس کے بعد خالص توحید کا دین کھلے شرک کا کاروبار بن کر رہ گیا۔ جس کی ایک کھلی اور واضح مثال ہمارے سامنے مسیحیت محرفہ کی شکل میں موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جس دین توحید کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا تھا اسی کو ان لوگوں نے نرادین شرک بنادیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top