Tafseer-e-Madani - Al-Hijr : 38
اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ
اِلٰى : تک يَوْمِ : دن الْوَقْتِ : وقت الْمَعْلُوْمِ : معلوم (مقرر)
اس مقررہ وقت کی تاریخ تک،
34۔ ابلیس کی مہلت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ابلیس کے مہلت مانگنے کے جواب میں حق تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ جاتجھے مہلت ہے مقرر وقت کی تاریخ تک یعنی اس دن تک، جس پر سب نے مر کر فنا ہوجانا ہے اور تو بھی انہیں کے ساتھ مر کر فنا ہوجائے گا۔ پس مراد اس وقت سے نفخئہ اولی ہے کہ اس تک اس کو مہلت ملے گی۔ اس نے تو کہا تھا کہ یوم البعث یعنی دوبارہ اٹھنے کے وقت تک اس کو مہلت مل جائے تاکہ وہ موت سے بچ جائے۔ مگر ایسے نہ ہوا اور اس کی یہ دعا قبول نہ ہوئی۔ البتہ نفخئہ اولی تک اس کو لمبی مدت کی مہلت مل گئی تاکہ بنی آدم کے خلاف جو کچھ وہ کرنا چاہے کرلے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت اور بنی آدم کی ابتلاء آزمائش کا تقاضا یہی تھا، پس اس کی ایک درخواست تو قبول ہوگئی اس کو لمبی مہلت مل گئی مگر دوسری قبول نہ ہوئی کہ وہ یوم البعث تک زندہ رہے۔ (قرطبی، معارف، صفوۃ، محاسن وغیرہ) ۔ اہل بدعت کے شیخ التفسیر صاحب نے اس موقعہ پر اپنے معروف اجتہاد سے کام لیتے ہوئے یہ شگوفہ چھوڑا کہ جب اس خبیث کی درازی عمر کی دعا قبول کرلی گئی تو پھر نبی کی دعا کے کیا کہنے ؟۔ شرم تو تم کو مگر نہیں آتی۔ سو حضرات انبیائے کرام کی شان اس طرح کے قیاسات سے پاک اور اعلی وبالا ہے۔ بہرکیف ابلیس اس حکم اخراج اور لعنت سے متاثر یا مرعوب ہونے کی بجائے اور اکڑ گیا اور اپنے لئے قیامت اور اپنے لئے قیامت تک مہلت مانگی تاکہ اولاد آدم کو گمراہ کرسکے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top