Tafseer-e-Madani - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
جب کافر لوگ رہ رہ کر پچھتائیں گے، کہ کاش ہم مسلمان ہوتے،1
4۔ کافروں کی حسرت اور ان کے افسوس کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے وقت اور مواقع آئیں گے کہ جب کافر لوگ رہ رہ کر پچھتائیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے، سو ان کا یہ پچھتاؤا ان کی موت کے وقت بھی ہوگا جب کہ وہ جانکنی کی سختیوں سے دوچار ہوں گے۔ نیز قیامت کے روز بھی جب وہاں کے احوال دیکھیں گے، جب کہ گناہ گار مسلمانوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جایا جائے گا اور کافروں کی وہیں جلتا چھوڑ کر دوزخ کو ان پر موند دیا جائے گا۔ والعیاذ باللہ۔ سو ایسے تمام مواقع پر یہ کافر لوگ جو کہ آج اپنے کفر وباطل پر مست ومگن ہیں اور حق بات سننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے رہ رہ کر پچھتائیں گے اور حسرت و افسوس سے ہاتھ ملیں گے کہ کاش کہ ہم نے دنیا میں اسلام کو قبول کیا ہوتا اور راہ حق کو اپنایا ہوتا تو آج ہم بھی اسلام کی ان خیرات و برکات سے فیضاب ہوتے جن سے مسلمان فیضیاب ہورہے ہیں۔ اور ہم ان عواقب سے بچ جاتے جن سے آج ہمیں دوچار ہونا پڑرہا ہے (روح، ابن جریر، ابن کثیر، فتح القدیر، محاسن التاویل، مراغی اور صفوۃ التفاسیر وغیرہ) مگر اس وقت کے اس بےموقع پچھتاوے سے ان بدنصیبوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا، سوائے حسرت و افسوس میں اضافے کے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو قرآن حکیم نے کفار و منکرین کو اس حقیقت سے پیشگی اور اس دنیا میں ہی خبردار کردیا، اور اس قدر صراحت و وضاحت سے خبردار کردیا۔ اور قدرصراحت وضاحت سے خبردار کردیا تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے قبل اس سے کہ عمررواں کی یہ فرصت محدود ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور ان کو ہمیشہ کے لیے پچھتانا پڑے۔ والعیاذ باللہ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم کا دنیا پر یہ کس قدر عظیم الشان اور بےمثال احسان ہے کہ ان غیبی حقائق کو اس نے اس طرح کھول کر بیان کردیا جن کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ آج تو یہ لوگ اپنی رعونت اور غرور کی بنا پر دعوت حق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کتاب حکیم کا انکار کررہے ہیں۔ لیکن آگے ایسے وقت آئیں گے اور بار بار آئیں گے جب کہ یہ لوگ رہ رہ کر تمنا کریں گے کاش ہم ایمان لائے ہوتے اور ہم نے اسلام کو قبول کیا ہوتا تو ایسے عواقب و نتائج سے بچ جاتے۔ جیسا کہ اس سے پہلے سورة ابراہیم کی آیت نمبر 44 میں گزر چکا ہے، مگر بےوقت کے اس افسوس سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا۔ والعیاذ باللہ۔
Top