Maarif-ul-Quran - As-Saff : 6
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ١ؕ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ : عیسیٰ ابن مریم نے يٰبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اے بنی اسرائیل اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں اللّٰهِ : اللہ کا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف مُّصَدِّقًا لِّمَا : تصدیق کرنے والا ہوں واسطے اس کے جو بَيْنَ يَدَيَّ : میرے آگے ہے مِنَ التَّوْرٰىةِ : تورات میں سے وَمُبَشِّرًۢا : اور خوش خبری دینے والا ہوں بِرَسُوْلٍ : ایک رسول کی يَّاْتِيْ : آئے گا مِنْۢ بَعْدِي : میرے بعد اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ : اس کا نام احمد ہوگا فَلَمَّا جَآءَهُمْ : پھر جب وہ آیا ان کے پاس بِالْبَيِّنٰتِ : ساتھ روشن دلائل کے قَالُوْا هٰذَا : انہوں نے کہا یہ سِحْرٌ مُّبِيْنٌ : جادو ہے کھلا
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آچکی ہے (یعنی) تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہو (پھر) جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے
بشارت حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) بہ بعثت نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم : قال اللہ تعالیٰ ، (آیت) ” واذ قال عیسیٰ ابن مریم ...... الی ....... ولوکرہ المشرکون “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شکوہ کا ذکر تھا جو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں اپنی قوم کی ایذاء رسانیوں پر کیا اس ضمن میں قوم بنی اسرائیل کی بدبختی و محرومی کا ذکر تھا تو اس مناسبت سے اب یہ مضمون بیان کیا جارہا ہے کہ بنی اسرائیل کی اس محرومی اور بدنصیبی کے بعد اللہ رب العزت نے اس قوم کے لیے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ پہلے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا اور وہ اس لیے مبعوث فرمائے گئے کہ نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی بشارت سنائیں اور بنی اسرائیل کو تاکید کریں کہ ان آنے والی ہدایت اور حق کی پوری طرح اتباع وپیروی کریں کیونکہ اب اس کے بعد اللہ نے قیامت تک کے لیے حق وہدایت کا داعی خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺ کو بنایا ہے اور وہ عنقریب مبعوث ہوں گے ان کی بشارت کے ساتھ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے نبی خاتم الانبیاء کی علامات اور نشانیاں بھی بتائیں اور ان پر ایمان لانے کا بھی حکم دیا، فرمایا اور جب کہا عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے اے بنی اسرائیل میں اللہ کا رسول ہوں جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں تصدیق کرنے والا ہوں اللہ کی کتاب تورات کی جو مجھ سے پہلے ہے اور خوشخبری سنانے والا ہوں ایک ایسے رسول کی جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہے، اس طرح ان یہودیوں کو مجھ پر ایمان لانے میں کوئی تامل نہ ہونا چاہئے، جو تورات اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ میں ان کی تصدیق کرنے والا ہوں جب میں انہی اصول وہدایات کی دعوت دے رہا ہوں تو پھر یہودیوں کو مجھ پر ایمان لانے سے کیوں انکار ہے ساتھ ہی میں ایک آنے والے پیغمبر کی بشارت سنا رہا ہوں جن کا نام احمد ہوگا ان پر اے عیسائیو ! تم ایمان لانا اگر تم ان پر ایمان نہ لاؤ گے تو بس تمہارا حال ان یہودیوں جیسا ہوگا جو مجھ پر ایمان نہیں لاتے، اس ہدایت وتاکید اور علامات ونشانیوں سے نبی آخرالزمان ﷺ کی نبوت و رسالت متعین کردینے کا تقاضا تو یہی تھا کہ عیسائی قوم اپنے ہادی و پیغمبر روح اللہ مسیح بن مریم (علیہ السلام) کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نبی آخر الزمان محمد مصطفے احمد، مجت بے ﷺ پر ایمان لاتے، لیکن جب وہ رسول مبشر ان کے پاس آگئے کھلی نشانیاں لے کر اور واضح معجزات و دلائل کے ساتھ تو کہنے لگے یہ تو کھلا جادو ہے، کس قدر بےحیائی اور گستاخی کی کہ اللہ کی ہدایت اور اس کے دلائل ومعجزات و دلائل ومعجزات کو جادو کہا اور اس کے رسول کا انکار کیا یہ بات اسی حدتک نہیں کہ نافرمانی اور گستاخی ہو بلکہ خود اپنے اوپر بڑ اہی ظلم ہے اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور حال یہ کہ وہ اسلام کی طرف بلایا جارہا ہو، مگر وہ بجائے اس کے کہ حق وہدایت قبول کرے خدا ہی پر بہتان باندھنے لگتا ہے اور اس کی تکذیب وتردید کرنے لگتا ہے، جیسا کہ نصاری نے کیا کہ آنحضرت ﷺ کے معجزات کو جادو کہا اور جب ان کو اسلام کی دعوت دی گئی تو حق اور ان بشارتوں کا انکار کیا جو مسیح بن مریم (علیہ السلام) نے سنائی اور اللہ راہ نہیں دیکھتا ہے ظالم لوگوں کو، کس قدر ظلم کیا کہ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت میں شرک کے عقیدہ کو جزو ایمان بنالیا بشر کو خدا اور خدا کو بشر قرار دیا جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) ” لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم “۔ پھر آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار کیا جس پر ایمان لانے کا حضرت مسیح (علیہ السلام) نے حکم دیا تھا اسی پر بس نہ کی بلکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نوربجھا دیں اپنے مونہوں سے اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کافروں کو ناگوار ہو، مشیت الہی سے بس یہی طے ہوچکا ہے اس کے خلاف کرنا کا ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی آفتاب کی شعاعوں کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرے اللہ کا یہ نور جس سے تمام عالم جہالت وگمراہی کی تاریکی سے نکل کر روشن ہوا وہ نور ہدایت ہے جو حضور اکرم خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺ کے ذریعے عطا کیا گیا تو اسی غرض سے وہی پروردگار ہے جس نے اپنا رسول بھیجا ہدایت کے ساتھ اور دین حق دے کر تاکہ اس کو غالب کرے دنیا کے ہر ہر دین پر اگر چہ برا مانیں شرک کرنے والے، لیکن اللہ کو کافروں کی ناگواری اور مشرکین کے برا ماننے کی کوئی پرواہ نہیں اس نے جو ارادہ کرلیا وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔” لایبقی علی ظہر الارض بیت مدر ولا دبر الا ادخلہ اللہ کلمۃ الاسلام بعز عزیز اوذل ذلیل ‘، کہ روئے زمین پر کوئی گھر بھی باقی نہ رہے گا خواہ وہ آبادی میں ہو یا جنگل وبیابان میں کوئی خیمہ ہے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ پہنچا کر رہے گا، عزت والے کی عزت کے ساتھ (بایں طور کہ وہ مشرف ہوجائے) یا ذلیل کی ذات کے ساتھ (بایں صورت کہ وہ اگر اسلام نہ لائیں تو ذلت کے ساتھ سرنگوں ہوتے ہوئے جزیہ ادا کرنا قبول کریں) راوی حدیث بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ شاید یہ بات وہی ہے جس کو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے (آیت) ” واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون “۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک یہی بات ہے، چناچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ عرب فتح ہوا، قیصر و کسری، کی سلطنتیں اسلام کے زیر نگیں ہوئیں، مراکش وجزائر، افریقہ، چین، بخارا، سمرقند غرض مشرق ومغرب پر اسلام کی حکمرانی اور غلبہ و ظہور کا منظر دنیا نے دیکھ لیا۔ اور (آیت) ” وعداللہ الذین امنوا منکم “۔ میں جو وعدۂ الہی کا بیان تھا وہ مکمل ہو کر رہا جس کی تفصیل پہلے گذر چکی اسی کو ذکر بائیبل کی کتاب یسعیاہ کے باب 41۔ 42۔ 43 میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے، اگرچہ عیسائیوں اور اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں بیشمار تحریفات کیں لیکن آج تک بھی وہ اس پر قادر نہ ہوسکے کہ آنحضرت ﷺ اور غلبہ دین اسلام کی بشارتوں کو نکال سکیں یا ان میں ایسی کوئی تاویل کرلیں کہ ان کا انطباق خاتم الانبیاء محمد ﷺ اور دین اسلام پر نہ ہوسکے۔ نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کے لیے عیسائیوں کو حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) اور انجیل مقدس کا صریح حکم : خاتم الانبیاء والمرسلین محمد رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری اور بعثت ونبوت کا مژدہ تمام انبیاء سابقین سناتے رہے اور آپ ﷺ کی آمد کی خوشخبری دی وہ کسی بھی پیغمبر سے منقول نہیں چونکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد اور کوئی پیغمبر سوائے نبی آخرالزمان ﷺ کے مبعوث ہونے والا نہ تھا اور زمانہ بھی آپ ﷺ کی نبوت کا مسیح (علیہ السلام) سے قریب تھا تو اس خصوصیت اور قرب زمانہ کے باعث زائد سے زائد وضاحت واہتمام انجیل مقدس نے فرمایا اور بڑی تاکید اور اصرار کے ساتھ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد آنے والے فارقلیط (پیغمبر) پر ایمان لانے اور ان کے احکام کی پیروی کرنے کے لیے فرمایا اور اس نبی مبشربہ کے دین کی جامعیت وکاملیت اور غلبہ و ظہور کو بخوبی بیان کردیا۔ اگرچہ یہود ونصاری کی غفلتوں کی بدولت تورات وانجیل میں تحریفات اور تغیر وتبدل کی کوئی حد باقی نہ رہی اور ان بیشمار تحریفات کے باعث یہ دعوی ناممکن ہے کہ آج روئے زمین پر تورات وانجیل کا کوئی صحیح نسخہ باقی ہے اس وجہ سے اگر موجودہ نسخوں میں صریح نام لکھا ہوانظر نہ آئے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قرآن کے اس صریح اعلان میں جو سورة صف کی اس آیت میں مذکور ہے کسی قسم کا تردد کرے۔ (آیت) ” واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرآء یل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التورۃ ومبشرابرسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ اور جب کہا عیسیٰ مریم (علیہ السلام) کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف بھیجا ہوا، درآں حالیکہ میں تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جن کا نام ہے احمد ﷺ قرآن کریم کے اس صاف کریم کے اس صاف اور صریح اعلان کو تحریف شدہ بائبل میں جھٹلانا قیاس اور عقل کے خلاف ہے لیکن یہ بات خاتم الانبیاء کے معجزات میں سے ہے کہ اہل کتاب کے معاندانہ طریق اور اس جذبہ کے ماتحت ہر طرح کی تحریف وتبدیلی کے بعد بھی بہت سی بشارتیں ایسی باقی رہ گئی ہیں جن میں تقریباصاف اور صریح طور پر آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کا ہی ذکر ہے، اور ان الفاظ کا انطباق آنحضرت ﷺ کی ذات کے سوا کسی اور پر ممکن نہیں جس میں کوئی صاحب فہم ذرہ برابر بھی تامل نہیں کرسکتا منجملہ ان بشارات کے انجیل یوحنا میں فارقلیط والی بشارت اس قدر صاف ہے کہ بلاتکلف اس کا مصداق بجز احمد مجتبی ﷺ کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ بشارت انجیل یوحنا : حضرت مولانا عبدالحق حقانی دہلوی نے انجیل یوحنا باب 14 کی یہ مشہور بشارت انجیل یوحنا کے اس عربی نسخہ سے نقل کی ہے جو لندن میں 1831 ؁ء اور 1833 ؁ء میں طبع ہوا۔ باب نمبر 14 از آیت نمبر 15:۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔ (16) اور میں باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں فارقلیط دے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا (یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی) (26) لیکن وہ فارقلیط جو روح حق ہے، جسے باپ میرے نام بھیجے گا وہ تمہیں سب چیزیں سکھائے گا، اور سب باتیں جو میں نے تم سے کہیں وہ یاد دلائے گا، (29) اور اب میں نے تمہیں اس کے واقع ہونے سے پہلے کہا تاکہ جب وہ واقع ہو تو تم ایمان لاؤ ، (30) بعد اس کے میں تم سے بہت کلام نہ کروں گا اس لیے کہ اس جہان کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی بات نہیں ‘] ۔ اور باب نمبر 15، آیت 27 میں ہے، جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا (یعنی سچائی کی روح) تو وہ میری گواہی دے گا۔ اور باب نمبر 16، آیت نمبر 7 میں ہے، لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں تمہارے لیے میرا جانا، ہی فائدہ مند ہوگا کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ فارقلیط (مددگار) تمہارے پاس نہ آوے لیکن اگر میں جاؤں تو اس کو تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ (8) وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت سے قصور وار ٹھہرائے گا (9) گناہ کے بارے میں اس لیے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے، (10) راستبازی کے بارے میں اس لیے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم پھر مجھے نہ دیکھو گے (11) اور عدالت پر اس لیے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے (12) میری اور بہت سی باتیں ہیں جن کو تم سے (اب) کہوں پر تم انکو اب برداشت نہ کرسکوگے، (13) لیکن جب وہ روح حق آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور وہ تمہیں آئندہ کی خبریں اور میری بزرگی اور جلال کو ظاہر کرے گا “۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ہے جو آپ (علیہ السلام) کا حواری یوحنا نقل کررہا ہے جو آپ (علیہ السلام) نے رفع الی السماء سے پہلے حواریوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا جب کہ یہود انتہائی بدسلوکی پر اترے ہوئے تھے اور قتل کی تدبیروں میں لگے ہوئے تھے کہ اے میرے حواریو ! تم یہود کی ان سازشوں اور تدبیروں سے ہرگز نہ گھبراؤ اور میری تکلیف سے رنجیدہ وغمگین نہ ہو، عنقریب اس دنیا سے نکل کر ایسی جگہ چلا جاؤں گا جہاں کسی کی رسائی نہ ہوگی یعنی آسمان پر چلا جاؤں گا اور ایک آنے والے فارقیط سے تسلی دی کہ وہ میرے جانے کے بعد آکر میری بزرگی بیان کرے گا اور جن لوگوں نے مجھ کو نہیں مانا ان کو سزا دے گا (یعنی یہودیوں کو) اور وہ دین ودنیا کا سردار ہوگا اور وہ اس قدر بلند مرتبہ ہوگا کہ مجھ میں اس کی کوئی بات نہیں، تو حق تعالیٰ شانہ نے سورة صف کی آیت مذکورہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس بشارت کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ اس بشارت میں لفظ احمد موجود تھا جیسا کہ انجیل برناباس میں اب بھی موجود ہے لیکن جس وقت انجیل کا عبرانی زبان سے یونانی زبان میں ترجمہ ہوا تو یونانیوں نے اپنی عادت کے مطابق (کہ ترجمہ کرتے وقت ناموں کا بھی ترجمہ کردیتے تھے) آنحضرت ﷺ کے نام مبارک ” احمد “ کا ترجمہ بھی پیر کلوطوس سے کردیا جس کے معنی ہیں بہت سراہا گیا یا بہت حمد کرنے والا جو لفظ احمد کا عربیت کے اعتبار سے مفہوم ہے پھر جب یونانی نسخہ کا ترجمہ عربی زبان سے کیا گیا تو پیرکلوطوس کا معرب فارقلیط کرلیا گیا ایک عرصہ تک عربی فارسی اور اردو نسخوں میں بھی فارقلیط کا لفظ لکھا جاتا رہا، لیکن محض اس بناء پر کہ یہ بات یقینی طور سے واضح اور متعین ہوچکی تھی کہ فارقلیط ” احمد “ کا ترجمہ ہے اور اس طرح یہ عبارت (آیت) ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “ کی قطعی مراد اور یقینی ترجمہ تھی فارقلیط کے بعد بین القوسین بطور ترجمہ روح القدس لکھا جانے لگا اور مسیحی حضرات لفظ روح القدس کو خطوط وحدانی میں لکھتے رہے رفتہ رفتہ ان حضرات نے انجیل کے نسخوں میں سے لفظ فارقلیط کو حذف کرکے اس کی جگہ صرف روح القدس یا کسی نے روح حق یا کسی نے مددگار اور تسلی دینے والا کا لفظ لکھنا شروع کردیا اور فارقلیط کے لفظ کو اس طرح سے انجیل کے نسخوں سے بالکل نکال ڈالا تاکہ علمائے اسلام کسی طرح اس بشارت کو آنحضرت ﷺ پر منطبق نہ کرسکیں۔ لیکن اہل کتاب اور مسیحی حضرات کی کوشش کسی درجہ میں بھی سود مند ثابت نہ ہوئی خواہ کچھ بھی تغیر وتبدل کرلیا لیکن انجیل کی اس بشارت اور اس تعبیر نے بشارت کا مدلول اور مصداق اس طرح متعین کر رکھا ہے کہ مجموعی کلام سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی اور پر منطبق نہیں ہوسکتا۔ اس موقعہ پر مناسب ہے کہ ناظرین کی خدمت میں لفظ ” فارقلیط “ کی کچھ تحقیق پیش کردی جائے اس کے بعد باقی تمام آیات اور عبارت کے الفاظ سے آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کا مصداق ہونا ظاہر کیا جائے گا۔ لفظ ” فارقلیط “ کی تحقیق :۔ 1 حاشیہ (آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس پر انجیل یوحنا کی اس بشارت کے انطباق و تفصیل میں والد محترم حضرت مولانا محمد کاندھلوی (رح) کا یہ کلام ایک مثالی تحقیق ہے جس کو ہم حضرت موصوف (رح) کی کتاب بشائر النبیین سے بعینہ نقل کرکے قارئین کے سامنے معارف وحقائق کا ایک خزانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں، (محمد مالک کاندھلوی (رح)) لفظ فارقلیط اصل میں یونانی زبان سے معرب کیا گیا ہے اور یہ لفظ یونانی زبان میں کئی معنوں میں مشترک ہے اور وہ سب معنی احمد مجتبی محمد مصطفے ﷺ پر صادق آتے ہیں علماء نصاری نے فارقلیط کے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔ 1۔ کسی نے کہا فارقلیط کے معنی تسلی دینے والے کے ہیں جس کا عربی ترجمہ معزی ہے۔ 2۔ کسی نے کہا اس کے معنی معین ومدد گار کے ہیں۔ 3۔ کسی نے کہا اس کے معنی شافع یعنی شفاعت کرنے والے کے ہیں۔ 4۔ کسی نے کہا اس کے معنی وکیل کے ہیں۔ 5۔ کسی نے کہا اس کے معنی بڑا سراہنے والا جس کا فارسی ترجمہ ” ستائندہ “ اور عربی ترجمہ حماد اور احمد بصیغہ اسم تفضیل بمعنی فاعل ہے۔ 6۔ کسی نے کہا اس کے معنی بڑا سراہا گیا۔ یعنی بڑا ستودہ کے ہیں جس کا عربی ترجمہ محمد ﷺ ہے اور احمد اسم تفضیل بمعنی مفعول ہے کیونکہ لفظ احمد صیغہ اسم تفضیل کا ہے جو کبھی فاعل کے معنی میں آتا ہے کبھی مفعول کے پس اگر احمد اسم تفضیل بمعنی فاعل ہو تو اس کا ترجمہ یہ ہوگا بڑی حمد وثنا کرنے والا یعنی خدا تعالیٰ کا بڑا سراہنے والا اور اگر احمد اسم تفضیل بمعنی مفعول ہو تو اس کا ترجمہ یہ ہوگا بڑا ستودہ یعنی جو خدا اور بندوں میں بڑا ہی ستودہ ہے کہ ہر جگہ اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ 7۔ اور بعضوں نے فارقلیط کا ترجمہ امید گاہ عوام سے کیا ہے۔ 8۔ اور بعضوں نسخوں میں رسول کا لفظ ہے۔ 9۔ اور بعضوں نے کہا کہ اس کے معنی روح حق کے ہیں۔ 10۔ اور بعضوں نے کہا اس کے معنی ثقہ اور معتبر کے ہیں۔ بہرکیف اگر فارقلیط کی اصل یونانی زبان میں پارا کلی طوس قرار دی جائے تو اس کے معنی معین و مددگار اور وکیل کے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کی اصل پیر کلوطوس ہے تو اس کے معنی محمد یا احمد یا حماد کے قریب ہیں اول تو یہ کوئی خاص تفاوت نہیں تلفظ اور رسم الخط کے فرق سے اس قدر فرق واقع ہوجانا ممکن ہے اور اگر اس کو نہ بھی تسلیم کیا جائے تو بھی مدعا ثابت ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ناموں میں آپ کا لقب معین اور وکیل بھی ہے تو اس معنی کی صورت میں بھی یہ لفظ آنحضرت ﷺ ہی پر صادق آتا ہے ، انجیل کے تمام قدیم نسخوں میں عربی اور فارسی اور اردو تمام نسخوں میں فارقلیط کا لفظ موجود تھا مگر اب موجودہ نسخوں میں لفظ فارقلیط کی بجائے زیادہ تر مددگار اور روح حق کا لفظ پایا جاتا ہے مگر باوجود ان تحریفات وتغیرات اور تبدیلات کے پھر مدعا حاصل ہے اس لیے کہ اس بشارت میں فارقلیط کے جو اوصاف ذکر کیے گئے ہیں وہ تمام کے تمام محمد مصطفے احمد مجت بے ﷺ پر علی وجہ الکمال والتمام صادق اور منطبق ہیں۔ فارقلیط کے جو معنی بھی لیے جائیں وہ سب آپ پر صادق ہیں آپ ﷺ خدا تعالیٰ کے وکیل اور سفیر بھی ہیں اور روح حق اور روح صدق اور روح راستی بھی ہیں اور امت کے شافع بھی ہیں اور بشیر اور نذیر بھی ہیں اور خدا کے ستودہ اور پسندیدہ بھی ہیں اور سب سے زیادہ خدا کی حمد وثناء کرنے والے بھی ہیں بلکہ یہ تمام آپ ﷺ کے اسماء ہیں کوئی ان میں سے اسم صفت ہے جیسے وکیل اور شافع اور معین و مددگار اور روح الحق اور کوئی اسم علم ہے جیسے احمد ﷺ اور محمد ﷺ اور محمود اور حماد اور آپ ﷺ کے ناموں میں ایک نام آپ کا حمد بھی ہے حمد اگرچہ مصدر ہے بمعنی ستودن۔ حاشیہ (یعنی تعریف کرنا۔ ) مگر مبالغۃ آپ پر اطلاق کردیا گیا کہ آنحضرت ﷺ حق تعالیٰ کی مجسم حمد وثناء ہیں۔ فارقلیط کا سب سے زیادہ صحیح ترجمہ احمد ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم میں اس بشارت کا ذکر بلفظ احمد آیا ہے کما قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ یہ آیت قرآن مجید کی ہے، اور قرآن مجید جس میں نازل ہوا اس وقت اس ملک میں بیشمار علماء یہود ونصاری موجود تھے، اگر یہ بشارت اور یہ خبر غلط ہوتی تو ہزار ہاعلمایہود ونصاری اس غلطی کو فاش کرتے اور برملا اس خبر کی تردید کرتے اور جو علماء یہود ونصاری اسلام میں داخل ہوگئے تھے وہ اس غلط بیانی کو دیکھ کر فورا اسلام سے برگشتہ ہوجاتے اور بغیر شور وغل مچائے خاموش نہ بیٹھتے، آنحضرت ﷺ کا اس پیشین گوئی کو علی الاعلان ظاہر فرمانا اور بیان کرنا اور علماء نصاری کا خاموش رہنا یہ ان کے اعتراف اور تسلیم کی روشن دلیل ہے اور اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر یہ بات سچی تھی تو اس وقت کے تمام علماء یہود ونصاری کیوں مسلمان نہ ہوگئے۔ جواب : یہ ہے کہ علماء نصاری کے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ظہور کی پیشن گوئیاں توریت میں موجود ہیں مگر باوجود ان پیشن گوئیوں کے اور باوجود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے مشاہدہ کرلینے کے پھر بھی علماء یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائے بلکہ ان کے دشمن ہوگئے اور بوجہ سنگدلی اور بوجہ دنیاوی اغراض یا بوجہ حسد کے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ صاف طور علماء یہودیہ کہتے ہیں کہ تورات میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی کوئی بشارت نہیں اور نہ ان کا کوئی ذکر ہے تو اسی طرح بہت سے علماء نصاری نے بوجہ سنگدلی اور بوجہ دنیاوی اغراض آپ (علیہ السلام) کا پیرو ہونا قبول نہ کیا، حالانکہ ان کو یقین تھا کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی مسیح بن مریم (علیہ السلام) نے بشارت دی ہے جیسے ہرقل اور مقوقس نے صاف طور پر اس کا اقرار کیا کہ آپ ﷺ وہی نبی ہیں جن کی انجیل میں بشارت دی گئی مگر اپنی سلطنت کی خاطر اسلام میں داخل نہیں ہوئے اور علماء نصاری میں جو منصف اور حق پرست تھے جیسے نجاشی (رح) شاہ حبشہ اور ضغاطر (رح) رومی اور ابن الناطور (رح) وغیرھم یہ لوگ ایمان لائے اور بہت سے علماء نصاری نے دیدہ دانستہ علماء یہود کی طرف صاف طور یہ کہہ دیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تورات وانجیل میں کوئی بشارت نہیں، غرض علماء نصاری کی یہ تکذیب ایسی ہے جیسا کہ علماء یہود اور دیگر یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بشارتوں سے منکر اور مکذب ہیں علماء نصاری یہ کہتے ہیں کہ اس بشارت میں فارقلیط کی آمد سے روح القدس کا حواریین پر نازل ہونا مراد ہے چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کے بعد جب حواریین ایک مکان میں جمع تھے تو وہ روح ان پر نازل ہوئی اور اس روح کے نزول سے حواریین تھوڑی دیر کے لیے مختلف زبانیں بولنے لگے۔ نصاری کا یہ خیال سراسر خیال خام ہے، یہ بشارت کسی مقدس اور برگزیدہ انسان کے حق میں ہے جو خدا کی طرف سے الہام پائے گا اور خدا کی طرف سے اس کو جو القاء ہوگا وہی ہوگا اپنی طرف سے کچھ نہ کہیے گا اس بشارت کو روح القدس یعنی جبرائیل (علیہ السلام) سے کوئی واسطہ نہیں اور کسی فرشتے سے اس بشارت کا کوئی تعلق نہیں بلاشبہ فارقلیط کی آمد سے ایک رسول عظیم کی بعثت مراد ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرے گا اور اگر ہم اس تحقیق سے قطع نظر بھی کرلیں کہ فارقلیط کے کیا معنی ہیں تو تب بھی ہمارا مدعا ثابت ہے کیونکہ اس بشارت میں آنے والے فارقلیط کے بہت سے اوصاف بیان کیے گئے جو بہ تمام و کمال سیدنا ومولانا محمد مصطفے واحمد مجتبی ﷺ پر صادق اور منطبق ہیں۔ اول۔ یہ کہ جب تک میں نہ جاؤں وہ نہ آئے گا۔ دوم۔ یہ کہ میری گواہی دے گا۔ سوم۔ یہ کہ وہ گناہ اور راستی اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا۔ چہارم۔ یہ کہ مجھ پر ایمان نہ لانے والوں کو سزا دے گا۔ پنجم۔ یہ کہ وہ سچائی کی راہ دکھلائے گا۔ ششم۔ یہ کہ وہ آئندہ کی خبریں دے گا۔ ہفتم۔ یہ کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ جو اللہ سے سنے گا وہی کہے گا۔ ہشتم۔ یہ کہ وہ جہاں کا سردار ہوگا۔ نہم۔ یہ کہ وہ میری تمام باتوں کو یاد دلائے گا۔ دہم۔ یہ کہ جو امور تم اس وقت برداشت نہیں کرسکتے وہ نبی اس وقت تم کو آکر بتلائے گا اور جو باتیں غیر مکمل ہیں ان کے تکمیل کرے گا اور یہ تمام باتیں آنحضرت ﷺ پر صادق آتی ہیں جس کے دلائل حسب ذیل ہیں۔ 1۔ آپ ﷺ کا تشریف لانا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جانے پر اس لیے موقوف تھا کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لیے کہ کسی نبی کا آنا پہلے نبی کے جانے پر جب ہی موقوف ہوسکتا ہے جب دوسرا نبی خاتم الانبیاء ہو ورنہ اگر وہ نبی خاتم الانبیاء نہیں تو اس کے آنے سے پہلے نبی کا جانا، شرط ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا اس لیے کہ جب وہ نبی خاتم الانبیاء نہیں تو پہلے نبی کی موجودگی میں بھی مبعوث ہوسکتا ہے۔ 1 پہلے نبی کا جانا دوسرے کے آنے کے لیے جب ہی شرط ہوسکتا ہے کہ جب دوسرا نبی خاتم الانبیاء ہوگا۔ کما قال تعالیٰ : (آیت) ” ما کان محمد ابآاحدمن رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین “۔ محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخرالنبین ہیں۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) خاتم النبیین نہ تھے ورنہ علماء نصاری و یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد ایک نبی کے کس لیے منتظر تھے اور روح کا آنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جانے پر موقوف نہ تھا روح کا نزول تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں ہوتا تھا۔ 2۔ اور آنحضرت ﷺ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گواہی بھی دی۔ (آیت) ” وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ وکان اللہ عزیزا حکیما “۔ اور انہوں نے نہ ان کو (عیسی (علیہ السلام) کو) قتل کیا اور نہ سولی دی لیکن اشتباہ میں ڈال دئیے گئے اور جن لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا وہ یقیناً شک میں ہیں خود ان کو اس کا یقین نہیں محض گمان کی پیروی ہے یقیناً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا وہی غالب اور حکیم ہے۔ 3۔ اور راستی اور عدالت سے ملزم بھی کیا۔ 4۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے نہ ماننے والوں کو پوری پوری سزا بھی دی کسی سے قتال اور جہاد کیا اور کسی کو جلاوطن کیا، جیسا کہ یہود خیبر اور یہود بنو نضیر اور یہود بنو قینقاع کے واقعات سے ظاہر ہے اور روح نے نہ کسی کو ملزم ٹھہرایا اور نہ کسی کی سرزنش کی اور سرزنش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ فارقلیط ظاہر ہونے کے بعد حکومت کے ساتھ لوگوں کو توبیخ اور سرزنش کرے گا، اور ظاہر ہے کہ روح القدس کا ظاہر ہو کر عام لوگوں پر حکومت کرنا کہیں ثابت نہیں اور نہ حواریین کا منصب یہ تھا، حواریین نے حکومت کے طور پر کسی کی توبیخ نہیں کی بلکہ واعظانہ طور پر لوگوں کو سمجھاتے رہے جس میں حکومت کا زور نہ تھا، غرض یہ کہ کسی طرح بھی روح القدس کو فارقلیط کا مصداق نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اور آیت دھم میں سرزنش کی یہ وجہ بیان فرمایا ” اس لیے مجھ پر ایمان نہیں لاتے “ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس فارقلیط اور مددگار اور وکیل وشفیع کا ظہور منکرین عی سے (علیہ السلام) کے سامنے ہوگا بخلاف روح کے کہ اس کا ظہور تو آپ کے نزدیک حواریین پر ہوا کہ جو منکرین عیسیٰ (علیہ السلام) نہ تھے اور نہ حواریین نے کسی کو سزا دی وہ خود ہی مسکین و عاجز تھے کسی منکر کو کیسے سزا دے سکتے تھے۔ 5۔ اور آنحضرت ﷺ نے تصدیق اور راستی کی وہ راہیں دکھائیں کہ جو نہ کسی نے دیکھیں اور نہ سنیں آپکی شریعت غراء اور ملت بیضاء اس کی شاہد ہیں۔ 6۔ اور واقعات کے متعلق آپ ﷺ نے اتنی خبریں دیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں اور ایسی صحیح خبریں دی کہ جو ہو بہوہوئیں اور ان کا ایک حرف بھی خلاف واقعہ نہ نکلا اور تاقیامت اسی طرح ظاہر ہوتی رہیں گی ، 7۔ اس لیے کہ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے کچھ نہیں فرمایا کما قال تعالیٰ : (آیت) ” وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۔ 8۔ اور بائیں ہمہ جہاں کے سردار اور بادشاہ بھی ہوئے اور جہاں اور دنیا کی سرداری سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت تمام عالم کے لیے ہوگی کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہ ہوگی۔ 9۔ اور نصاری نے حضرت مسیح کی صحیح تعلیمات کو محو کردیا تھا انکو بھی یاد دلایا جن میں توحید وتثلیت کا مسئلہ بھی ہے، اس کو خوب یاد دلایا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قتل و صلب کی نفی اور رفع الی السماء کا اثبات فرمایا۔ قل یاھل الکتب تعالوا الی کلمۃ سوآء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ “۔ آپ (علیہ السلام) فرما دیجئے کہ اے اہل کتاب ایسے امر کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں مسلم ہے وہ یہ کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہ بنائیں۔ (آیت) ” وقال المسیح یبنی اسرآء یل اعبدوا اللہ ربی وربکم انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ وماوہ النار وما للظلمین من انصار “۔ اور فرمایا حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) نے اے بنی اسرائیل بندگی کرو صرف ایک اللہ کی جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے تحقیق جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کو حرام کیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ 10۔ آپ ﷺ نے مبعوث ہونے کے بعد وہ باتیں بھی بتلائیں جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے تحمل سے باہر تھیں یعنی ذات وصفات، شریعت وطریقت، حشر ونشر، جنت و جہنم کے متعلق وہ علوم ومعارف کے دریا بہائے کہ جن سے تمام عالم دنگ ہے اور کسی کتاب میں ان علوم کا نام ونشان نہیں اور جو علوم غیر تکمیل شدہ تھے آپ کی شریعت کاملہ نے ان سب کی تکمیل بھی کردی کما قال اللہ تعالیٰ عزوجل ، (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا “۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو پسند کیا دین بنا کر۔ اور قیامت تک کے لیے دنیا کو ایک ایسا کامل اور مکمل دستور (یعنی شریعت) دے گئے جو ان کے دین اور دنیا کی صلاح اور فلاح کا کفیل ہے اور اس کے حائق اور دقائق اور اسرار وحکم کو دیکھ کر دنیا حیران ہے قیامت تک پیش آنے والے واقعات کا حکم شریعت محمدیہ سے معلوم ہوسکتا ہے علماء یہود ونصاری کے پاس کوئی شریعت ہی نہیں جس کو سامنے رکھ کر علماء امت اور فقہائے ملت کی طرح فتوے دے سکیں اس وقت کے متعلق ان کے پاس کوئی آسمانی قانون نہیں ہے کہ جس کی رو سے وہ دنیا میں عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرسکیں مغربی اقوام کے پاس جو دستور ہے وہ چند اہل فکر کے افکار اور خیالات کا نتیجہ ہے شریعت اسلامیہ کی طرح آسمان سے نازل شدہ کوئی قانون ان کے پاس نہیں۔ علماء مسیحین اس بشارت کو روح القدس کے حق میں قرار دیتے ہیں جس کا نزول حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع السماء کے، 4 یوم بعد حواریین پر ہوا لیکن یہ قول چند وجوہ سے باطل ہے۔ 1۔ اس لیے کہ روح کا نازل ہونا حضرت مسیح (علیہ السلام) کے جانے پر موقوف نہ تھا بلکہ وہ تو ہر وقت حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ رہتی تھی۔ 2۔ اور نہ روح نے کسی کو راستی اور عدالت سے ملزم ٹھہرایا اور نہ کسی یہودی کو حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے کبھی سزا دی البتہ آنحضرت ﷺ نے مشرکین اور کفار سے جہاد بھی کیا اور یہودیوں کو کافی سزا بھی دی اور ان کو ملزم ٹھہرایا اس لیے کہ اہل دنیا کو الزام دینا اور ان کی سرزنش کرنا بغیر حکومت کے ممکن نہیں معلوم ہوا کہ آنے والا فارقلیط اور دوسرا مددگار دنیا کا حکم اور بادشاہ ہوگا جو مجرموں کی سرزنش کرے گا اور چودھویں باب کے درس 30 میں جو دنیا کے سردار آنے کا ذکر ہے اس سے بھی دنیا کا حاکم مراد ہے کہ جس کی حکومت اور توبیخ اور سرزنش کا ذکر ہوچکا ہے۔ 3۔ نیز حضرت مسیح (علیہ السلام) کا اس پر ایمان لانے کی تاکید فرمانا بالکل بےمحل ہے اس لیے کہ حواریین پیشتر ہی سے روح القدس پر ایمان رکھتے تھے اس کے فرمانے کی کیا حاجت تھی کہ ” جب وہ آئے تب تم ایمان لاؤ۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا اس قدر اہتمام فرمانا اور اس پر ایمان لانے کی وصیت کرنا خود اس کو بتلا رہا ہے کہ وہ آنے والی شے کچھ ایسی ہوگی جس کا انکار تم سے بعید نہ ہوگا۔ اگر فارقیط سے روح مراد ہوتی تو اس کے لیے چنداں اہتمام اور تاکید کی ضرورت نہ تھی اس لیے کہ جس کے قلب پر روح کا نزول ہوگا اس سے روح کا انکار ہونا بالکل ناممکن ہے۔ روح القدس کا نزول بالبداہت مفید یقین ہے جس طرح کہ روح القدس کے نزول سے بالبداہت پیغمبر کو اپنی نبوت کا یقین آجاتا ہے پیش آنے والی چیز سے انسان کو ایسا یقین کامل آجاتا ہے کہ قوت خیالیہ بھی اس کو دفع نہیں کرسکتی، انسان پر جب کوئی حالت طاری ہوتی ہے تو اس کا انکار ممکن نہیں ہوتا۔ 4۔ نیز اس عبارت کا مصداق اس بات کو بتلارہا ہے کہ آنے والا فارقلیط حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے مغایر ہے جیسا کہ سولہویں آیت کا یہ لفظ دوسرا مددگار بخشے گا صاف مغایرت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ علیحدہ صورت میں ظاہر اور نمودار ہوگا۔ پس اگر فارقلیط سے روح القدس مراد لی جائے تو وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کسی طرح مغایر نہیں کیونکہ نصاری کے نزدیک ابن اور روح القدس میں حقیقی اتحاد ہے اور روح القدس جو حواریین پر ظاہر ہوگی وہ کسی علیحدہ صورت میں ظاہر نہیں ہوئی جس طرح کسی شخص پر جن مسلط ہوجاتا ہے سو جن کی باتیں وہی ہوتی ہیں جو اس شخص کے منہ سے نکلتی ہیں علیحدہ صورت میں اس کا ظہور نہیں ہوتا۔ 5۔ نیز اس بشارت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ” جو کچھ میں نے تمہیں کہا، یاد دلائے گا “ حالانکہ کسی کتاب سے یہ ثابت نہیں کہ حواری حضرت عسی (علیہ السلام) کے ارشادات فراموش کرچکے تھے اور روح القدس نے ان کو علیحدہ صورت میں ظاہر ہو کر یاد دلائے ہوں۔ 6۔ نیز اس بشارت میں یہ بھی مذکور ہے ” کہ وہ میرے لیے گواہی دے گا “ ، سو یہ وصف صرف نبی اکرم پر ہی صادق آسکتا ہے کہ آپ ﷺ ہی نے آکر مشرکین اور یہود کے سامنے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی گواہی دی اور ان لوگوں کے سامنے کہ جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے منکر یا بیخبر تھے آپ ﷺ ہی نے حضرت عسیی (علیہ السلام) کی رسالت کا اعلان ہو۔ بخلاف روح القدس کے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین پر نازل ہوئی اور حواریین پہلے ہی سے حضرت میسح (علیہ السلام) کو رسول جانتے تھے ان کے سامنے گواہی دینے کی کوئی حاجت نہ تھی گواہی کی ضرورت تو منکرین کے سامنے ہوتی ہے نہ کہ مومنین کے سامنے بخلاف آنحضرت ﷺ کے آپ ﷺ نے یہود کے سامنے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منکر اور دشمن تھے علی الاعلان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کی گواہی دی اور ان کے دعوائے قتل وصلب کی تریدد کی اور رفع الی السماء کو ثابت کیا۔ 7۔ نیز حضرت مسیح (علیہ السلام) اس فارقلیط کی نسبت یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں، ” سو یہ جملہ آنحضرت ﷺ پر ہی صادق آسکتا ہے کہ مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں روح القدس اور مسیح تو ایک ہی چیز ہیں۔ 8۔ نیزیہ بھی قابل غور ہے کہ اس روح نے کون سی آئندہ کی خبریں بتلائیں کہ جس سے اس روح کو اس بشارت کا مصداق کہا جائے۔ 9۔ نیز اس بشارت کا تمام سیاق وسباق دلالت کرتا ہے کہ آنے والا دوسرا فارقلیط اور دوسر مددگار لباس بشری اور پیکر انسانی میں ظہور کرے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح بشری لباس میں دعوت حق اور لوگوں کی تسلی کے لیے آوے گا پس فارقلیط کا مصداق اس روح کو سمجھنا کہ جو آدمیوں پر جن کی طرح نازل ہوا اور ان میں حلول کرے بالکل غلط ہے۔ 10۔ نیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کے بعد سے عامۃ نصاری فارقیط کے منتظر رہے اور یہ سمجھتے تھے کہ کوئی عظیم الشان نبی مبعوث ہوگا چناچہ منتش عیسائی نے دوسری صدی عیسوی میں یہ دعوی کیا کہ میں وہی فارقلیط ہوں کہ جس کی حضرت مسیح نے خبر دی بہت سے لوگ اس پر ایمان لے آئے جس کا مفصل تذکرہ ولیم میور مسیحی نے اپنی تاریخ کے تیسرے باب میں لکھا ہے اور یہ کتاب 1948 ء ؁ میں طبع ہوئی معلوم ہوا کہ علماء یہود ونصاری یہی سمجھتے تھے کہ فارقلیط سے کوئی انسان مراد ہے نہ کہ روح القدس۔ اور لب التورایخ کا مصنف جو کہ ایک مسیحی عالم ہے لکھتا ہے کہ محمد ﷺ سے قبل یہود ونصاری ایک نبی کے منتظر تھے اور اسی وجہ سے نجاشی (رح) شاہ حبشہ، جعفر طیار ؓ سے آپ ﷺ کا حال سن کر ایمان لایا اور کہا بلاشک یہی وہ نبی ہیں جن کی حضرت مسیح (علیہ السلام) نے انجیل میں خبر دی حالانکہ نجاشی انجیل کا عالم ہونے کے علاوہ بادشاہ بھی تھا کسی قسم کا اس کو خوف وخطر بھی نہ تھا۔ اور مقوقس شاہ قبط نے آنحضرت ﷺ کے والا نامہ کے جواب میں لکھا۔ سلام علیکم۔ اما بعد فقد قرأت کتابک وفھمت ماذکرت فیہ وما تدعوا الیہ وقد علمت ان نبی اقد یقی وقد کنت اظن انہ یخرج بالشام وقد اکرمت رسولک “۔ سلام ہو آپ پر اما بعد۔ میں نے آپ ﷺ کے والا نامہ کو پڑھا اور جو کچھ آپ نے اس میں ذکر فرمایا اور جس کی طرف دعوت دی اس کو سمجھا، مجھ کو خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ اب صرف ایک نبی باقی رہ گیا ہے میرا گمان یہ تھا کہ وہ نبی شام میں ظاہر ہوگا اور میں نے آپ کے قاصد کا اکرام کیا۔ مقوقس اگرچہ اسلام نہ لایا مگر اتنا ضرور اقرار کیا کہ ایک نبی کا آنا باقی رہ گیا ہے اور جارودبن علاء ؓ جو اپنی قوم میں بہت بڑے عالم تھے جب اپنی قوم کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے تو یہ کہا۔ واللہ لقد جئت بالحق ونطقت بالصدق لقد وجدت وصفک فی الانجیل وبشربک ابن الیتول فطول التحیۃ لک والشکرلمن اکرمک لا اثر بعد عین ولا شک بعد یقین مد یدک اشھد ان لاالہ الا اللہ وانک محمد رسول اللہ : ، خدا کی قسم آپ ﷺ حق لیکر آئے ہیں اور آپ ﷺ نے سچ فرمایا البتہ تحقیق میں نے آپ کی صفت انجیل میں پائی ہے اور مسیح (علیہ السلام) بن مریم (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کی بشارت دی ہے آپ کے لیے طویل و عریض تحیۂ تکریم پیش کرتا ہوں اور شکر ہے اس کے لیے جو آپ کا اکرام کرے، ذات کے بعد نشان کی اور یقین کے بعد شک کی ضرورت نہیں اپنا دست مبارک بڑھائیے میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقیناً محمد رسول اللہ ﷺ ۔ اور علی ھذا ہرقل شاہ روم اور دوسرے ذی شوکت علماء تورات وانجیل نے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کا اقرار کیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی بشارت اور آپ ﷺ کا نام انجیل میں لکھا ہوا تھا۔ جس کو دیکھ کر لوگ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی آمد سے پہلے وہ آپ ﷺ کے منتظر تھے جن کو خدائے تعالیٰ نے توفیق بخشی اور کسی دنیوی طمع نے ان کو نہ گھیرا وہ اس دولت سے متمتع ہوئے۔ (آیت) ” ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء واللہ ذوالفضل العظیم، والحمد للہ الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ۔ 11۔ اور سولہویں آیت کا یہ جملہ کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فارقلیط بمعنی روح جس کے نصاری قائل ہیں وہ بھی ہمیشہ ان کے ساتھ نہ رہا، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کی شریعت اور دین ابد تک رہے گا اور اس کے بعد کوئی دین نہ آئیگا جو اس کیلئے ناسخ ہو۔ 12۔ اور باب چہاردھم کی سترھویں آیت کا یہ جملہ یعنی سچائی کی روح جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے اور نہ جانتی ہے۔ ، اس کا یہ مطلب ہے کہ دنیا اس کے مرتبہ کو نہیں جانتی وہ تمام کائنات میں سب سے بہتر اور برتر ہوگا۔ غرض انجیل یوحنا کی یہ آیات اپنے مجموعی مضمون اور تمام الفاظ وکلمات سے نبی آخرالزمان محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت ونبوت کی بشارت سنارہی ہیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنے حواریین کو نہایت وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے تمہیں اس کے واقع ہونے سے پیشتر کہا تاکہ جب وہ واقع ہو تو ایمان لاؤ۔ اس بنا پر اس شخص پر جو انجیل مقدس کو مانتا ہو اور حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان رکھتا ہو، لازم ہے کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اس فرمان کی تعمیل کرے۔ کیا کسی کا یہ دعوت قابل قبول ہوسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان رکھتا ہے اور حال یہ کہ وہ ان کے صریح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہی مبشر محمد ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کردے ایسی صورت میں عقلا یہ کہا جائے گا یہ شخص خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کا منکر اور کافر ہے۔ لہذا جو شخص بھی نصاری میں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ حضرت مسیح پر ایمان قائم رکھے اس کے واسطے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے ورنہ اس یہودی کو جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ رکھتا ہو ایسے عیسائی سے کوئی امتیاز نہ ہوگا جو محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے سے انکار کردے۔ انجیل برنا با۔ حاشیہ (برنابا بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے ایک حواری ہیں جس طرح ان کے حواری یوحنا، متی، لوقا، اور مرقس اپنی اپنی انجیلوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلام اور ان کے احوال نقل کرتے ہیں۔ اسی طرح با نابانے بھی اپنی انجیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اقوال کو جمع کیا ہے عیسائیوں کا اس انجیل کے الہامی ہونے سے انکار کرنا ایک بےمعنی چیز ہے اس لیے کہ یہ انجیل قدیم انجیلوں میں سے ہے اس کا تذکرہ دوسری تیسری صدی کی کتابوں میں ملتا ہے۔ 12) میں تو یہ بشارت اس سے بھی زائد وضاحت اہتمام سے آپ ﷺ کے اسم مبارک محمد ﷺ اور احمد ﷺ کی تصریح کے ساتھ مذکور ہے۔ نصاری کی طرف سے بارقلیط کی خبر دی ہے اس سے روح القدس (جبرائیل امین علیہ السلام) کا نازل ہونا مراد ہے، جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے چند حواریوں پر نازل ہوئے جبکہ وہ ایک مکان میں جمع تھے جس کی وجہ سے وہ حورای مختلف قسم کی زبانیں بولنے لگے اور یہ کہتے ہیں کہ روح القدس کسی خاص شکل و صورت میں نہیں آئے بلکہ ان کا یہ باطنی طور پر تصرف تھا جس کی وجہ سے یہ تغیرہوا اور ان مختلف اقسام زبانوں میں وہ لوگ بولنے لگے۔ سابق تفصیل سے یہ بات بدہی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ ان تمام الفاظ کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا اور کوئی دنیا میں ممکن نہیں ہے وہ تمام اوصاف اور احوالج جو بشارت انجیل میں پوری پوری وضاحت سے ذکر کیے گئے ہیں ان کے پیش نظر جبرائیل (علیہ السلام) کو اس کا مصداق ٹھہرانا ایک بالکل ہی بےمعنی بات ہے جو کسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آسکتی کیا یہ بات کہ وہ حواری محض کچھ قسم کی زبانوں میں بولنے لگے جو سمجھی بھی نہ جاتی تھیں عقلا اس عظیم الشان بشارت کا مصداق بن سکتی ہے اور کیا عقل سلیم اس امر کو باور کرسکتی ہے، محض اتنی سی بات کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے حواریوں کے رو برو یہ نصیحت و تسلی آمیز مژدہ سنا رہے ہیں کہ مختلف ناقابل فہم زبانوں میں کچھ بولنے لگیں تو بس یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کے سر پر ٹث سدو یا کوئی جن سوار ہوجائے اور وہ بولتا ہوا اور پھر عجیب تر بات یہ کہ خود عیسائیوں کو یہ تسلیم ہے کہ یہ حالت ان حواریوں کی صرف تھوڑی دیر تک رہی تو کیا جو حالت چند لمحوں کے لیے رہی ہے وہ ایسا فارقلیط ہوسکتا ہے جو ابد تک ساتھ رہے۔ انجیل برنابا میں آنحضرت ﷺ کے اسم مبارک کی تصریح کے ساتھ بشارت : پادری سیل نے اپنے ترجمہ قرآن عظیم کے مقدمہ میں انجیل برنا با سے نقل کیا ہے اور یہ انجیل 1854 ء ؁ میں طبع ہو کر شائع ہوئی لیکن دوسری طباعت میں اس بشارت کو حذف کردیا گیا اور وہ بشارت جس کو پادری سیل نے نقل کیا ہے یہ ہے کہ ” اے برنا با گناہ اگرچہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی جزاء دیتے ہیں اس لیے کہ حق تعالیٰ گناہ سے راضی نہیں میری امت اور میرے شاگردوں نے جب دنیا کے لیے گناہ کیا تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوگئے اور باقتضاء عدل و انصاف یہ ارادہ فرمایا کہ ان کو اسی دنیا میں اسی غیر مناسب عقیدے کی بناء پر سزا دے تاکہ عذاب جہنم سے نجات پائیں اور وہاں ان کو کوئی تکلیف نہ ہو اور میں اگرچہ اس عقیدہ فاسدہ سے بالکل بری ہوں لیکن چونکہ بعض لوگوں نے مجھ کو اللہ اور ابن اللہ کہا تو اللہ تعالیٰ کہ یہ کہنا ناگوار ہوا اور اس کی مشیت اس کی مقتضی ہوئی کہ قیامت کے دن شیاطین مجھ پر نہ ہنسیں اور نہ میرا مذاق اڑائیں پس اللہ نے اپنی مہربانی اور رحتم سے یہ پسند کیا کہ یہودا کی وجہ سے یہ ہنسی دنیا ہی میں ہو اور ہر شخص یہ گمان کرتا رہا ہے کہ میں سولی دے دیا گیا لیکن یہ اہانت و استہزاء فقط محمد رسول اللہ ﷺ کے آنے تک رہے گا پس جب آپ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ہر مومن کو اس غلطی پر متنبہ فرمائیں گے اور یہ شبہ لوگوں کے دلوں سے مرتفع ہوجائے گا “۔ (ترجمہ بلفظہا ختم ہوا) اظہار الحق میں ہے کہ اگر لوگ یہ اعتراض کریں کہ اس انجیل کو علماء نصاری نے رد کیا ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ اس رد کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے کہ یہ انجیل قدیم انجیلوں میں سے ہے اس کا تذکرہ دوسری اور تیسری صدی عیسوی کی کتابوں میں ہے پس اس بناء پر کہ یہ انجیل نبی اکرم ﷺ کے ظہور سے دو سو سال قبل لکھی گئی ہے اور جیسے عظیم الشان امر کی بدون الہام کے خبر دنیا اہل فہم کے نزدیک ناممکن ہے (دوسری بشارت) فاضل حیدر علی قریشی نے اپنی کتاب ” خلاصہ سیف المسلمین “ میں جو اردو زبان میں ہے لکھا ہے کہ پادرمی اوسکان ارمنی نے صحیفہ یسعیاہ (علیہ السلام) کا ارمنی زبان میں 1666 ؁ ء میں ترجمہ کیا جو 1733 ؁ء میں طبع ہوا اس میں صحیفہ یسعیاہ (علیہ السلام) کے بیالیسویں باب میں یہ فقرہ موجود ہے ” اللہ کی تسبیح پڑھو اس آنے والے پیغمبر کی سلطنت کانشان اس کی پشت پر ہوگا (یعنی مہر نبوت) اور اس کا نام احمد ہوگا “۔ انتہی۔ اور یہ ترجمہ آرمینیوں کے پاس موجود ہے اس میں دیکھ لیاجائے۔ ان کے علاوہ انجیل مقدس کی اور بھی بشارتیں ہیں جو نبی کریم ﷺ کی بعثت ونبوت کا مزدہ و خوشخبری ہیں۔ 1 حاشیہ (ملاحظۃ فرمائیں بشائر النبیین مصنفہ حضرت علامہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی قدس اللہ سرۂ العزیز۔ 12)
Top