بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو چیز آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
تسبیح وتحمید خداوندی مع ترغیب اہل ایمان برائے جہاد فی سبیل اللہ “۔ (ربط) گزشتہ سورت میں کافروں سے موالات ودوستی پر تنبیہ ووعید تھی اور واضح طور پر یہ فرما دیا گیا تھا (آیت) ” لاتتولوا قوما غضب اللہ علیھم “۔ کہ اے مسلمانو ! ہرگز ایسی قوم کو اپنا دوست نہ بناؤ جن پر خدا کا غضب ہے، اب اس سورت میں حق تعالیٰ شانہ اپنی پاکی اور بےنیازی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا کہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہو کر کافروں کے مقابلہ اور مقاتلہ کیلئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے اور یہ وصف اس وقت پیدا ہوگا جب مسلمان اپنے قول وفعل میں مطابقت اور یکسانیت پیدا کرلے، اس زمانہ میں عرب میں کھلبی مچی ہوئی تھی کفار کا ہر طرف سے مسلمانوں پر حملہ ہورہا تھا اور مسلمان باوجود اپنی قلت اور ضعف کے ہمت وجوانمردی سے کافروں کا مقابلہ کررہے تھے تو اس سورت میں بالخصوص جہاد کی ترغیب دی جارہی ہے، ارشاد فرمایا ، پاکی بیان کرتی ہے اللہ کی ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، کائنات آسمان و زمین کی ہر چیز کا اس کی پاکی اور تسبیح میں مشغول ہونا اس کی عظمت وکبریائی کی واضح دلیل ہے بیشک وہی زبردست عزت و حکمت والا ہے ایسی ذات سراپا عزت و عظمت کے حامی یقیناً نہ دنیا کی طاقت سے مغلوب ومرعوب ہوسکتے ہیں اور نہ ناکام، لیکن انسانوں کی عزت اور کامیابی ایمانی اوصاف و کمالات پر ہی موقوف ہے جس کے لیے قول وفعل کی مطابقت ویکسانیت چاہئے قول وفعل میں تضاد نفاق کی علامت ہے اس لیے اے مسلمانو ! اے ایمان والو کیوں کہتے ہو اپنے منہ سے وہ بات جو تم نہیں کرتے ہو بڑی ہی ناراضگی کی بات ہے اللہ کے نزدیک کہ تم وہ چیز کہو جو نہیں کرتے ہو اس طرح کے دعوے اور لاف زنی جھوٹوں اور منافقوں کا کام ہوتا ہے اور نفاق انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی کمزوری کے بعد دشمن کا کیا خاک مقابلہ کرے گا اور فتح و کامرانی کی کیونکر تو قع ہوسکتی ہے ایمان والوں کو تو چاہئے کہ صداقت اور عزم وہمت کے حامل بن کر اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور بڑی قوت وہمت سے ایک آہنی دیوار بن کر دشمن کے مقابلہ کے لیے میدان جہاد میں نکل آئیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بیشک اللہ محبوب رکھتا ہے اپنے بندوں کو جو قتال و جہاد کرتے ہیں اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح کہ گویا وہ ایک دیوار ہیں سیسہ پلائی ہوئی یہی صفت اور حالت ان کے اخلاص وسعادت کی دلیل ہوگی، محض دعوؤں کے بعد میدان جہاد سے بھاگنا منافقوں کا وہ شیوہ ہے جس کو قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ پہلے تو یہ لوگ جہاد کا مطالبہ کرتے رہے لیکن جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو کہنے لگے (آیت) ” ربنا لم کتبت علینا القتال لولااخرتنا الی اجل قریب۔ یہی حال قوم موسیٰ (علیہ السلام) کا تھا جب جہاد کا حکم ہوا نہایت ہی بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اے موسیٰ اس بستی میں بڑی طاقت والی قوم ہے اور ہم اس بستی میں اس وقت تک داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں، البتہ اگر وہ لوگ اس بستی کو خالی کرکے وہاں سے نکل جائیں تو ہم ضرور اس میں داخل ہوجائیں گے اور ٹکا سا جواب دے دیا (آیت) ” اذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون “۔ کہ اے موسیٰ ” بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ اور تم دونوں جا کر کافروں سے لڑلو ہم یہاں بیٹھے ہیں تو حق تعالیٰ نے جہاد کے لیے اہل ایمان کو ترغیب دی اور یہی وہ اخلاص باطن کا رنگ ہے جو اس طرح حضرات صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں نمودار ہوا جب سب سے پہلے آنحضرت ﷺ نے جہاد کا اعلان کیا تو آپ ﷺ کے جانثار صحابہ کرام ؓ کا یہ جواب تھا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ جہاد کا حکم دیجئے ہم آپ ﷺ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی دائیں اور بائیں بھی اور ہم اس قوم کی طرح نہ ہوں گے جنہوں نے اپنے پیغمبر کو یہ جواب دے دیا تھا کہ (آیت) ” اذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون “۔ جہاد فی سبیل بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین عمل : (آیت) ” ان اللہ یحب الذین “۔ آیت مبارکہ حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ میں جہاد فی سبیل اللہ کا محبوب ترین عمل بیان کررہی ہے اور ظاہر ہے کہ جب یہ عمل اللہ کو محبوب ہے تو مجاہدین بھی یقیناً اس کی نظروں میں محبوب تیرین بندے ہوں گے اسی کو یہ الفاظ واضح کررہے ہیں، آنحضرت ﷺ ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو بڑی ہی اور پیار کی نظر سے دیکھتا ہے ایک وہ جو رات کو بیدار ہو کر نما زمین مشغول ہوجائے، دوسری وہ قوم جو جماعت میں نماز کے لیے صف بستہ ہیں، تیسری وہ جماعت مجاہدین جو میدان جہاد میں کافروں سے قتال کے لیے صف بستہ ہے۔ حضرت کعب احبار ؓ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت خود اپنے پیغمبر محمد ﷺ کی شان اس طرح بیان فرماتا ہے محمد ﷺ میرے بندہ متوکل ہیں، پسندیدہ و برگزیدہ جو نہ سخت دل ہیں نہ بدمزاج، اور نہ بازاروں میں شور وشغب کرنے والے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں بلکہ درگذر اور معاف کرتے ہیں جن کا مولد (جائے پیدائش) مکہ ہے اور ان کی ہجرت کی جگہ طیبہ (مدینہ) ہے اور ان کا ملک سلطنت شام ہوگا، ان کی امت حماد ہوگی جو ہر جگہ اور ہر حال میں اللہ کی حمد وثنا کرتی ہوگی، ان کی سحر کے وقت خشیتہ خداوندی ہے فضا میں ایک آواز ہوگی جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہو جو اپنے اطراف اعضادھونے ہوں گے (یعنی وضو) اور نصف پنڈلیوں پر اپنی ازار باندھتے ہوں گے اور اس کے بعد یہ آیت تلاوت کی۔ (آیت) ” ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا “ الخ۔ 1 حاشیہ 1 (تفسیر ابن کثیر) اس عمل کی محبوبیت کا تو یہ مقام ہے کہ آنحضرت ﷺ ارشاد فرمایا کرتے۔ وددت انی اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی ثم اقتل ثم ثم اقتل۔ 2 حاشیہ۔ 2 (رواہ البخاری ومسلم واصحاب سنن)
Top