Maarif-ul-Quran - As-Saff : 10
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ : اے لوگو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے ہو هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں رہنمائی کروں تمہاری عَلٰي تِجَارَةٍ : اوپر ایک تجارت کے تُنْجِيْكُمْ : بچائے تم کو مِّنْ عَذَابٍ : عذاب سے اَلِيْمٍ : دردناک
مومنو ! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دی۔
دعوت اہل ایمان برائے تجارت رابحہ وترغیب برحصول فلاح وسعادت دنیا وآخرت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” یایھا الذین امنوا ....... الی ...... فاصبحوا ظھرین “۔ (ربط) گزشتہ آیات کا حاصل مضمون یہ تھا کہ اللہ رب العزت نے اپنے نبی آخرالزمان ﷺ کی بعثت سے دنیا کی ہدایت کا ارادہ فرمایا تاکہ انسان حق وہدایت کے ذریعہ دنیا وآخرت کی فلاح و کامیابی حاصل کرسکیں، اور اسی بشارت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا لیکن ان کی بدنصیب قوم نے ان کی بات کو ٹھکرایا حق سے منہ موڑا اور جو کچھ نبی آخر الزمان ﷺ کی نشانیاں تھیں ان میں تحریف کی اب ان آیات میں اہل ایمان کو خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ جس تجارت رابحہ کو اہل کتاب نے چھوڑا اور اس سے محروم ہوئے اے ایمان والو ! اب تم اس کامیاب تجارت کی طرف رخ کرلو جس سے دنیا کی عافیت اور آخرت کی نعمتیں حاصل ہوں گی، فرمایا۔ اے ایمان والو ! کیا میں راہنمائی کروں تم کو ایک ایسی تجارت کی طرف جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچا وے وہ تجارت یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو تم اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے بس یہی بہتر ہے تمہارے واسطے اگر تم جان لو اس حقیقت کو اور اس تجارت کی عظمت واہمیت اور نافعیت کو، اس تجارت سے حاصل ہونے والے عظیم تر فوائد یہ ہیں کہ بخش دے گا تمہارا پروردگار تمہارے گناہ اور داخل کرے گا تم کو ایسے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوگی اور نہایت ہی صاف ستھرے پاکیزہ مکانات ہوں گے آباد ہونے کے باغوں میں جن میں اہل ایمان ٹھہریں اور ان ہی میں بسیں گے یہی ہے سب سے بڑی کامیابی اور ایک دوسری چیز بھی وہ پروردگار تمہیں دے گا جس کو تم چاہتے ہو وہ اللہ کی طرف سے مدد اور جلد ہی حاصل ہونے والی فتح، اگرچہ اصل کامیابی اور عظیم انعام تو آخرت ہی کی کامیابی ہے جس کے سامنے ہفت اقلیم کی بھی کوئی حقیقت نہیں لیکن ایک اور نعمت بھی اللہ تم کو جلد عطا کرنے والا ہے جس کو اے اہل ایمان ! تم طبعا چاہتے ہو اور وہ تمہیں محبوب ہے وہ ہے (آیت) ” نصرمن اللہ وفتح قریب “۔ اور اے ہمارے پیغمبر اس کی خوشخبری سنا دو ایمان والوں کو تاکہ وہ موجودہ تکالیف خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں پورے ایمانی جذبات سے اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کریں یہی جہاد ان کی کامیاب اور نفع بخش تجارت ہے جو دنیا وآخرت میں کام آئے گی اس کے واسطے مسلمانوں کو متحد ہوجانے کی ضرورت ہے لہذا اے ایمان والوہوجاؤ تم اللہ کے مددگار اس کے دین اور پیغمبر کی نصرت وحمایت میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑوتم سمجھو کہ یہ ایک مطالبہ ہے اور تمہارے پیغمبر کی دعوت ہے جس کی طرف تم کو بلایا جارہا ہے اس پر تمہیں لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے جیسا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں کو دوستوں اور مددگاروں کو پکارتے ہوئے کہا کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں تو ان کے مخلص دوستوں نے کہا ہم ہیں مددگار اللہ کے اس کے دین کی حمایت ونصرت اور اس کے پیغمبر کی اعانت کے لیے، اس وعدۂ حمایت ونصرت پر چاہئے تو یہ تھا سب حواری قائم رہتے لیکن پھر ایسا ہوا ایک گروہ تو بنی اسرائیل کا اس پر قائم رہا اور ایمان واخلاص سے اس وعدہ کو پورا کرنے لگا اور دوسرے ایک گروہ نے کفر کیا، تو ہم نے قوت دی ایمان لانے والوں کو اور عہد پر قائم رہنے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں چناچہ وہ ایمان لانے والے غالب آئے اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں اور اللہ کا یہی قانون اور دستور ہے کہ وہ اپنے پیغمبر اور اس کے اعوان وانصار اور دین کے مدد گاروں کو دین کے دشمنوں میں غالب وکامیاب کرے ، استاذ محترم حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) اپنے فوائد میں فرماتے ہیں ” حواریین (یاران مسیح علیہ السلام) تھوڑے سے تو گنے چنے آدمی تھے جو اپنے حسب ونسب کے لحاظ سے کچھ معزز نہیں سمجھے جاتے تھے انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو قبول کیا اور ان کی دعوت پر بڑی قربانیاں دے کردیار وامصار میں پھیلا دیا۔ “ حضرت شاہ صاحبرحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے یاروں نے بڑی محنتیں کیں تب ان کا دین نشر ہوا ہمارے حضرت ﷺ کے پیچھے ان کے خلفاء نے اس سے زیادہ کیا ” والحمد للہ علی ذلک “۔ اور اتنا کیا کہ تاریخ عالم اس پر حیران ہے ان کی مدد۔ ان کا اخلاص اور اللہ کی راہ میں قربانیاں تاریخ عالم میں اپنی مثال نہیں رکھتیں “۔ جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے صرف چندنام ہی ملتے ہیں اور ان کی قربانیوں یا اخلاص وہمدردی کا کوئی خاص کارنامہ بھی دنیانے نہیں دیکھا بلکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھالیے جانے کے بعد ان کے متبعین دو فرقوں میں بٹ گئے ایک ایمان پر قائم رہا اور دوسرے نے انکار کردیا اور جو ایمان پر قائم رہے وہ بھی آپس میں دست و گریبان ہوتے رہے، حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مخلص نام لیوا انصاری ہود پر غالب رہے اور نصاری کی عام گمراہی کے بعد بچے کھچے افراد صحیح عقیدہ پر قائم رہ گئے تھے ان کو حق تعالیٰ نے نبی آخر الزمان ﷺ کے ذریعے دوسروں پر غلبہ عنایت فرمایا، حجت وبرہان کے اعتبار سے بھی اور قوت وسلطنت کی حیثیت سے بھی، فللہ الحمد والمنۃ (تفسیر فوائد عثمانی) حواریین مسیح (علیہ السلام) کے بالمقابل حواریین محمد رسول اللہ ﷺ اور انصار اللہ کی عظمت ومنقبت : حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) کے حواری کا ذکر آیت کما قال : (آیت) ” عیسیٰ ابن مریم “ ، میں فرمایا گیا لیکن حق تعالیٰ شانہ نے جو عظمت و برتری حضور اکرم ﷺ کے حواریین یعنی انصار اسلام کو عطا فرمائی اس کے سامنے مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں کی کوئی حقیقت نہیں جس طرح کہ ذرہ کو آفتاب سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی اور اس تفاوت کو تاریخ نے خود ثابت کردیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرۂ ازالۃ الخفاء ج 1 ص، 24 میں فرماتے ہیں، اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب فرمائے گا سو یہ بات علی وجہ الاکمل والاتم آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں پائی گئی اس کی تکمیل آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کرام ؓ کے دور مسعود میں ہوئی کہ مسلمانوں نے بڑے بڑے جہاد کیے اور فتوحات حاصل کیں یہی صورت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین کے ساتھ ہوئی کہ انہیں بھی غلبہ بعد میں ہی حاصل ہوا “۔ قتادۃ (رح) اس آیت کی تفسری میں بیان کرتے ہیں کہ بفضلہ تعالیٰ ایسا ہی یہ واقعہ بھی ہوا، مدینہ کے 70 ستر اشخاص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف باسلام ہوئے اور جمرۂ عقبہ کے نزدیک آپ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی اور آپ کی نصرت واعانت کا عہد کیا چناچہ انہوں نے مہاجرین کو ٹھکانہ دیا اور اللہ کے پیغمبر کی جان ومال سے مدد کی جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو غلبہ عطا کیا اور یہ گروہ انصار کے نام سے پکارا گیا، دنیا میں ان کے سوا کسی قبیلہ اور گروہ کا نام آسمان سے انصار تجویز ہو کر نہیں اترا سوائے ان حضرات انصار کے۔ سیرت کی روایات میں ہے کہ اس بیعت عقبہ کے موقعہ پر ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر ہم اللہ کی عبادت کریں اور آپ ﷺ کی اطاعت ونصرت کریں تو ہمیں کیا ملے گا فرمایا دنیا میں فتح وظفر اور آخرت میں جنت، راوی بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایسا ہی کردکھایا اور بیشک اللہ نے ان کو اس کی یہی جزاء دی۔ الغرض خاتم الانبیاء والمرسلین محمد رسول اللہ ﷺ کے حواری یہ لوگ تھے اور کل قریش تھے بالخصوص عشرہ مبشرہ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت عثمان غنی ؓ حضرت علی بن ابی طالب ؓ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ؓ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، حضرت سعید بن زید ؓ حضرت طحلہ ؓ حضرت زبیر ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ، حواریین رسول انصار ومہاجرین سرخیل مقتدی و پیشوا تھے، جن کی مساعی نے ایک تاریخ بن کر اللہ رب العزت کے اس وعدہ غلبہ اسلام کو پیش کرکے دنیا کو دکھا دیا۔ وللہ الحمد حمدا کثیر ا “۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ کفر کی تمام طاغوتی طاقتیں اللہ کا نور نہ بجھا سکیں : (آیت) ” یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواھھم “۔ یہ مضمون سورة توبہ میں گزر چکا ہے، جو یہاں بھی قدرے تغیر کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی بعثت و رسالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا مسیحیت کا ابطال کرتے ہوئے یہاں یہ ظاہر کیا گیا کہ نصاری نے خصوصا اور دیگر مذاہب نے عموما حق تعالیٰ شانہ کی ذات وصفات میں جو لغو اور خلاف عقل عقائد اختیار کئے ہیں اور دین حق کی عداوت پر کمر بستہ ہیں ان کی ایسی بہیودہ باتوں سے قہر وغضب خداوندی جوش میں آگیا اور بارگاہ رب العزت سے یہ طے ہوچکا کہ ان فرقوں کو سرنگوں اور درہم برہم کردیا جائے گا اور اس کی صورت بارگاہ خداوندی اور ملاء غیب سے اس طرح تجویز ہوئی ہے کہ ایک رسول کو جو خاتم الانبیاء ہو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا جائے تاکہ وہ دین حق تمام ادیان پر غالب آنے کا ذریعہ بنے اور غلبہ کے معنی یہ ہیں کہ تمام ادیان کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے ان کے عقائد باطلہ اور ادہام کی جڑیں کھد جائیں اور ان کے حمایتی درہم برہم ہوجائیں اور کوئی شخص اس دین کی طرف (دلائل کی روشنی میں) دعوت دینے والا باقی نہ رہے اور ان ادیان کو جو دنیاوی اور مادی شوکت وعزت حاصل ہے اس کا خاتمہ ہوجائے۔ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت دنای دو عظیم طاقتوں میں مقسم تھی ایک کسری اور دوسری قیصر اور یہ دونوں بادشاہ دوسرے مذاہب پر غالب تھے اور یہ اپنے اپنے مذہب کے حامی اور عظیم داعی تھے ان کی حکومت وبادشاہت اپنے مذاہب کی ترویج و اشاعت کا باعث بنی ہوئی تھی۔ روم، فارس، جرمن، افریقہ، شام، مصر اور بعض بلاد مغرب وہبش قیصر کی موافقت میں نصرانیت پر تھے فارس، خراسان، توران، اور ترکستان وغیرہ کسری کی تبعیت میں مجوسیت کو اختیار کیے ہوئے تھے ان کے علاوہ باقی مذاہب جیسے مذہب یہود، ہنود، مشرکین اور صائبین کی ان دو مذہبوں کے مقابلہ میں کوئی قوت و شوکت نہ تھی بلکہ ان کے معتقد درہم برہم ہوچکے تھے۔ بارگاہ خداوندی سے جب مذاہب باطلہ کو مغلوب کرنے اور دین حق کو غالب کرنے کا ارادہ ہوا تو سرزمین حجاز میں ایک نبی پیدا فرمایا، کیونکہ سرزمین حجاز نہ تو کسری کے تصرف میں تھی اور نہ ہی قیصر کے تصرف میں، اس لیے حق تعالیٰ شانہ نے اس سرزمین کو دین حق کی بادشاہت کے لیے منتخب فرمایا تاکہ اس علاقہ سے ظاہر ہونیوالا دین کسی سابق بادشاہت اور مادی طاقت سے مغلوب ومرعوب نہ ہو۔ اور اسی سرزمین سے حق کی بادشاہت ہو کر دنیا کی دو عظیم طاقتوں قیصر و کسری کو نشانہ بنایا جائے اور جب یہ دو سلطنتیں پامال ہوجائیں گی دوسرے باطل مذاہب خود بخود پامال ہوجائیں گے۔ بعثت نبوی کا یہی مقصد تھا اللہ رب العزت نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے دین حق کی بنیادیں مضبوط کیں اور جزیرۂ عرب میں سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب نہ رہا قیصر ہدایت کی بنیادیں مضبوط اور مکمل ہوگئیں اور کچھ عمارت بھی بن گئی کہ اسی حالت میں حضور پر نور ﷺ کو ملاء اعلی اور رفیق اعلی سے لحوق واتصال کی دعوت آپہنچی اور اللہم الرفیق الاعلی فرماتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے تو پھر اس دین حق کے غلبہ کی تکمیل آپ کے جانشینوں کے ہاتھوں پر ہوئی تاکہ جوارادۂ الہیہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے ضمن میں لپٹا ہوا تھا وہ آپ کے خلفاء کے خلفاء کے ہاتھوں پر پورا ہو۔ سو الحمد للہ خلفائے راشدین کرام ؓ کے ہاتھوں قیصر و کسری کی سلطنتیں درہم برہم ہوئیں، اور عیسائیت و مجوسیت مغلوب ہو کر مقہور ہوئی، اور اس طرح دین حق ظاہر و غالب اور روشن ہوا۔ ؛ وللہ الحمد حمدا کثیرا۔ تم بحمد للہ تفسیر سورة الصف۔
Top