Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 7
وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَلَوْ نَزَّلْنَا : اور اگر ہم اتاریں عَلَيْكَ : تم پر كِتٰبًا : کچھ لکھا ہوا فِيْ : میں قِرْطَاسٍ : کاغذ فَلَمَسُوْهُ : پھر اسے چھو لیں بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے لَقَالَ : البتہ کہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ هٰذَآ : نہیں یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
اور اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب نازل کرتے اور یہ اسے اپنے ہاتھوں سے بھی ٹٹول لیتے تو جو کافر ہیں یہی کہہ دیتے کہ یہ تو (صاف اور) صریح جادو ہے۔
ازالہ شبہات منکرین نبوت۔ قال اللہ تعالی، ولونزلنا علیک کتابا فی قرطاس۔۔۔ الی۔۔۔ المکذبین۔ ربط) ۔ گذشتہ آیات میں اثبات صانع اور توحید کا بیان تھا اب ان آیات میں معاندین اور منکرین نبوت کے چند شبہات کا جواب دیتے ہیں کفار مکہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں اور نبی کی نبوت میں کبھی تو یہ شبہ کرتے کہ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب کیوں نہیں اتری اور کبھی یہ کہتے کہ فرشتہ اپنی اصلی شکل میں نمودار ہو کر ہمارے سامنے آکر آپ کی صدق کی گواہی کیوں نہیں دیتا اور کبھی یہ کہتے کہ نبی بشری اور انسانی صورت میں کیوں بھیجا گیا فرشتہ کو نبی بنا کر کیوں نہیں بھیجا گیا ان آیات میں اس قسم کے مزخرقات اور مہملات کا رد کیا گیا ہے۔ یا یوں کہو کہ گذشتہ آیات میں کافروں کے اعراض اور تکذیب کا بیان تھا کہ یہ کفار اللہ کی آیات قدرت سے اعراض کرتے ہیں اور انکی تکذیب کرتے ہیں اب ان آیات میں ان کے عناد اور تمسخر کو بیان کرتے ہیں کیونکہ حق سے اعراض اور بےتوجہی یہ کفر کا ادنی درجہ ہے اور حق کا انکار اور اس کی تکذیب یہ کفر کا دوسرا درجہ ہے اور دیدہ دانستہ حق سے انحراف اور اس سے نفرت اور اس سے تمسخر یہ کفر کا اعلی درجہ ہے اور ولقد استھزی برسل من قبلک۔ الخ۔ میں اللہ نے اپنی نبی کو تسلی کے لیے یہ بتلایا کہ یہ سب مسخر ان کی باتیں ہیں تم سے پہلے اور پیغمبروں سے ان کے زمانہ میں کافر ایسی ہی باتیں کرتے تھے جس کا نتیجہ ان کو بھگتنا پڑا اور سب کے سب تباہ اور برباد ہوئے ان کافروں کو چاہیے کہ ان کے آثار قدیمہ سے عبرت پکڑیں کہ ان تکذیب اور تمسخر کرنے والوں کے بڑے بڑے آباد شہروں کو ویران اور کھنڈر بنا دیا گیا چناچہ فرماتے ہیں اور یہ لوگ اس درجہ معاند اور ضدی ہیں کہ اے نبی اگر ہم آپ پر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی کتاب آسمان سے نازل کریں اور یہ اس کتاب کو آسمان سے اترتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں پھر اس کو اپنے ہاتھوں سے بھی چھو لیں اور یہ محسوس کرلیں کہ کوئی تحلیل اور نظر بندی نہیں تب بھی یہی کہیں گے یہ صریح جادو ہے یہ ضد اور عناد کی انتہاء ہے کہ آنکھ سے مشاہدہ اور ہاتھ سے چھولینے کے بعد بھی کسی چیز کو جادو بتلائے ایسے ضدی اور عنادی کو جو محسوسات اور ملموسات میں بھی مکابرہ کرتا ہو اسے کبھی ہدایت نہیں ہوسکتی اور نہ اس کا شبہ کبھی مٹ سکتا ہے۔ حق جل شانہ نے متعدد مواضع میں محسوسات میں ان کے مکابرہ کا ذکر کیا ہے کماقال تعالی، ولوفتحنا علیھم بابا من السماء۔۔۔ مسحورون۔ وقال تعالی، وان یروکسفا من السماء۔۔۔ الی۔۔ مرکوم۔ آیت۔ نضر بن حارث اور عبداللہ بن ابی امیہ اور نوفل بن خویلد نے نبی ﷺ سے یہ کہا کہ اے محمد اگر تو اللہ کے پاس سے کاغذ میں لکھی ہوئی ایک کتاب ہمارے پاس لائے اور اس کے ساتھ چار فرشتے ہوں جو اس کے من جانب اللہ ہونے کی اور تیری نبوت کی شہادت دین تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے بغیر اس کے ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی مطلب یہ ہے کہ ان کا یہ سوال محض عناد کی بناء پر ہے اگر ہم ان کے کہنے کے مطابق آسمان سے کاغذ میں لکھی ہوئی کتاب بھی اتاردیں اور یہ لوگ اس کتاب کو اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیں تب بھی ایمان نہ لائیں گے اور یہ کہیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے اور یہ معاندین یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ پر کوئی ایسا فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا جو ہمارے روبرو ہوکر آپ کی صداقت کی شہادت دے مطلب یہ تھا کہ جو فرشتے آپ پر اترتے ہیں وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے اور ہمارے پاس آکر آپ کی نبوت کی تصدیق کیوں نہیں کرتے تاکہ ہم ان کو دیکھ کر اور انکی باتیں سن کر یقین کرلیتے جیسا کہ دوسری آیتوں میں ہے اوتاتی بااللہ والملائکۃ۔ اور لولا انزل علیہ ملک فیکون معہ نذیرا۔ اور لولا انزل علینا الملائکۃ۔ آیت۔ اللہ ان کے جواب میں فرماتے ہیں اور اگر ہم ان کی فرمائش کے مطابق اسی طرح کوئی فرشتہ اتارتے تو بات فیصل ہوجاتی یعنی فرشتہ کے آنے اور دیکھنے کے بعد بھی اگر تکذیب کرتے تو سب ایک ہی دفعہ میں ہلاک کردیے جاتے پھر انکو ایک پل کی بھی مہلت نہ دی جاتی کیونکہ سنت اللہ یہ ہے کہ فرمائشی معجزہ دیے جانے کے بعد مہلت نہیں دی جاتی ان کے دیکھتے ہی عالم آخرت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرجاتا ہے کماقال تعالی، یوم یرون الملائکۃ لابشری۔۔۔ الی۔۔ محجورا۔ آیت۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر ان کی یہ فرمائش پوری کردی جاتی تو یہ ضدی اور عنادی پھر بھی ایمان نہ لاتے اور تکذیب کرتے تو یک لخت سب ہلاک کردیے جاتے اور اللہ فی الحال ان کو ہلاک کرنا نہیں چاہتے اس لحاظ سے ان کی فرمائشوں کو پورا نہ کرنا بھی عین رحمت سمجھنا چاہیے کہ توبہ کے لیے وقت مل گیا اور اگر ہم کسی فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتے تو البتہ کسی مرد ہی کی صورت میں بھیجتے تاکہ اس کی بات چیت سن سکیں اور اس سے نفع حاصل کرسکیں کیونکہ فرشتہ اگر اپنی اصلی صورت میں آتا تو بسبب کمال نورانیت اور کمال جلال و جمال یہ لوگ اس کے دیکھنے کی تاب نہ لاسکتے اس کے رعب اور ہیبت سے ان کا دم نکل جاتا یہ صرف حضرات انبیاء کرام کا ظرہے کہ اصلی صورت میں رویت کا تحمل کرسکتے ہیں عام لوگ تو ایک منٹ کے لیے بھی فرشتے کا اصلی صورت میں رویت کا تحمل نہیں کرسکتے لامحالہ اگر فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتے تو آدمی ہی کی صورت میں بھیجتے تاکہ مجانس صوری کی بناء پر لوگ اس کی تعلیم وتلقین سے منتفع ہوسکیں اور اس صورت میں ہم ان کو اسی اشتباہ میں ڈال دیتے جس اشتباہ میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں یعنی اس فرشتہ کو بشکل بشر دیکھ کر بھی کہتے کہ یہ تو آدمی ہے جس طرح نبی کی رسالت کا انکار اس بنائ پر کرتے ہیں کہ آپ بشر ہیں اسی طرح اگر فرشتہ کو بشکل بشر رسول بنا کر بھیجتے تو تب بھی یہی اعتراض کرتے اور وہی اشتباہ بحالہ باقی رہتا۔ تسلیہ نبی اکرم ﷺ یہاں تک کفار کے عناد اور اعراض اور تکذیب اور استہزاء کا ذکر کیا جس سے نبی ﷺ کو تکلیف ہوئی تھی اس لیے اب آئندہ آیت میں آپ کی تسلی کا مضمون بیان فرماتے ہیں اور اے نبی آپ ان کے استہزاء سے رنجیدہ اور ملول نہ ہوں البتہ تحقیق آپ سے پہلے بہت سے پیغمبروں کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کیا گیا پس آگھیرا ان ہنسی کرنے والوں کو اس عذاب نے جس پر وہ ہنسا کرتے تھے اور اگر اس قہر اور عذاب کا انکار کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ ذراملک میں پھر و پھر دیکھو کہ پیغمبروں کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا کہ سب تباہ اور برباد ہوئے یہی حشر ان کافروں کا ہوگا جو آپ کی ہنسی اڑاتے ہیں۔
Top