Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے
نوع دیگر از دلائل کمال قدرت و کمال حکمت قال اللہ تعالی، وھوالقاہر فوق عبادہ۔۔۔ الی۔۔۔ یکفرون۔ گذشتہ آیات کی طرح ان آیات میں دوسرے طرح سے اپنی کمال قدرت اور کمال حکمت کے دلائل اور حساب و کتاب اور حشر ونشر کا حق ہونا بیان فرماتے ہیں اور وہی اللہ قاہر اور غالب ہے اپنے بندوں پر یعنی خدا سب پر غالب اور زبردست ہے اور تمام بندے اس کی قدرت اور مشیت کے نیچے مقہور اور مجبور ہیں اور وہ رفعت شان بلندی رتبہ میں سب سے بالا اور برتر ہے امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں فوقیت سے باعتبار مکان اور جہت کے فوقیت مراد نہیں کیونکہ اللہ مکان اور جہت سے پاک اور منزہ ہے بلکہ قہر اور غلبہ اور قدرت کے اعتبار سے فوقیت مراد ہے۔ (تفسیر کبیر س 59 ج 4) ۔ اور اس کے قہر اور غلبہ اور فوقیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ تم پر نگہبان فرشمتے بھیجتا ہے کہ جو تمام زندگی تمہارے اعمال کو لکھتے ہیں اور تمہاری جان کی حفاظت اور نگہبانی کرتے ہیں پس اس طرح تمام عمر تم اس قاہر غالب کی نگرانی میں رہتے ہو یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ فرشتے قبض روح میں کوتاہی نہیں کرتے یعنی جس کام پر وہ متعین ہیں اس کو بخوبی انجام دیتے ہیں جس وقت اور جس طرح قبض روح کا حکم ہوتا ہے اسی طرح اس کو بجالاتے ہیں قبض روح میں فرشتے رشوت نہیں لیتے پھر مرنے کے بعد یہ سب جدے اپنے مولائے برحق کی طرف لوٹا دیے جائیں گے تحقیق سن رکھو حکم اسی کا ہے اس کے سوا کسی اور کا حکم اور فیصلہ نہیں چلتا اور وہ سب حساب لینے والوں سے جلد حساب لینے والا ہے طرفۃ العین میں تمام مخلوقات کا حساب لے لے گا اور ایک لحظہ میں ساری عمر کی بھلائی اور برائی واضح کردے گا باوجود بیشمار مخلوقات کے ایک کا حساب دوسرے کے حساب سے مانع نہ ہوگا جس طرح وہ تمام عالم کو بلاغلطی کے بیک وقت رزق دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ قیامت کے دن تمام عالم کا بیک وقت حساب کرنے پر بھی قادر ہوگا اور یہ اس کے کمال قدرت اور کمال قہر کی دلیل ہے۔ ف) ۔ جاننا چاہیے کہ فرشتے تین قسم کے ہیں ایک قسم تو وہ ہے کہ جو انسان کی مضرتوں سے حفاظت کے لیے مقرر کیے گئے کماقال تعالیٰ لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ یحفوظہ من امر اللہ۔ آیت۔ دوسری قسم وہ ہے کہ وہ فرشتے انسان کے اعمال کی حفاظت اور کتابت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں کماقال تعالیٰ وان علیکم لحافظین، کراما کاتبین، وقال تعالی، اذ یتلقی المتلقیان۔۔۔ الی۔۔۔ قعید۔ تیسری قسم وہ فرشتے ہیں کہ جو انسان کی جان نکالنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں اور اس قسم کے فرشتوں کے سردار حضرت عزرائیل ہیں اس لیے آیات میں توفی اور موت کی اسنادک بھی ملک الموت کی طرف ہوتی ہے اور کبھی دیگر ملائکہ کی طرف ہوتی ہے جو ملک الموت کے اعوان اور مددگار ہیں اور کبھی باری تعالیٰ کی طرف اسناد ہوتی ہے کہ اصل حکم اللہ ہی کا ہے بغیر اس کے حکم کے کسی کو موت نہیں آتی آپ ان لوگوں سے جو اللہ کی حفاظت اور نگرانی اور قہر کے منکر ہیں یہ کہیے کہ بتلاؤ کہ کون ہے وہ ذات جو تم کو جنگل اور سمندر کی تاریکیوں یعنی پریشانیوں اور حیرانیوں سے اس حالت میں نجات دیتا ہے تم اس کو گڑگڑاتے اور آہستہ پکارتے ہو یعنی ایسے وقت میں تم صرف اللہ ہی کو پکارتے ہو اور بتوں کو بھول جاتے ہیں تو پھر بےفائدہ ان کو کیوں پوجتے ہو اور اس وقت تم خدا سے یہ وعدہ کرتے ہو کہ اے اللہ اگر تو نے ہم کو ان مصیبتوں کے تاریکیوں سے نکال دیا تو ہم ضرور بالضرور تیرے شکرگزاروں میں سے ہوجائیں گے آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تم کو ان تاریکیوں سے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرنے لگتے ہو یعنی نجات پانے کے بعد اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتے اور مصیبت سے رہائی کے بعد بدستور اسی کفر وشرک کی طرف لوٹ جاتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ تم خدا کے اس مہلت دینے سے بےفکر نہ ہوجاؤ جس طرح وہ شدتوں اور مصیبتوں سے نجات دے سکتا ہے اس طرح وہ تم کو پہلے کی طرح دوبارہ بھی مبتلا کرسکتا ہے کیونکہ وہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ اوپر کی جانب سے یعنی آسمان کی جانب سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے جیسے پتھر برسانا ہوا اور بارش کا طوفان آجانا یہ تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے جیسے زلزلہ اور خسف اور غرق مانند فرعون اور قارون کے یا تم کو کسی داخلی اور اندرونی عذاب میں مبتلا کردے وہ یہ کہ تم کو گروہ گروہ بناکرآپس میں بھڑا دے اور ایک دوسرے کی لڑائی مزہ چکھا دے یعنی باہمی خود غرضیوں کو وجہ سے اللہ تعالیٰ تم کو باہمی جنگ وجدال اور پارئی بندی کے عذاب میں مبتلا کردے اس امت کو پہلی قسم کے عذابوں سے محفوظ کردیا گیا یعنی اس امت پر اس قسم کا کوئی عذاب نازل نہ ہوگا جیسا کہ پہلی امتوں پر نازل ہوا البتہ یہ امت تیسری قسم کے عذاب میں مبتلا ہوگی جیسے اندرونی اور داخلی عذاب کہنا چاہیے وہ باہمی پارٹی بندی اور آپس کی جنگ وجدال کا عذاب ہے جب خود غرضی آتی ہے تو پھوٹ پڑجاتی ہے اور آپس کا اختلاف مبدل باختلاف ہوجاتا ہے جو داخلی عذاب ہے اے نبی آپ دیکھیے تو سہی کہ ہم کس طرح بار بار اپنی نشانیوں اور دلیلوں کو بیان کرتے ہیں شایدیہ لوگ سمجھ جائیں اور حق کی طرف رجوع کریں لیکن یہ ایسے نادان ہیں کہ کس طرح ان کو سمجھ میں نہیں آتا بلکہ آپ کی قوم نے تو اس قرآن کو جھٹلایا حالانکہ وہ بالکل برحق ہے اس کے حق اور کلام الٰہی ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں یا یہ معنی ہیں کہ آپ کی قوم نے آنے والے عذاب کو جھٹلایا اور یہ کہا کہ یہ سب جھوٹی دھمکیاں ہیں عذاب وغیرہ کچھ نہیں آئے گا حالانکہ اس عذاب کا آنا جس کی خبر دی گئی ہے وہ حق اور صدق ہے وہ عذاب اپنے وقت پر ضرور آئے گا آپ کہہ دیجئے کہ حق تو واضح ہوچکا ہے تم پر نگہبان اور داروغہ نہیں ہوں یعنی حق کا منوانا اور نہ ماننے والوں پر عذاب کا نازل کرنا میرے اختیار میں نہیں میں تو صرف اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں حق کا دل میں اتارنا یا نہ ماننے پر سزا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے ہر خبر کا ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تم اس خبر کی صداقت کو جان لوگے جب وہ خبر تمہارے سامنے آئے گی اس وقت تمہیں اس خبر کی سچائی معلوم ہوجائے گی اور خود جان لوگے جس عذاب سے تم کو قرآن میں ڈرایا گیا تھا وہ کہ ان تک حق اور صدق تھا۔ اور اے نبی جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیتوں میں بکواس کرتے ہیں یعنی ان کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں اور ان میں عیب نکالتے ہی تو آپ ایسے لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیے یہاں تک کہ وہ اس طعن و استہزاء کو چھوڑ کر دوسری بات میں لگ جائیں مشرکین عرب اپنی مجالس میں بیٹھ کر قرآن کا استہزاء کیا کرتے تھے اللہ نے فرمایا کہ ایسے وقت میں ان سے کنارہ کرو اور ا کے پاس نہ بیٹھا کرو تاکہ تم ان کے زمرہ میں داخل ہو کر ان کی طرح مستحق عذاب نہ بن جاؤ کماقال تعالی، وقد نزل علیکم فی الکتاب۔۔۔۔ الی۔۔۔ اذامثلھم۔ اس آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے مگر مراد سب مسلمان ہیں کیونکہ سب مسلمان نبی کے تابع ہیں اور اگر شیطان تجھ کو بھلا دے یعنی اس مجلس میں بیٹھنے کی ممانعت تجھے یاد نہ رہے اور بھولے سے ان کی مجلس میں بیٹھ جائے تو یاد آنے کے بعد ان ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھیے یعنی اگر بھولے سے بیٹھ گیا تو یاد آنے کے بعد فورا اٹھ کھڑا ہو اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور آیات اللہ پر طعن اور استہزاء اور نکتہ چینی کو برا جانتے ہیں اور ایسی مجالس میں شریک سے حتی الوسع بچتے ہیں تو ایسے لوگوں پر ان مشرکین کے طعن اور استہزاء کے حساب میں سے کوئی مواخذہ اور داروگیر نہیں ٰیعنی مسلمانوں سے ان کے اعمال قبیحہ کا کوئی مواخذہ نہیں وہ جانیں اور ان کا کام لیکن مسلمانوں کے ذمہ بشرط قدرت اور بقدرضرورت نصیحت کرنا اور ان کو سمجھانافرض ہے شاید وہ تمہاری نصیحت کرنے سے ان باتوں سے باز آجائیں اور عجب نہیں کہ تمہارا ان کی مجلس سے اٹھ کھڑا ہونا اور ان کے اس فعل قبیح پر اپنی ناگواری کا اظہار کس وقت ان کی ہدایت کا سبب بن جائے اور وہ اس ناشائستہ حرکت پر نادم ہو کر تائب ہوجائیں۔ ان آیات میں اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کی خاص اس مجلس سے کنارہ کشی کا حکم دیا جہاں آیات اللہ پر طعن اور استہزاء کیا جاتا ہو اب آئندہ آیت میں ایسے لوگوں کی عالم مجالست اور مصاحبت میں مجلس استہزاء اور تکذیب کی تخصیص نہیں بلکہ غیرت ایمانی کا تقاضایہ ہے کہ ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنالیا اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا اور دنیا کے نشہ میں مست ہو کر یہ سمجھ بیٹھے کہ جو کچھ ہے وہ یہی دنیا ہے ایسے لوگوں کو چھوڑو اور ان سے قطع تعلق کردو جسے اپنے انجام اور مرنے کے بعد کی فکر نہ ہو وہ بےعقلی ہے اور اس قرآن کے ذریعہ ان کو آخرت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیے تاکہ کوئی نفس اپنی بداعمالی کی وجہ سے گرفتار مصیبت نہ ہوجائے یعنی نصیحت سے فائدہ یہ ہے کہ شاید یہ لوگ اپنے برے اعمال کو ترک کردیں اور دوزخ میں جانے سے بچ جائیں اس لیے کہ قیامت کے دن اس نفس کے لیے سوائے اللہ کے کوئی مددگار نہیں اور نہ کوئی سفارشی ہے اور اگر کوئی نفس اس دن اپنی خلاصی کے لیے ہر قسم کا بدلہ بھی دیوے تو وہ اس سے قبول نہ کیا جائے گا غرض یہ کہ کسی صورت میں پیچھا نہیں چھوٹے گا کیونکہ یہی لوگ جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے گرفتار عذاب ہوئے ہیں اپنے برے اعمال کی بناء پر ان کے پینے کو سخت کھولتا ہوا پانی ہے اور دردناک عذاب ہے اس لیے کہ وہ کفر کرتے تھے اور آخرت کے اور اس کے عذاب کے منکر تھے۔
Top