Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اور ان لوگوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھیرایا حالانکہ ان کو اسی نے پیدا کیا اور بےسمجھے (جھوٹ بہتان) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا کھڑی کیں وہ ان باتوں سے جو اس کے نسبت بیان کرتے ہے پاک ہے۔ اور (اسکی شان ان سے) بلند ہے۔
ابطال شرک وتشنیع اہل شرک قال اللہ تعالیٰ وجعلوا للہ شرکاء الجن۔۔۔ الی۔۔۔ سبحانہ وتعالی عما یصفون امام رازی فرماتے ہیں کہ گذشتہ آیات میں حق تعالیٰ جل شانہ نے توحید اور الوہیت اور کمال قدرت کی پانچ دلیلیں ذکر فرمائیں اب آئندہ آیات میں ان لوگوں کی تردید اور تہدید فرماتے ہیں جنہوں نے خدا کے لیے شریک اور سہیم ٹھہرائے اور خدا کے شریک ٹھہرانے والے تین گروہ ہیں ایک گروہ بت پرستوں کا ہے جن کا شروع سورت سے لے کر برابر رد ہوتا چلا آیا اور دوسرا گروہ کواکب پرستوں کا ہے جن کا حضرت ابراہیم کے قصہ میں رد ہوچکا ہے اور مشرکین کا تیسرا گروہ مجوس کا ہے جو عالم کے لیے دو خدا کے قائل ہیں ایک خیر کا خالق اور ایک شر کا خالق اب اس پہلی آیت یعنی وجعلوا للہ شرکاء الجن وخلقہم میں مشرکین کے تیسرے گروہ یعنی مجوس کا رد ہے۔ جیسا کہ ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ یہ آیت مجوس کے رد میں نازل ہوئی امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت درا صل مجوس کے بارے میں ہے اور مقصود ان بیوقوفوں پر تشنیع کرنا ہے جو اس عالم کے لیے دو خٰدا مانتے ہیں (تفسیر کبیر ص 111 ج 2 و ص 112) اور بعض علماء تفسیر یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین عرب کے رد میں ہے اور چونکہ کفر اور شرک کا ارتکاب اغواء شیطانی سے ہوتا ہے اس لیے ان کے اغواء اور اضلال سے غیر اللہ کی عبادت کرنا گویا کہ شیاطین ہی کی عبادت کرنا ہے جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بت پرستی کا رد کرتے ہوئے فرمایا یا ابت لا تعبدالشیطان اور دوسری جگہ ارشاد ہے الم اعہد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انہ لکم عدو مبین وقال تعالیٰ ان ان یدعون من دونہ الا اناثا وان یدعون الا شیطانا مریدا العنہ اللہ۔ امام رازی کے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں راجح قول یہی ہے کہ یہ آیت مجوس کے بارے میں نازل ہوئی اور اس کو شاہ عبدالقادر (رح) نے موضح القرآن میں اختیار فرمایا۔ اب آیت کی تفسیر سنئے اور ان مشرکوں میں سے بعضوں نے جنوں کو اللہ کا شریک اور سہیم ٹھہرا لیا ہے حالانکہ خود ان لوگوں کے اقرار کے موافق بھی اللہ ہی نے ان جنوں اور ان شریک ٹھہرانے والوں کو پیدا کیا ہے سب اس کی مخلوق ہیں جیسا کہ خود ان کو بھی اقرار ہے کہ جنات اور شیاطین سب اللہ ہی کی مخلوق ہیں پس کس قدر ظلم ہے کہ مخلوق کو خالق کا شریک ٹھہراتے ہیں آیت میں جن سے مراد شیاطین ہیں اور یہ آیت مجوس کے متعلق ہے جن کا اعتقاد یہ تھا کہ نور کا خالق خدا ہے اور ظلمت کا خالق شیطان ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں مجوسیوں نے کہا تھا کہ شیطان خدا کا شریک ہے نیکی کو خدا پیدا کرتا ہے اور اس کو یزدان کہتے تھے اور بدی کو شیطان پیدا کرتا ہے اور اس کو اھرمن کہتے تھے (موضح القرآن) اور یزدان کی فوج کو ملائکہ یعنی فرشتے اور اھرمن (یعنی ابلیس) کی فوج کو جن اور شیاطین کہتے تھے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس آیت میں مجوس کا مذہب نقل کیا اب آئندہ آیت میں ان لوگوں کا مذہب نقل کرتے ہیں جو خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیاں ثابت کرتے ہیں اور پھر اس کا رد فرماتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں اور بعض مشرکین نے بغیر علم کے محض جہالت سے خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تراشی ہیں۔ نصاری کہتے ہیں کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے اور بعض یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور مشرکین عرب یہ کہتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں حق تعالیٰ نے اس آیت میں ان تینوں کی تردید کی اور بتلا دیا کہ یہ ان لوگوں کا خدا پر بہتان ہے جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اولاد اپنے باپ کا جزء ہوتی ہے اور اس کے مشابہ ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ تجزیہ اور مشابہت سے پاک اور منزہ ہے اور وہ ان تمام باتوں سے بلند اور برتر ہے کہ جو یہ لوگ خدا کی نسبت بیان کرے ہیں وہ خداوند قدوس تو بےچون وچگون ہے لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر اور وہ چیزیں جن کو ان لوگوں نے خدا کا شریک اور سہیم ٹھہرایا ہے وہ چونی اور چندی میں گرفتار ہیں وہ معبود کیسے ہوسکتی ہیں عبادت کی مستحق تو وہ ذات با برکات ہے جس کے صفات اور کمالات کا اوپر ذکر ہوا۔
Top