Maarif-ul-Quran - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
مجھے تاروں کی منزلوں کی قسم
حقانیت قرآن کریم و اثبات وقوع یوم عظیم : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” فلااقسم بمواقع النجوم ....... الی ...... فسبح باسم رب العظیم “۔ (ربط) اس سے قبل حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت وخالقیت کے عظیم دلائل و شواہد ذکر فرماتے اور ان انعامات عظیمہ کو ظاہر فرمایا جو اس نے دنیا کی انسانوں پر فائض فرماتے اور ان عظیم نعمتوں کو انکی زندگی کا مدار بنایا اب اس کے بعد قرآن کریم کی حقانیت بیان کرتے ہوتے یہ ذکر فرمایا کہ روز ان عظیم نعمتوں کو انکی زندگی کا مداربنایا اب اسکے بعد کریم کی حقانیت بیان کرتے ہوتے یہ ذکر فرمایا کہ روز قیامت کیسا عظیم دن ہے اور قیامت کے احوال کیسے ہولناک ہوں گے اور یہ کہ قیامت کے روز کس طرح جزاء وسزا سے انسانوں کی قسمیں اور طبقات نظر آتے ہوں گے اور کون اپنی سعادت سے کامیابی حاصل کریں گے اور کون وہ بدنصیب ہوں گے جنکے حصہ میں محرومی اور عتاب خداوندی آئے گا ارشاد فرمایا۔ پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے چھپنے کی اور بیشک یہ بہت ہی بڑی قسم ہے اگر تم سمجھو کہ ستاروں کا نظام رفتار کیسا عجیب اور محکم ہے اور انکا طلوع و غروب بغیر کسی خلل اور فرق کے جاری ہے تو ایسی مخلوق کی عظمت اور اس کے محیرالعقول نظام محکم کو کائنات کے سامنے رکھتے ہوئے قسم کھاتا ہوں کہ یقیناً یہ کتاب جو محمد رسول اللہ ﷺ پر اتاری گئی قرآن کریم ہے جو بڑی ہی قدرومنزلت والی کتاب ہے جس کی عزت و کرامت کی کوئی انتہاء نہیں جو ایک چھپی ہوئی کتاب لوح محفوظ میں پہلے ہی سے محفوظ وموجود ہے کیونکہ یہ اللہ کا کلام قدیم ہے جو ہمیشہ ہی سے لوح محفوظ میں محفوظ ومستوررہا اور ازل ہی سے یہ طے کردیا گیا تھا کہ یہ قرآن کریم صرف نبی آخرالزمان محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا جائیگا اس کو صرف وہی چھوتے ہیں جو پاک بنائے۔ 1 حاشیہ (حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ مطہرون سے مراد فرشتے ہیں کہ اس لوح کو سوائے فرشتوں کے اور کوئی چھو بھی نہیں سکتا اس سے یہ ظاہر فرمانا مقصود ہے کہ لوح محفوظ تک جب کسی کی رسائی ممکن نہیں تو بلاشبہ یہ کلام الہی لوح محفوظ سے بحفاظت تامہ نازل ہوا اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں یا ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع ہے اور مراد یہی ہے کہ لوح محفوظ سے قرآن کو لانے میں فرشتوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا اور چھونا ہاتھ سے بھی ہوتا ہے تو بغیر وضو اور طہارت کے قرآن کریم کے چھونے کی حرمت ثابت ہوگئی اور چھونا بمعنی تعلق اور مناسبت کا حاصل کرنا بھی ہے تو یہ معنی مفہوم ہونگے کہ قرآن کریم کے علوم اور حقائق سے صرف انہی لوگوں کو تعلق اور مناسبت ہوسکتی ہے جو اپنے اپنے اخلاق سے پاک باز ہیں، اور جن کے قلب نفاق وسوء خلق کی گندگی سے آلودہ ہیں ان کو علوم قرآنیہ سے کوئی تعلق ومناسبت نہیں ہوسکتی۔ امام مالک (رح) نے موطأ میں باسناد عبداللہ بن ابی بکر بن محمد عمرو بن حزم سے یہ روایت بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو فرمان لکھوا کر ان کے نام بھیجا تھا اس میں یہ تھا ان لا لیس القران الاطاھر اس وجہ سے فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بغیر وضو قرآن کریم چھونا ممنوع ہے اور اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا اور اسی حکمت کے پیش نظر وہ بات ہے جو حدیث عبداللہ بن عمر ؓ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ قرآن کریم دشمن کی سرزمین میں لے کر سفر کیا جائے اسی اندیشہ کے باعث کہ وہ مصحف قرآن کی توہین وبے حرمتی نہ کریں اور بغیر پاکی ممکن ہے قرآن کریم کو ہاتھ لگائیں، حضرت عمرفاروق ؓ کے اسلام لانے کے واقعہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے پایا تو بہن نے وہ اوراق چھپالئے اور عمرفاروق ؓ نے جب کہا کہ دکھاؤ مجھے تم کیا پڑھ رہے ہو تو کہا تم مشرک ہو اور نجس آدمی قرآن کو نہیں چھو سکتا ان کو پہلے غسل کے لیے کہا پھر ان کے ہاتھ میں وہ اوراق دیئے، 12) اتارا ہوا ہے یہ کلام پروردگار عالم کی طرف سے اور جو کلام رب العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہو بلاشبہ وہ متکلم کی عظمتوں، اس کے کمالات اور حکمتوں کا مظہرا تم ہوگا جو حکمتیں اور عظمتیں اس کی مخلوقات سے ظاہر ہیں بلاشبہ وہی عظمتیں اس کے کلام میں بھی جلوہ گر ہونگی اور جیسے اس کی کائنات میں کسی بھی جگہ کوئی نقص اور عیب نہیں اس طرح اس کے کلام میں بھی کسی عیب اور نقص کا گذر نہیں ہوسکتا ایسے کلام پرتو کسی بھی صاحب عقل کو ہرگز کوئی تامل نہ کرنا چاہئے لیکن افسوس ایسا نہیں تو کیا اب بھی اس بات میں اس کے ماننے میں تم سستی کررہے ہو اور تم نے اپنی روزی یہی بنالی ہے کہ تم اس کو جھٹلاتے ہو۔ 2 حاشیہ 2 (آیت ) ” وتجعلون رزقکم “۔ کی تفسیر میں ابن جریر (رح) نے ہیثم بن عدی ؓ کی سند سے یہ بیان کیا ہے کہ بعض قبائل عرب مثلا از وشنوۃ میں لفظ رزق بمعنی شکر بولا جاتا تھا کہا جاتا تھا مارزق فلاں یعنی وہ شخص شکر سے محروم رہا امام احمد بن حنبل (رح) نے مرفوعا یہ معنی ذکرکئے ہیں شکر کم انکم تکذبون کہ تم نے اپنا شکر بس یہی بنایا ہے کہ تکذیب کرتے ہو یہ کہہ کر کہ فلاں فلاں ستارہ کے طلوع و غروب کی وجہ سے بارش برسی زید بن خالد الجہنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک روز مقام حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی جبکہ رات میں بارش برسی تھی آپ ﷺ نے سلام پھیر کر لوگوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے صبح کی ہے اس طرح کہ کچھ مجھ پر ایمان لانے والے ہیں اور کچھ میرا کفر کرنے والے ہیں جس نے یہ کہا کہ ہمیں بارش برسی ہے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور جس نے یہ کہا کہ فلاں فلاں ستارہ کی وجہ سے بارش برسی تو وہ میرا کفر کررہا ہے اور کو کب (ستارہ) پر ایمان لارہا ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم ) کبھی کہتے ہو کہ جادو ہے کبھی کہتے ہو کہ کہانت ہے یا شاعر کا کلام ہے اگر تم اللہ تعالیٰ کی باتوں کو جھٹلاتے ہو تو پھر کیوں نہیں تم ایسا کرتے کہ جس وقت جان حلقوم تک پہنچ جائے اور سکرات موت واقع ہونے لگیں اور اس وقت تم دیکھ رہے کہ کس قدر قریب ہیں تو اگر اے منکرو، تم خدا کی باتوں کو جھٹلاتے ہو اور تم کسی کے قابو میں نہیں ہو تو کیوں نہیں تم اس روح کو پھیر لیتے اگر تم سچے ہو کہ موت وحیات کا مالک اللہ نہیں اگر تمہارا یہ گمان درست ہے تو پھر تم کو چاہئے کہ یہ روح جو بدن سے پرواز کر وہی ہے اس کو واپس بدن کی طرف لوٹا دو اور یہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت جان نکلنے کے بعد روح کو دوبارہ نہیں لوٹا سکتی تو جس طرح یہ روح اور جان خدا کے قبضہ میں ہے اسی طرح ہر انسان کی جزاء وسزا بھی اسی کے قبضہ میں ہے اور اسکو کوئی لوٹانے پر قادر نہیں چناچہ یہ ہو کررہیگا اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ضرورملیگا پس اگر وہ مقرب لوگوں میں سے ہے تو اس کے واسطے راحت ہے اور روزی ہے یا ہوا کے جھونکے اور خوشبوئیں اور نعمتوں کے باغات اور اگر وہ داہنے والوں میں سے ہے تو پھر سلامتی ہے تیرے واسطے داہنے والوں سے اور اگر وہ ہے جھٹلانے والوں گمراہوں سے تو پھر مہمانی ہے کھولئے ہوئے پانی کی اور جن ہم کی دہکتی آگ میں جھونکے جانے کی سے کھولتے ہوئے پانی سے مہمانی کا آغاز ہوگا اور ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں اسکو جھونک دیا جائے گا۔ بیشک یہ بات پختہ یقین کی ہے جو اللہ رب العزت کی قدرت و عظمت اور اس کی شان ربوبیت سے بلاشبہ واضح اور ثابت ہے تو اس پر اسے مخاطب یقین کر اور اس کی عظمت وکبریائی پر ایمان لاتے ہوتے پس اپنے رب عظیم کے نام کی پاکی بیان کرتا رہ مکذبین کی تکذیب اور ان کے جھٹلانے کی نہ کوئی پرواہ کرنی چائیے اور نہ اس سے دل پر رنج وغم کا اثر لینا چاہئے بلکہ تسبیح وتحمید میں مصروف رہنا ہی مومن کا کام ہے منکرین کی دل آزار بےہودگیاں انھی پر وبال جان بن کر ظاہر ہوں گی۔ حاشیہ (حضرات عارفین فرماتے ہیں تقویت قلب اور اطمینان باطن کے لئے سبحان اللہ والحمد للہ جیسے کلمات اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں تسبیح وحمد سے قلب کو وہ قوت حاصل ہوتی ہے کہ انسان بڑے سے بڑے صدموں اور تکالیف کو برداشت کرلیتا ہے، حدیث شریف میں ہے۔ کلمتان خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان حبیبتان الی الرحمن سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم امام بخاری (رح) نے اسی حدیث پر اپنی کتاب کو ختم فرمایا۔ ) تسبیح وتحمید کی برکت سے قلب اوہام اور وساوس سے بھی پاک رہتا ہے اور انابت الی اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوتا ہے۔ موت کے وقت انسانوں کے طبقات : (آیت) ” فلولااذا بلغت الحلقوم “۔ میں سکرات موت اور نزع روح کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ اسی وقت حق تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے طبقات متعین کردیئے جاتے ہیں اور جس طبقہ کا وہ مرنے والا انسان ہوتا ہے اس کے ساتھ وہی معاملہ ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ملائکہ رحمت اہل ایمان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو ملائکہ کہتے ہیں ایتھا الروح الطیبۃ فی الجسد الطیب کنت تعمرینہ اخرجی الی روح وریحان ورب غیر غضبان “۔ یعنی اے پاکیزہ روح جو پاکیزہ بدن کی تعمیر اور نشوونما کررہی تھی نکل راحتوں اور نعمتوں کی طرف اور ایسے رب کی طرف جو راضی اور خوش ہے اسکے بالمقابل منکر وفاجر کو کہا جاتا ہے، اے روح نکل خدا کے غضب اور عذاب کی طرف اور جہنم کی اذیتوں اور مصیبتوں کی طرف اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ میت کے دفن کے وقت بار بار یہ آیت تلاوت فرماتے (آیت ) ” یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ “۔ اور لوگوں سے فرمایا کرتے اے لوگو ! دعا کرو اللہ تعالیٰ اس کو ثابت قدم رکھے قول ثابت اور کلمہ ایمان کے ساتھ تو اس آیت میں تین طبقات کا بیان اس طرح فرمایا گیا (1) (آیت) ” فاماان کان من المقربین “۔ (2) (آیت) ” واما ان کان من اصحاب الیمین “۔ (3) (آیت) ” واما ان کان من المکذبین الضآلین “۔ کہ یا تو وہ شخص مقربین میں سے ہوگا مقربین کاملین کا گروہ وہ ہوا جن کے انعامات اور ان پر رحمتوں کی کوئی حد و انتہاء نہ ہوگی دوسرا گروہ اصحاب الیمین یعنی عام اہل ایمان کا ہوگا ان پر بھی رحمتوں کی کوئی حد وانتہانہ ہوگی دوسرا گروہ اصحاب الیمین یعنی عام اہل ایمان کا ہوگا ان پر بھی انعامات ہوں گے لیکن انکار درجہ مقربین سے بہرحال کم ہوگا۔ تیسرا طبقہ مکذبین ومنکرین کا ہوگا جن کے اوپر مرتے ہی عذاب کی سختیاں شروع ہوجائیں گی اہل ایمان کے لیے بشارت کا پیغام اس آیت مبارکہ میں حق تعالیٰ نے نازل فرمادیا ہے۔ (آیت) ” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملآئکۃ ان لا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم تو عدون نحن اولیآء کم فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیہاما تدعون نزلا من غفور رحیم “۔ کہ جن لوگوں نے (اپنے اعتقاد اور عمل سے) یہ کہہ لیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اسی پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہے تو ان پر فرشتے یہ پیغام بشارت لے کر اترتے ہیں کہ اے ایمان والو ! نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور بشارت سنو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہم تمہارے دوست اور ولی ہیں۔ دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے واسطے ہر وہ چیز ہے تو تم چاہو اور تمہارے واسطے ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو جو ضیافت ومہمانی ہے رب غفور رحیم کی طرف سے۔ تو مقربین انعامات سے نوازے جائیں گے اصحاب الیمین نجات پائیں گے اور راحت و سکون سے جنت میں داخل ہوں گے لیکن منکرین ومکذبین خدا کی لعنت غضب اور عذاب جہنم میں مبتلا ہوں گے۔ اعاذنا اللہ منھا وادخلنا الجنۃ بکرمہ وفضلہ من الابرار امین یا رب العالمین برحمتک یا ارحم الراحمین ‘۔ تم بحمد اللہ تفسیر سورة الواقعۃ
Top