Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَتَبَيَّنُوْا : تو تحقیق کرلو وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : تم کہو لِمَنْ : جو کوئی اَلْقٰٓى : دالے (کرے) اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلٰمَ : سلام لَسْتَ : تو نہیں ہے مُؤْمِنًا : مسلمان تَبْتَغُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : اسباب (سامان) الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فَعِنْدَ : پھر پاس اللّٰهِ : اللہ مَغَانِمُ : غنیمتیں كَثِيْرَةٌ : بہت كَذٰلِكَ : اسی طرح كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَمَنَّ : تو احسان کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر فَتَبَيَّنُوْا : سو تحقیق کرلو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا :خوب باخبر
مومنو ! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے
حکم بست وپنجم وجوب احتیاط در قتل مسلم۔ قال تعالی، یا ایھا الذین آمنو اذا ضربتم۔۔۔۔ الی۔۔۔ رحیما۔ آیت۔ ربط) یہ بھی حکم سابق کا تتمہ ہے کہ مسلمان کا قتل قطعا حرام ہے مجاہدین کو چاہیے کہ جہاد میں غایت درجہ احتیاط کریں اثناء سفر میں اگر کوئی شخص تم کو ملے اور تم کو مسلمانوں کے طریقہ سے سلام کرے یا زبان سے شہادت کا کلمہ پڑھے تو تم یہ گمان کرکے کہ اس کا یہ فعل محض جان بچانے کے لیے ہے اس کے قتل پر جرات نہ کرو جیسا کہ بعض غزوات میں بعض لوگوں سے یہ غلطی ہوئی کہ کسی چرواہے نے ان کو السلام علیکم کہا وہ سمجھے کہ یہ شخص محض جان بچانے کے لیے سلام کررہا ہے اس لیے اس کو قتل کردیا اور اس کی بکریاں لے کر نبی کی خدمت میں حاضر ہوگئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں سخت تنبیہ کی گئی کہ آئندہ ہرگز ہرگز نہ کرنا علامت اسلام کا اظہار کافی ہے چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی ہی ہے کہ جہاں ایمان کی جھلک نظر آوے تو اپنے ہاتھوں کو روک لو جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے سفر کرو تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور جو تم کو سلام علیک کرے تو اس کو یہ نہ کہو تو دل سے مسلمان نہیں محض جان بچانے کے لیے تو سلام کررہا ہے تم دنیاوی زندگانی کا سامان چاہتے ہو حالانکہ تمہیں اس حقیر سامان کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے یہاں تمہارے لیے بہت سی غنیمتیں ہیں جن کے سامنے ان چند بکریوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے یعنی مکہ میں تمہاری یہی حالت تھی کہ تم اپنا ایمان چھپاتے تھے اور شروع اسلام میں سوائے لاالہ الا اللہ کے کچھ نہیں جانتے تھے جیسے یہ چرواہا چھپاتا تھا اور تمہارے سامنے ظاہر کیا تم پر اللہ نے احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قوی کیا اور کافروں پر تم کو غلبہ عطاء کیا اور تم علانیہ طور پر اسلام ظاہر کرنے لگے پس جس طرح اللہ نے ابتداء میں تمہارے ظاہری اسلام کو قبول کیا اور باطن کی تحقیق وتفتیش پر موقوف نہیں رکھا پس اسی طرح تم بھی احتیاط سے کام لو اور تحقیق کرلیا کرو جو شعار اسلام کو ظاہر کرے اس کو قتل نہ کرو تحقیق اللہ تمہارے کاموں سے پورا خبردار ہے تمہاری بےاحتیاطی اور جلدبازی اس سے پوشیدہ نہیں۔ فضائل مجاہدین۔ اب آئندہ آیات میں مجاہدین کے فضائل بیان کرتے ہیں کہ مبادا احتیاط میں غلو کی وجہ سے ایسانہ کرنا کہ جہاد میں جاناہی چھوڑ بیٹھو اور یہ خیال کرنے لگو کہ لاؤ گھر بیٹھے ہی عبادت کرلیا کریں گے سو ارشاد فرماتے ہیں کہ معذور لوگوں کے سوائے جو مسلمان جہاد سے گھر میں بیٹھے رہیں وہ رتبہ میں مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو خدا کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں غیر اولی الضرر سے وہ لوگ مراد ہیں جو کسی عذر کی وجہ سے جہاد کے شرکت سے معذور رہیں جیسے عبداللہ بن ام مکتوم بوجہ نابینا ہونے کے جہاد میں شریک نہیں ہوسکتے تھے اور جیسے حضرت عثمان غنی جنگ بدر کی شرکت سے معذور رہے نبی ﷺ کی صاحبزادی جو ان کے نکاح میں تھیں وہ شدید بیمار تھیں ان کی تیماداری کے لیے نبی اکرم ﷺ نے ان کو ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اس وجہ سے غنائم بدر میں سے حضرت عثمان کو حصہ دیا گیا اور حضرت عثمان بدرین میں شمار کیے گئے۔ اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ بغیر عذر جہاد میں شریک نہ ہونے والے مسلمان مرتبہ اور ثواب میں ان مسلمانوں کے برابر نہیں جو جہاد میں شریک ہوتے ہیں لیکن جو مسلمان کسی معذوری یا مجبوری کی بنا پر جہاد میں شریک نہیں ہوتے مثلا وہ اندھے یا لنگڑے یا بیمار ہیں یا کسی بیمار کے تیماردار ہیں مگر دل شوق جہاد سے لبریز ہے تو ایسے معذور بن حسن نیت کی بناء پر مجاہدین کے برابر ہوسکتے ہیں یعنی ان کو وہی ثواب ملے گا جو مجاہدین کو ملتا ہے بشرطیکہ جہاد میں نہ شریک ہونا صرف اسی معذوری اور لاچاری کی بناء پر ہو اللہ نے ان لوگوں کو جو اپنے مال اور جان سے جہاد کرتے ہیں ایسے بیٹھنے والوں پر جن کی نیت تو جہاد کی تھی مگر معذوری کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہ کرسکے ایک درجہ فضیلت دی ہے اور وعدہ بھلائی کا اللہ نے ہر ایک سے کیا ہے یعنی وعدہ نیکی کا مجاہدین اور قاعدین دونوں سے ہے کیونکہ جہاد کی نیت سب کی تھی مگر مجاہدین کو قاعدین پر ایک درجہ فضیلت ہے اور قاعدین غیر معذورین پر مجاہدین کو کئی درجہ فضیلت حاصل ہے اور جمہور علماء نے پہلی آیت میں درجہ سے جنس کا مرتبہ مراد لیا ہے اور دوسری آیت کو اس کی تفصیل قرار دیا ہے (روح المعانی ص 110 ج 5 تفسیر مظہری ص 204 ج 2) ۔
Top