Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
مومنو ! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ ہوجائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے
حکم سیزدہم دربارہ اتلاف اموال ونفوس یا ایھا الذین۔۔۔ الی۔۔ کریما۔ آیت۔ ربط) گزشتہ سورت سے یتامی کے اموال اور مواریث اور بےکس عورتوں کے تنگ کرنے کے متعلق احکام بیان فرمائے اور اخیر میں تعدی حدود اللہ سے ممانعت فرمائی اب ان آیات میں ارشاد فرماتے ہیں کہ باہمی حقوق کا خیال رکھو نہ کسی کے مال کو ناجائزطریقہ سے کھاؤ اور نہ کسی کو قتل کرو اس لیے کہ کسی کے مال اور نفس میں ناجائز تصرف حدود اللہ سے تعدی اور تجاوز میں داخل ہے نیز کسی کی جان ومال میں ناجائز تصرف اتباع شہوات ہے اور، سنن الذین من قبلکم سے میل عظیم ہے چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق اور ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر سوداگری کے طریقہ سے جو آپس میں رضامندی اور خوشی سے ہو مقصود یہ ہے کہ ناجائز طریقے سے کسی کا مال لینا جیسے غصب اور چوری اور خیانت اور سود وبیاج وغیرہ یہ تمہارے لیے حرام ہے البتہ تجارت یعنی جائز طریقہ سے مال حاصل کرنا تمہارے لیے حلال ہے اور آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ کرو دوسروں کے قتل کرنے کو اپنے قتل کرنے سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ جب سب کا دین ایک ہے اور سب مانند شخص واحد کے ہیں لہذا کسی کو قتل کرنا اپنے ہی کو قتل کرنا ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اپنے قتل کرنے سے حقیقتا اپنا ہی قتل کرنا مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ خود کشی نہ کرو خود کشی حرام ہے تم اپنی جان کے مالک نہیں کہ جو چاہے اس میں تصرف کرو مالک اللہ تعالیٰ ہیں اور یہ جان اللہ کی تمہارے پاس امانت ہے تم پر اس کی حفاظت واجب ہے بیشک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے تم کو اچھی باتوں کا حکم دیا اور بری باتوں سے منع کیا تاکہ تم ہلاک نہ ہوجاؤ اللہ کی نافرمانی اپنے کو قتل کرنے کے مرادف ہے اور جو شخص زور اور ظلم سے اور تعدی اور ستم سے یہ کام کرے کہ ناحق کسی کا مال کھائے یا کسی کو بےقصور مار ڈالے پس البتہ ہم اس کو آگ میں ڈالیں گے اور یہ آگ میں جھونکنا اللہ پر بہت آسان ہے اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی چیز دشوار نہیں اس کی قدرت قدیمہ کے سامنے ہر چیز آسان ہے۔ (ف) عدوان کے معنی زیادتی میں حد سے گذر جانا ہے اور ظلم کے معنی کسی کے حق میں ناحق دست درازی کرنا یہ قید اس لیے لگائی کہ کسی کو حق پر مارنا جیسے قصاص یا کسی کا مال دیت میں لینایہ عدوان اور ظلم نہیں۔ اور ذالک کا مشارالیہ تو اکل اموال بالباطل اور قتل ناحق کو قرار دیا جائے جیسا کہ قریب ہے اور یا ذالک کا مشار الیہ ان تمام امور کو قرار دیا جائے کہ جن کی شروع سورت سے لے کر یہاں تک اللہ نے ممانعت فرمائی وہ سب ذالک کا مشارالیہ ہیں۔ ابتدائے سورت سے لے کر یہاں تک اللہ نے جن گناہوں سے منع فرمایا وہ اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ ہیں جو موجب عذاب ہیں اب آئندہ آیت میں گناہوں سے بچنے کی ترغیب اور گناہوں سے اجتناب پر کفارہ سیات اور جنت کا وعدہ فرماتے ہیں جن باتوں سے تم کو منع کیا جاتا ہے اگر تم ان منہیات اور ممنوعات میں سے بڑی بڑی باتوں یعنی بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب اور پرہیز کرو یعنی ان سے کنارہ کش رہو اور پہلو تہی کرتے رہو تم ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ان کبائر سے اجتناب اور احتراز کے صلہ میں تمہاری تقصیرات اور برائیاں یعنی چھوٹی چھوٹی خطائیں جو تم کو دوزخ میں لے جاسکتی ہیں تم سے دور کردیں گے یعنی معاف کردیں گے اور تمہارے نامہ اعمال سے مٹا دیں گے ایک نماز سے دوسری نماز تک اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک اور تم کو عزت کے مقام میں داخل کردیں گے اور تم سے صغائر پر مواخذہ نہیں کریں قصور خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہوعقلا وشرعا اس پر مواخذہ ہوسکتا ہے اور اگر تم نے کبائر سے اجتناب اور احتراز نہ کیا تو پھر ہماری طرف سے تکفیر سیئات اور عزت کے مقام میں داخل کرنے کا وعدہ نہی ہماری حکمت لم یزلی ولایزالی اور شان لا ابالی جو فیصلہ کرے وہ اس کو اختیار ہے وہ پردہ غیب میں مستور ہے اس کے متعلق کچھ نہیں بتلایا جاسکتا اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ چاہے معاف کرے اور چاہے مواخذہ کرلے معتزلہ نے آیت کا مطلب یہ سمجھ لیا کہ اگر کبائر سے نہ بچے تو اس کے لیے سزا ضروری ہے اہل سنت کے نزدیک مرتکب کبائر پز سزا ضروری نہیں، ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاء ہاں وعدہ نہیں چاہے معاف کرے اور چاہے مواخذہ کرے۔ (ف 1) ۔ گناہ کبیرہ کی تعریف میں علماء کے مختلف اقوال ہیں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ گناہ کبیرہ وہ ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول نے دنیا میں غصہ یا کوئی حد مقرر کی ہے اور آخرت میں اس پر عذاب عظیم مرتب کیا ہے یا اس کے مرتکب پر لعنت کی ہے یا اس کو کفر کے ساتھ موسوم کیا ہے اور صغیرہ وہ ہے کہ جس سے منع تو فرمایا مگر اس پر غصب ولعنت وغیرہ جیسے امور کو نہیں فرمایا۔ (ف 2) ۔ ابن عباس سے دریافت کیا گیا کہ کبائر کس قدر ہیں فرمایا کہ سات سے لے کر قریب قریب ستر تک ہیں ابن مسعود کا ایک قول یہ ہے کہ شروع سورة نساء سے لے کر اس آیت تک اللہ نے جن باتوں کی ممانعت فرمائی وہ سب کبیرہ میں اللہ نے قرآن کریم میں صغائر کو کبائر سے ممتاز کردیا جاتا تو لوگ صغائر کو ہلکا سمجھ کر ان سے بچنے کی چنداں پروا نہ کرتے البتہ نبی صلی اللہ نے بعض گناہوں کے کبیرہ ہونے پر نص فرمادی ہے مثلا۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹ بولنا، یتیم کا مال کھانا، جادو کرنا، زنا اور خاص کر ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا نہایت ہی برا ہے، میدان جنگ سے بھاگنا، اولاد کو فقر وفاقہ کے اندیشہ سے مار ڈالنا، پاکدامن بیخبر مسلمان عورت پر بہتان باندھنا یہ بخاری اور مسلم کی روایتوں کا مضمون ہے جن سے مقصود حصر نہیں بلکہ مقصود یہ بتلانا ہے کہ گناہ کبیرہ ایسے ہوتے ہیں کیونکہ احادیث میں روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دو نمازیں بلاعذر جمع کرے وہ ابواب کبائر میں سے ایک دروازہ پر آیا امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں حنش (یعنی حسین بن قیس) واقع ہے جس کو امام احمد وغیرہ نے ضعیف کہا ہے اور ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن ابی حاتم نے دوسری سند سے روایت کیا ہے نیز موطا امام احمد میں ہے کہ فاروق اعظم نے اپنی مملک کے اطراف واجوانب میں جمع بین الصلاتین کی ممانعت کا حکم لکھ کر بھیج دیا اور اسبات کی سب کو اطلاع دیدی کہ وقت واحد میں دو نمازوں کا جمع کرنا منجملہ بڑے گناہوں کے ایک بہت بڑا گناہ ہے فاروق اعظم کے اس فرمان واجب الاذعان سے معلوم ہوا کہ ابن عباس والی حدیث درحقیقت صحیح ہے اس لیے صحابہ نے دل وجان سے اس حکم کو قبول کیا پس ان احادیث کی بناء پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اے مسلمانوں اگر تم جمع بین الصلاتین جیسے بڑے گناہ سے اجتناب کرو گے تو ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے دوسرے گناہوں کو معاف کردیں گے ورنہ نہیں۔ (ف 3) یہ آیت یعنی ان تجتنبوا کبائر۔ انہی پانچ آیتوں میں سے ہے جن کے متعلق عبداللہ بن مسعود کا قول نقل ہوچکا ہے کہ پانچ آیتیں مجھ کو دنیا ومافیھا سے زیادہ محبوب ہیں۔ بعض عارفین کا قول ہے کہ تمام کبائر تین چیزوں میں مندرج ہیں۔ اول۔ اتباع ہوی یعنی نفسانی خواہشوں اور لذتوں کی پیروی کماقال تعالیٰ ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ۔ آیت۔ اور عقوق والدین اور قطع رحمی وغیرہ اتباع ہوی سے پیدا ہوتا ہے، غبار ہوا چشم غفلت بدوخت سموم ہوس کشت عمرت بسوخت بکن سرمہ غفلت از چشم پاک کہ فردا شوی سرمہ درچشم خاک۔ دوم۔ حب دنیا، قتل اور ظلم اور غصب اور سرقہ اور سود خواری اور مال یتیم کا کھاجانا اور زکوٰۃ کانہ دینا اور جھوٹی قسمیں کھانا وغیرہ وغیرہ اس قسم کے تمام کبائر حب دنیا سے پیدا ہوتے ہیں اور حدیث میں ہے حب الدنیا راس کل خطیتہ۔ علاقاں میل بسویت نکنندا دینا ہم امید کرم ولطف تو جاہل دارد ہر کہ خواہد بکند ازتومراد دے حاصل حاصل آنست کہ اندیشہ باطل وارد سوم۔ رویۃ الغیر یعنی غیر اللہ پر نظر کرنا اور کہنا شرک اور نفاق اور ریاء اور اس قسم کے کبائر غیر اللہ پر نظر کرنے سے پیدا ہوتے ہیں اسی بناء پر ارشاد ہے، ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاء، وقال تعالیٰ فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولایشرک بعبادۃ ربہ احدا اور حدیث میں ہے الیسیر من الریاء شرک لہذا عاقل کو چاہے کہ اپنی انظار کو اغیار سے ہٹا کر واحد قہار پر لگا دے۔ گرچہ زند انست برصاحبدین لان ہر کجا بوے زوصل یانیست ہیچ زنداں عاشق محتاج را تنگ تراز صحبت اغیار نیست پنجم۔ اکل حلال یعنی حلال روزی سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کی طاعت پر آمادہ کرنے والی نہیں اکل حلال تمام طاعتوں کی جڑ ہے خوب سمجھ لو، خوب سمجھ لو۔
Top