Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لو گے ؟
تتمہ مضمون سابق۔ اوپر کی آیت میں اللہ نے یہ فرمایا کہ تمہاری بیویاں فحاچی کی مرتکب ہوں تو ان کو ضرر پہنچا کر خلع پر مجبور کرنا اور اس طرح ان سے دیا ہوا مہر واپس لے لینا روا ہے اب اس آیت میں یہ فرمایا کہ اگر عورتیں بےقصور ہیں اور بدکار اور نافرمان نہ ہوں اور تم ان کو محض اپنی رغبت سے چھوڑنا چاہو تو پھر ان کو ستا کرا اور تنگ کرکے اپنا دیا ہو امہر ان سے واپس لینا تمہارے لیے روا نہیں خواہ وہ دیا ہوا مہر کتنا ہی کثیر کیوں نہ ہو کیونکہ جب وہ بےقصور ہیں تو انکو ایذا پہنچانا حرام ہے زمانہ جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ جب کوئی شخص اپنی عورت سے ناخوش ہوتا اور اسے چھوڑ کر دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہتا تو پہلی عورت پر جھوٹ موٹ کی تہمت لگا دیتا اور مختلف طریقوں سے اس کو ستاتا تاکہ مجبور ہو کر مہر واپس کردے تاکہ یہ مہر جدید نکاح میں کام آئے اور اس کی ممانعت میں یہ آیت نازل ہوئی اور اگر تم محض اپنی رغبت سے ایک بیوی کی جگہ دوسری یعنی جو بیوی تمہارے نکاح میں ۃ ے اور اس کا کوئی قصور نہیں تو اس کو محض اپنی طبعی رغبت کی بناء پر طلاق دیکر دوسری بیوی کرنا چاہو اور ان میں سے اس بیوی کو مال کا ایک خزانہ بھی دے چکے ہو تو تم اس دیے ہوئے مال میں سے کوئی چیز واپس نہ لو کیا تم اس دیے ہوئے مال کو تہمت لگا کر اور صریح گناہ کے ذریعہ واپس لینا چاہتے ہو یعنی اگر تم بلاوجہ اور بےقصور پہلی بیوی سے مہر واپس لے لو گے تو یہ ناحق اور کھلا گناہ ہوگا اور بھلا تم اس دیے ہوئے مہر کو کیسے اور کس طرح لیتے ہو حالانکہ ایک دوسرے سے خلوت اور تنہائی مل چکا ہے اور تمتع اور تلذذ سے کوئی مانع باقی نہیں رہا تو مہر تم پر واجب ہوچکا اب کس استحقاق سے تم اس کو ان سے واپس لیتے ہو اسی بناء پر امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے کہ جب میاں بیوی ایک جگہ خلوت میں جمع ہوجائیں اور کوئی امر شرعی جماع سے مانع نہ رہا تو عورت کا پورا مہر مرد کے ذمہ واجب ہوجاتا ہے خواہ جماع متحقق ہوا ہو یا نہ ہوا ہو کیونکہ افضاء کے معنی فضاء یعنی خالی جگہ میں جانے کے ہیں معلوم ہوا کہ محض افضاء یعنی خلوت ہوجانے سے پورا مہر واجب ہوجاتا ہے اور یہی جمہور صحابہ وتابعین کا مذہب ہے اور بعض فقہاء کے نزدیک ہم بستری یعنی جماع کے بعد پورا مہر واجب ہوتا ہے اور اگر جماع سے پہلے طلاق دے دے تو اس کے ذمہ آدھا مہر واجب ہوگا تفصیل کے لیے ابوبکر رازی کی احکام القرآن کو دیکھئے۔ اور علاوہ ازیں وہ عورتیں تم سے مضبوط اور پختہ عہد لے چکی ہیں عہد سے مراد ایجاب اور قبول ہے یعنی جب تم نے گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کیا اور مہر اور تمام حقوق اور لوازم نکاح کا التزام کرلیا جو بروئے نکاح تم پر عائد ہوتے ہیں پس اس عہد اور میثاق کے بعد مہر کا واپس لینا سخت بےمروتی اور عہد شکنی ہے اس آیت میں مہر واپس لینے کی حرمت کی دو علتیں بیان فرمائیں۔ اول یہ کہ تم ایک دوسرے سے تنہائی اور خلوت میں مل چکے ہو اور جب مرد عورت تک پہنچ گیا اور جماع سے کوئی ممانعت باقی نہ ہو تو اس پر پورا مہر لازم ہوگیا۔ دوسری علت یہ ہے کہ عورتیں ایجاب و قبول کے ذریعہ تم سے پختہ عہد لے چکی اور تمہاری ملک میں آگئی ہیں بغیر تمہارے چھوڑے دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتیں پس اس پختہ عہد کے بعد ان سے مہر کو واپس لینا اس عہد کے خلاف ہے۔
Top