Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 157
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ
وَّقَوْلِهِمْ
: اور ان کا کہنا
اِنَّا
: ہم
قَتَلْنَا
: ہم نے قتل کیا
الْمَسِيْحَ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: ابن مریم
رَسُوْلَ
: رسول
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَا قَتَلُوْهُ
: اور نہیں قتل کیا اس کو
وَمَا صَلَبُوْهُ
: اور نہیں سولی دی اس کو
وَلٰكِنْ
: اور بلکہ
شُبِّهَ
: صورت بنادی گئی
لَهُمْ
: ان کے لیے
وَاِنَّ
: اور بیشک
الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا
: جو لوگ اختلاف کرتے ہیں
فِيْهِ
: اس میں
لَفِيْ شَكٍّ
: البتہ شک میں
مِّنْهُ
: اس سے
مَا لَهُمْ
: نہیں ان کو
بِهٖ
: اس کا
مِنْ عِلْمٍ
: کوئی علم
اِلَّا
: مگر
اتِّبَاعَ
: پیروی
الظَّنِّ
: اٹکل
وَ
: اور
مَا قَتَلُوْهُ
: اس کو قتل نہیں کیا
يَقِيْنًۢا
: یقیناً
اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل کردیا ہے۔ (خدا نے انکو ملعون کردیا) اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور پیروی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا قتل نہیں کیا۔
عقیدہ قتل وصلب کا ابطال۔ قال تعالیٰ وماقتلوہ وماصلبوہ۔ آیت۔ نصاری کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول ومصلوب ہوئے اور تین دن قبر میں مردہ رہ کر زندہ ہوگئے اور اٹھ کر آسمان پر چڑھ گئے نصاری کا یہ مسئلہ سراسر خلاف عقل ہے اس لیے کہ قتل اور صلب اور موت سب مخلوق کے لیے ہے نہ کہ خالق کے لیے اور اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح بن مریم نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب بلکہ صحیح وسالم اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے اور یہود بےیہود کی جو جماعت ان کے قتل کے ارادہ سے ان کے مکان میں داخل ہوئی تھی انہی میں کا ایک شخص بحکم خداوندی حضرت مسیح کی ہم شکل بنادیا گیا دشمنوں نے اسی کو مسیح سمجھ کر قتل کرڈالا قرآن کریم اس دعوے کی نہایت شدومد سے تردید کرتا ہے کہ انہوں نے مسیح کو قتل کیا یا صلیب پر چڑھایا وماقتلوہ وماصلبوہ۔ اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ اللہ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھایا اور اہل کتاب کو اصل حقیقت کا علم ہی نہیں یہ لوگ شک اور اختلاف کی وادی تیہ میں سرگرداں ہیں۔ یہ قرآن کریم کی شہادت ہے جو سب سے بڑی شہادت ہے اور نصاری کے متعدد فرقے بھی اسی کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب بلکہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے دیکھو نوید جاوید ص 372، ص 394۔ کلیسا نمبر 8 اور انشاء اللہ ہم عنقریب اس کا خلاصہ ہدیہ ناظرین کریں گے۔ نصاری حضرت عیسیٰ کا مصلوب ہونا اپنی محرف انجیلوں سے اور مورخین کے اقوال سے ثابت کرتے ہیں اور علاوہ محرف ہونے کے اناجیل کے بیانات اس درجہ مختلف اور متعارض ہیں کہ بیان سے باہر ہیں جیسا کہ نوید جاوید میں ان اختلافات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ یہود ونصاری کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ان کے پاس اس واقعہ قتل کا کوئی عینی شاہد موجود ہے اس لیے کہ تاریخی حیثیت سے یہ امر مسلم ہے کہ جب یہود حضرت مسیح کو گرفتار کرنے کے لیے گئے تو وہ رات کا وقت تھا اور گرفتاری کے وقت مصلوبی سے پہلے ہی تمام حواری حضرت مسیح کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے واقعہ کے وقت کوئی حواری حاضر نہ تھا تو پھر متی اور لوقا اور مرقس اور یوحنا اور پولوس کس بات کی شہادت دیتے ہیں کیا کسی انگریزی عدالت میں ایسے شخص کی شہادت قبول کی جاسکتی ہے جو واقعہ کے وقت موجود نہ ہو بلکہ یہ کہے کہ میں خود موجود نہ تھا ہاں کسی سے سنا ہے کہ فلاں آدمی کو سولی پر چڑھایا گیا اور جس سے سنا ہے اس کا نام بھی معلوم نہیں اس لیے کسی انجیل میں کسی حواری نے کسی سند متصل کے ساتھ یہ روایت نہیں کیا کہ فلاں شخص نے اپنی آنکھ سے دیکھ کر یہ واقعہ بیان کیا۔ غرض یہ کہ گفرتاری کے وقت حضرت مسیح کو ان کے تمام شاگرد تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے جیسا کہ انجیل متی باب 26 در 56 میں ہے۔ سب نے بےوفائی کی حالانکہ پہلے وفا کا بڑا دم بھرتے تھے نیز اگر نامردی اور بےوفائی کی وجہ سے ایسی پریشانی کے وقت میں حضرت مسیح کے ساتھ گرفتار ہونا یا جان دے دینا مشکل تھا تو کیا حضرت مسیح کے لیے رات کو جاگتے رہنا بھی مشکل تھا مگر حواری بےفکری کے ساتھ سوتے رہے حالانکہ حضرت مسیح نے ان کو تاکید کی تھی کہ میرا دل مرنے تک بہت غمگین ہے تم یہاں میرے ساتھ جاگتے رہو دیکھو انجیل متی باب 26 درس 38۔ پھر اس حکم کے بعد حضرت ذرا دور جا کر سربسجود دعا میں مشغول ہوگئے، 40 پھر شاگردوں کے پاس آکر انہیں سوتے پایا اور پطرس (حواری سے خاص طور پر یہ) کہا کیوں تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی جاگ نہ سکے، جاگو اور دعا مانگو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو دیکھو انجیل متی باب 26 اس درس 36 تا درس 46۔ افسوس کہ حضرت مسیح نے بارہا شکایت کی تم اب بھی سوتے ہو اور آرام کرتے ہو اور ظاہر ہے کہ اگر حواریین کو مسیح سے کچھ بھی محبت ہوتی تو ایسے وقت میں کبھی ان کو نیند نہ آتی دنیا داروں کا یہ حال ہے کہ اگر ان کے کسی عزیز اور دوست پر کوئی پریشانی آجاتی ہے تو گھبرا کر اٹھتے ہیں اور آنکھوں سے نیند اڑ جاتی ہے۔ اور یہوداہ نے تو یہ ستم کیا کہ تیس درہم رشوت لے کر اپنے خداوند یسوع مسیح کو یہودیوں کے ہاتھ گرفتار کرایا جیسا کہ انجیل متی باب 26 آیت 14 میں ہے اور انجیل مرقس باب 14 درس 10، 11 میں ہے اور انجیل لوقاباب 22 درس 3 میں مذکور ہے پطرف جو کہ نصاری کے نزدیک اعظم الحواریین ہے اس نے قسم کھاکر کہہ دیا کہ میں اس شخص کو جانتا ہی نہیں جیسا کہ ولیم میور نے اپنی تاریخ کے پہلے باب کے تیرھویں دفعہ میں لکھا ہے کہ مسیح کے حواریوں اور شاگردوں نے اب تک یعنی مسیح کے مصلوب ہونے تک اس کی تعلیم کی حقیقت اور مطلب کو بالکل نہیں سمجھا تھا اور ان کا سست ایمان دنیوی نعمتوں اور فائدوں کی امید میں لگا تھا اس کے گرفتار ہوتے ہی وہ سب بھاگ گئے اور پطرس نے جو عدالت میں گیا وہاں اپنے خداوند کا انکار کیا منقول از ازالۃ الشکوک ص 179 ج 1) ۔ غرض یہ کہ یہ تو حواریین کا حال ہوا کہ حضرت مسیح کی گرفتاری کے وقت سب بھاگ گئے تھے ان میں سے کوئی موجود نہ تھا اور جو گواہی دے سکے اور اپنا عینی مشاہدہ بیان کرسکے حتی کہ حضرت مسیح کی والدہ حضرت مریم بھی اس وقت موجود نہ تھی جب ان کے لخت جگر کو پھانسی دی جارہی تھی اور اس وقت اگر شاگرد بھاگ گئے تھے تو والدہ کو تو ضرور بالضرور موجود رہنا چاہیے تھا باقی رہے یہود بےبہبود جن کو نصاری گواہی میں پیش کرتے علاوہ ازیں کہ وہ ایک ظالم حاکم کے پولیس کے چند بےدین سپاہی چپراسی تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو قتل کر آئے جن کا حال یہ تھا کہ وہ حضرت مسیح کو پہچانتے ہی نہ تھے اور اشتباہ میں پڑے ہوئے تھے اس لیے کہ اگر یہود کو اشتباہ نہ تھا تو حضرت مسیح کے ایک شاگرد تیس درہم رشوت دینے کی کیا ضرورت تھی تیس روپیہ رشوت کے اسی لیے دیئے کہ وہ ان کو بتاسکے کہ مسیح یہ ہیں چناچہ یہود جب وہاں پہنچے تو یسوع نے ان سے کہا کہ کسے ڈھونڈتے ہو انہوں نے جواب دیا یسوع ناصری کو یسوع نے ان سے کہا کہ میں ہی ہوں اور یہ کہتے ہی سب زمین پر بےہوش ہو گر پڑے بار بار ایسا ہی ہوا دیکھو انجیل یوحنا باب 18 درس 5۔ پس اس حالت میں اللہ نے حاضرین میں سے ایک شخص کو حضرت مسیح کا ہم صورت اور ہم شکل بنادیا جس کو یہود نے مسیح سمجھ کر قتل کرڈالا اس طرح اللہ نے ان کو اشتباہ میں ڈال دیا اور ایک فرشتہ حضرت مسیح کی مدد کے لیے آسمان سے نازل ہوا اور جو ان کو اٹھا کر آسمان پر لے گیا (دیکھو دلیل خامس وسادس از کتاب الفارق ص 287) ۔ وعدہ خداوندی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح سے پہلے ہی وعدہ کرلیا تھا کہ وہ تیری بابت فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے ایسانہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر ٹھیس لگے دیکھو انجیل متی باب 4 درس 6 اور انجیل لوقاباب 4 درس دہم میں اس طرح ہے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ تیری حفاظت کریں اور یہ بھی کہ وہ تجھے ہاتھوں پر اٹھالیں گے ایسانہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر کی ٹھیس لگے۔ حضرت مسیح کی پیش گوئی۔ اللہ نے حضرت مسیح سے وعدہ فرمایا کہ تم دشمنوں سے گھبرانا نہیں اللہ تمہاری حفاظت کے لیے فرشتوں کو حکم دے گا حضرت مسیح کو اللہ کے وعدہ پر یقین تھا اس لیے حضرت مسیح نے حادثہ صلیب سے چند دن پہلے ہی یہ پیشن گوئی فرمادی تھی کہ میں صرف چند روز تمہارے ساتھ ہوں پھر میں عنقریب اپنے خدا کے پاس چلا جاؤں گا اور لوگ مجھے ڈھونڈیں گے مگر نہیں پائیں گے اور جہاں میں ہوں وہاں نہیں آسکیں گے دیکھو انجیل یوحنا باب درس 33 اور یہی مضمون انجیل یوحنا کے باب ہشتم از درس 2 تا درس 24 میں مذکور ہے اور اسی کے قریب قریب انجیل یوحنا باب 16 درس 5 میں مذکور ہے اور انجیل متی کے باب 23 درس 49 میں ہے میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے ہرگز نہ دیکھو گے۔ معلوم ہوا کہ کوئی حضرت مسیح کے پکڑنے پر قادر نہ ہوگا اور کوئی ڈھونڈنے والا ان کو ہرگز نہ پاسکے گا اور نہ کوئی ان کو دیکھ سکے گا پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح کو ڈھونڈ کر پالیا اور پکڑ کر ان کو سولی چڑھا دیا پس وہ لوگ حضرت مسیح کے اس قول کی تکذیب کرتے ہیں حضرت مسیح تو یہ فرماتے ہیں کہ جہاں میں جاتا ہوں وہاں کوئی نہیں آسکتا اور نصاری کہتے کہ معاذ اللہ حضرت مسیح نے غلط کہا جہاں حضرت مسیح گئے وہاں کے دشمن یہود بھی پہنچ گئے اور ڈھونڈ کر ان کو پالیا پس نصاری تو اس عقیدہ صلب سے حضرت مسیح کے اس قول کی تکذیب کررہے ہیں اور اہل اسلام حضرت مسیح کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت مسیح نے سچ فرمایا کہ کوئی ڈھونڈنے والا ان کو نہیں پاسکا اور جہاں یعنی آسمان پر وہ تشریف لے گئے وہاں کوئی نہیں جاسکتا اور نہ کوئی ان کو دیکھ سکا دیکھو الفارق ص 289 دلیل رابع عشر اور دیکھو الجواب الفسیح لما لفقہ عبدالمسیح ص 472) ۔ (حضرت مسیح (علیہ السلام) کی دعا) ۔ چار انجیلوں سے یہ ثابت ہے کہ جب حضرت مسیح کو یہ محسوس ہوا کہ یہود میرے قتل پر آمادہ ہیں تو سجدہ میں گر کر اللہ سے یہ دعا کی کہ موت کا یہ پیالا مجھ سے ٹل جائے اور آنسو بہا بہا کر خدا سے دعائیں اور التجائیں کیں اور خدا ترسی کی وجہ سے ان کی دعا سنی گئی جیسا کہ پولوس کے خط عبرانیوں کے نام کے پانچویں باب اور ساتویں درس میں اس کی تصریح ہے دیکھو دلیل اول از کتاب الفارق ص 286) ۔ پس جب ان کی دعا قبول ہوئی تو پھر گرفتاری کے کیا معنی۔ (2) نیز زبور باب ششم کے درس ہشتم میں ہے۔ نمبر 8 مجھ سے دور ہوا ہے سارے بدکردار و کہ خدا وند نے میرے رونے کی آواز سنی۔ نمبر 9 خداوند نے میری فریاد سنی ہے خداوند میری دعا قبول کرے گا۔ نمبر 10 میرے سارے دشمن شرمندہ ہوجائیں گے اور نہایت کپکپی میں پڑیں گے وہ پھریں گے اور ناگہانی خجالت کھینچیں گے۔ انتہی۔ علماء نصاری کے نزدیک یہ زبور حضرت مسیح کے حق میں ہے جس میں صراحہ یہ مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ کی دعا قبول ہوگی اور ان کے دشمن ناکام ہوں گے اور شرمندہ ہو کر واپس ہوں گے معلوم ہوا کہ دشمن حضرت مسیح کے قتل وصلب پر قادر نہ ہوں گے حتی کہ ان کے قریب بھی نہ جاسکیں گے۔ (3) ۔ نیز زبور باب 109 ایک سونو اور درس چھبیس میں ہے۔ نمبر 26۔ اے خدا وند میرے خدا میری کمک کر اپنے رحمت کے مطابق مجھے نجات دے۔ نمبر 27۔ تاکہ وہ جانیں کہ یہ تیرا ہاتھ ہے کہ تو نے اے خداوند یہ کیا ہے۔ نمبر 28۔ وہ لعنت کریں پر تو برکت دے جب وہ اٹھیں تو شرمندہ ہوں پر تیرا بندہ شادمان ہو۔ نمبر 29۔ میرے دشمن خجالت کی پوشاک سے ملبس ہوں اور اپنی شرمندگی کے چادر سے آپ کو چھپالیں۔ نمبر 30۔ میں اپنے منہ سے خداوند کی بہت ہی ستائش کروں گا میں بہتوں کے بیچ اس کی حمد گاؤں گا۔ یہ زبور بھی باتفاق علماء نصاری حضرت مسیح کے حق میں ہے جس میں حضرت مسیح نے اپنی نجات اور دشمنوں کی خجالت کی دعا کی ہے۔ نصاری کہتے ہیں کہ معاذ اللہ حضرت مسیح نے ایک مایوس انسان کی طرح خدا کا شکوہ کرتے کرتے جان دے دی اس لیے کہ ایلی ایلی لماسبقتنی کہتے ہوئے جان دیدینا صریح مایوسی اور شکوہ خداوندی ہے اور یہ قطعا ناممکن اور محال ہے کہ پیغمبر خدا تعالیٰ سے مایوس ہو کر اس کا شکوہ کرنے لگے، انہ لایی اس من روح اللہ الالقوم الکافرون۔ آیت۔ علماء نصاری کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر جب موت کا وقت آیا اور کوئی بھی ان میں سے موت سے نہیں تو غایت درجہ شاداں وفرحان تھے کہ اب خداوند ذوالجلال سے لقاء کا وقت آیا۔ اور نصاری کے اعتقاد میں تو حضرت مسیح خدا تھے تو بجائے اس کے کہ بندے (یہود) خدا سے ڈرتے معاملہ برعکس تھا کہ خدا بندوں سے ڈر رہا تھا معلوم ہوا کہ جزع فزع کرنے والاشخص مصلوب حضرت مسیح کے علاوہ کوئی اور شخص تھا جو حضرت عیسیٰ کے شبہ میں قتل کیا گیا اس لیے کہ موت سے گھبرانا معمولی شخص کا کام ہے موت کے متعلق تو اولیاء کا یہ حال ہوتا ہے، خرم آنروز کریں منزل ویراں بروم، راحت جان طلبم وزپئے جاناں بردم۔ اور حضرات انبیاء کرام کی شان اولیاء اللہ سے کہیں بلند ہے دیکھو دلیل تاسع از کتاب الفارق ص 288۔ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ محض ایک خواب کی بناء پر انتہائی ذوق شوق کے ساتھ اپنے باپ کے ساتھ اپنے آپ کو ذبح کرانے کے لیے مذبح کی جانب روانہ ہوئے۔ فرشتہ کا حضرت مسیح کی مدد کے لیے نمودار ہونا۔ ) ۔ حضرت مسیح جب دعا کرچکے تو خدا تعالیٰ کی جانب سے ایک فرشتہ ان کی تائید اور اعانت کے لیے آیا جیسا کہ انجیل لوقاباب 22 آیت 39 میں ہے اور آسمان سے ایک فرشتہ اس کو دکھائی دیا وہ اسے تقویت دیتا تھا۔ یعنی آسمان سے فرشتہ نازل ہوا کہ حضرت مسیح کو آسمان پر اٹھا لے جائے ورنہ اگر حضرت مسیح یہود کے ہاتھ سے قتل ہوگئے تو پھر اس فرشتہ نے حضرت مسیح کی کیا مدد کی اور اس کے آنے سے کیا فائدہ ہوا کیا وہ فرشتہ محض قتل کا تماشہ دیکھنے آیا تھا۔ (حضرت مسیح کا لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوجانا) ۔ اس کے بعد حضرت مسیح لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوگئے جیسا کہ انجیل یوحنا باب 12 درس 37 میں ہے یسوع یہ باتیں کہہ کرچلا گیا اور اپنے آپ کو اس نے چھپالیا۔ اور انجیل یوحنا کے باب 20 آیت 20 میں ہے یسوع آیا اور بیچ میں کھڑا ہو اور بولا تم پر سلام۔ اور اس کے بعد کتاب الاعمال باب 1 آیت 9 میں ہے اور وہ یہ کہہ کے ان کو دیکھتے ہوئے اوپر اٹھا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپالیا اور اس کے جاتے ہوئے جب وے آسمان کی طرف تک رہے تھے دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس کھڑے تھے اور کہنے لگے اے جلیلی مردود تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے اسی طرح جس طرح تم نے آسمان پر جاتے دیکھا پھر آئے گا ناظرین غور کریں کیا انجیل کے ان بیانات سے قرآن کریم کے اس قول، وماقتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ کی صراحتا تصدیق اور تائید نہیں ہوتی۔ دعوائے صلب وقتل خلاف عقل بھی ہے) ۔ نصاری کا یہ دعوی کہ حضرت مسیح مصلوب ہوئے خلاف عقل بھی ہے اس لیے کہ نصاری کے نزدیک جب حضرت مسیح خدا ہیں اور یہود ان کے بندے ہیں تو خدا کا اپنے بندوں کے ہاتھ سے مقہور مجبور ہونا اور صلیب پر لٹکانا سراسر خلاف عقل ہے جس دین میں معاذ اللہ خدا بندوں کے ہاتھ سے سولی پر لٹکا جائے وہ دین نصاری ہی کو مبارک ہو۔ (تواتر اور شہرت میں فرق) ۔ نصاری کا یہ زعم ہے کہ واقعہ صلیب تواتر سے ثابت ہے سو یہ زعم زعم فاسد ہے اس لیے کہ تواتر اس کو کہتے ہیں کہ عین واقعہ کے وقت چشم دید شہادت دینے والے اتنے کثیر تعداد میں ہوں کہ عادۃ ان کا متفق ہو کر جھوٹ بولنا محال ہو اور جب عین واقعہ کا کوئی عینی گواہ ہی نہ ہو تو زمانہ مابعد کی شہرت محض افواہ کا درجہ رکھتی ہے اس کو تواتر نہیں کہا جاسکتا جیسا کہ ہندوں میں یہ مشہور ہے کہ روان کے دس سر تھے اور ہنومان جی نے پہاڑ اٹھا لیا تھا تو اس قسم کی بےسروپا خبروں کو متواتر نہیں کہا جاسکتا رہا نصاری کا یہ دعوی کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) تین دن قبر میں رہنے کے بعد زندہ ہوگئے اور قبر سے اٹھ کھڑے ہوئے نصاری کے پاس اس کا کوئی شاہد عینی موجود نہیں نہ حواریین میں سے نہ عوام سے نہ عورتوں میں سے اور نہ یہود میں سے اور نہ چپراسیوں میں اور نہ پہرہ داروں میں سے کوئی بھی اس کا گواہ نہیں کہ میں نے حضرت مسیح کو قبر سے اٹھتے دیکھا ہے اور مریم کی جو روایت نقل کی جاتی ہے اس میں فقط اتنا ہے کہ مریم نے قبر کے پاس دور سے کچھ فرشتے اور کچھ آدمی دیکھے باقی حضرت مسیح کو قبر سے اٹھتے ہوئے دیکھنا مریم نے بھی بیان نہیں کیا دیکھو الفارق ص 290 دلیل سادس عشر۔ (اسی مضمون کی ایک دوسری آیت) ۔ واذ کففت بنی اسرائیل عنک اذ جئتھم بالبینات۔ آیت۔ اللہ نے جب سورة مائدہ میں حضرت عیسیٰ پر اپنے انعامات کا ذکر کیا تو ان میں ایک انعام یہ شمار کیا کہ عیسیٰ یاد کرو اس وقت کو جب بنی اسرائیل کو تم سے روک دیا تھا کہ وہ تمہارے پاس آنے پر بھی قادر نہ ہوئے جس سے صاف ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل عیسیٰ (علیہ السلام) کو گزند نہیں پہنچا سکے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ہے، اذ ھم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیھم فکف ایدیھم عنکم۔ پس جس طرح ہمارے نبی اکرم ﷺ دشمنوں سے بالکلیہ محفوظ رہے اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی یہود سے بالکلیہ محفوظ رہے۔ لطیفہ) ۔ ایک پادری صاحب ایک مجلس میں تشریف لائے اور لوگوں کو دین مسیحی کی تبلیغ کرنے لگے اثناء گفتگو میں یہ بیان کیا کہ خداوند یسوع نے لوگوں کے لیے تمام رنج اٹھائے اور سولی پر چڑھا اور مدفون ہوا اور تین دن جہنم میں رہاتومجلس میں ایک ظریف الطبع مسیحی بھی تھا سن کر کہنے لگا کہ باپ بڑا ہی سخت دل تھا کہ بیٹے کو طرح طرح کی ایذاؤں میں مبتلا کیا اور تین روز جہنم میں پڑا رہنے دیا پادری صاحب نے خفا ہو کر اس کو مجلس سے نکال دیا مجلس سے باہر آنے کے بعد وہ مسیحی اس مہمل عقیدہ سے تائب ہو کر اور مسلمان ہوگیا۔ اطلاع) ۔ علامہ شیخ عبدالرحمن آفندی نے اپنی کتاب الفارق بزبان عربی میں از ص 280 تا ص 1291 اخبار تاریخیہ اور ادلہ عقلیہ سے دعوای صلب کی مفصل تردید فرمائی ہے حضرت اہل علم اصل کی مراجعت کریں اور شیخ ابوالفضل مالکی مسعودی نے منتخب التخجیل میں باب ہفتم اور باب ہشتم میں ص 97 تا ص 123 اس پر کلام کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ مقتول مصلوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا کوئی شبیہ اور مثیل مقتول ومصلوب ہوا ہے اور حضرات اہل علم اصل کتاب کو دیکھیں۔ خلاصہ کلام) ۔ یہ کہ واقعہ قتل کے وقت حواریین اور اصحاب عیسیٰ میں سے موقعہ پر کوئی موجود نہ تھا صرف پولیس کے چند یہودی موجود تھے جو حضرت مسیح کو پہچانتے بھی نہ تھے ان کو خو دمعلوم نہ تھا کہ مسیح کون ہے اور ہم کس کو گرفتار کررہے ہیں ان کو خود یقین نہ تھا کہ ہم نے حضرت مسیح کو قتل کیا ہے نشان دہی کے مطابق ایک شخص کو مسیح سمجھ کر قتل کیا پس کیا پولیس کے ایسے چند بیخبر چپراسیوں کی خبر کو خبر متواتر کہا جاسکتا ہے اور کہا اہل عقل کے نزدیک ایسی خبر سے کوئی جزم اور یقین حاصل ہوسکتا ہے عجب نہیں کہ کسی منافق نے یہود سے رشوت لے کر انجیلوں میں قتل وصلب کی فرضی داستان شامل کردی ہو تاکہ لوگ نصاری کے دین کا مذاق اڑائیں نصاری کے نزدیک جب رشوت لے کر خدا کو گرفتار کرادینا ممکن ہے تو رشوت لے کر بائبل میں کوئی الحاق کردینا کیا مشکل ہے (دیکھو منتخب التنجیل ص 105) ۔ ولکن شبہ لھم۔ ایمہ تفسیر نے اس آیت کی دو طرح تفسیر فرمائی ایک تو یہ کہ لفظ لھم شبہ کانائب فاعل قرار دیا جائے اور مطلب یہ ہو کہ یہودی جب گرفتار کے لیے اندر گھسے تو وہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ پایا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مسیح کو آسمان پر اٹھالیا اور یہود کو شبہ اور اشتباہ میں ڈال دیا گیا جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے اس کا ترجمہ اس طرح فرمایا ہے، و لیکن مشتبہ شد برایشان۔ اور شاہ رفیع الدین نے اس طرح ترجمہ کیا اور لیکن شبہ ڈالا گیا واسطے ان کے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ بعض متکلمین یہ فرماتے ہیں کہ جب یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ پایا تو انہوں نے کسی اور شخص کو قتل کرکے مشہور کردیا کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کرڈالا دوسری تفسیر یہ ہے کہ شبہ کی ضمیر مقتول ومصلوب کی طرف راجع کی جائے جو لفظ انا قتلنا اور وماقتلوہ سے سمجھا جاتا ہے اور مطلب یہ کہ ایک دوسرا شخص حضرت عیسیٰ کا شبہ اور مثیل بنادیا گیا جس طرح اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کو اژدہا کے مشابہ بنایا اسی طرح اللہ نے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ کے مشابہ بنادیا چناچہ عبدالقادر فرماتے ہیں کہ و لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے یعنی من جانب اللہ ایک شخص کو حضرت عیسیٰ کا ہم صورت اور ہم شکل بنادیا تاکہ لوگ اس کو عیسیٰ سمجھ کر قتل کریں اور ہمیشہ کے لیے اشتباہ اور التباس میں پڑجائیں۔ یہ دوسرا ترجمہ پہلے ترجمہ کے مغائر نہیں بلکہ اسی شبہ اور اشتباہ کی توضیح اور تفسیر ہے کہ شبہ میں دوسرے شخص کو عیسیٰ سمجھ کر سولی دیدی اور ان کو ایسا ہی معلوم ہوا کہ ہم عیسیٰ کو سولی دے رہے یعنی اس صورت وشباہت سے وہ اشتباہ اور التباس میں پڑگئے کہ اللہ نے عیسیٰ کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور حاضرین میں سے ایک شخص پر ان کی شباہت ڈال دی گئی اور لوگوں نے اس ہم شکل کو عیسیٰ سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا اور یہ ان کے شبہ اور اشتباہ کا سبب بنا اور اسی وجہ سے وہ اختلاف میں پڑگئے۔ تفسیر دیگر) ۔ اور بعض علماء تفسیر اس طرف گئے ہیں کہ شبہ کی ضمیر عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ کردیے گئے مگر ان کی شبیہ اور ان کی مثال ان کے سامنے کردی گئی دیکھو حاشیہ عقیدۃ الاسلام ص 178۔ جیسا کہ حدیث میں ہے رایت الجنۃ والنار مثلتین فی قبلۃ الجدار۔ دیکھو حاشیہ عقید الاسلام ص 179۔ یا یوں کہو کہ مطلب یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے لیے مشتبہ بنادیے گئے حتی کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ پہچان سکے اور اس اشتباہ میں دوسرے کو عیسیٰ سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا۔ غرض یہ کہ ظاہر قرآن سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو قتل اور صلب سے محفوظ رہے اور ان کے شبہ اور اشتباہ میں کسی دوسرے شخص کو ان کے ہم شکل سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا گیا اور یہی حق ہے اور چاروں انجیلیں بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ (1) ۔ اس لیے کہ چاروں انجیلوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شخص مصلوب نے اس وقت یہود سے پانی مانگا تو یہود نے اس کو ایک نہایت کڑوا سرکہ لا کردیا جس کو وہ پی نہ سکا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مصلوب حضرت مسیح نہ تھے اس لیے کہ حضرت مسیح تو چالیس دن ورات کا صوم وصال رکھتے تھے ان کو اپنے دشمنوں سے ذلت نیاز مندی کے ساتھ پانی مانگنے کی کیا حاجت تھی معلوم ہوا کہ جس پانی مانگنے والے کو سولی دید گئی وہ عیسیٰ کے علاوہ کوئی دوسراشخص تھا جو ان کے ہم صورت اور ہمشکل ہونے کی وجہ سے سولی پر چڑھا دیا گیا دیکھو دلیل ثامن از کتاب الفارق ص 287) ۔ (2) ۔ نیز تورات سے یہ امرثابت ہے کہ شریر نیک کا فدیہ ہوتا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ شخص مصلوب حضرت مسیح کے علاوہ کوئی دوسراشخص تھا ورنہ لازم آئے گا کہ معاذ اللہ حضرت مسیح اشرار میں سے ہوں دیکھو دلیل ثامن عشر از فارق ص 290) ۔ (3) ۔ نیز حضرت مسیح نے یہودیوں کے درمیان نشوونما پائی حضرت مسیح دن رات ان کو وعظ کہتے اور ان سے مناظرے کرتے اور وہ آپ کی فصاحت وبلاغت اور حکمت وموعظت سے تعجب کرتے تھے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہود حضرت مسیح کو خوب جانتے پہچانتے تھے مگر صلیب کے وقت ان کو نہ پہچان پائے پس جس ذات کو تیس سال سے دیکھ رہے تھے اس کو نہ پہچاننا یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ من جانب اللہ کوئی اشتباہ پیش آیا کماقال تعالیٰ ولکن شبہ لھم۔ حضرات اہل علم الاجوبہ الفاخرہ از ص 76 تا 82 ملاحظہ کریں۔ (تنبیہ) ۔ سلف صالحین کا اس میں اختلاف ہے کہ جس شخص پر حضرت عیسیٰ کی شباہت ڈالی گئی وہ یہودی تھا جیسا کہ وہب بن منبہ سے منقول ہے کہ اور اسی کو امام ابن جریر نے اختیار کیا یا منافق عیسائی تھا یا حضرت عیسیٰ کا مخلص حواری تھا حافظ عماد الدین ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تفسیر ابن ابی حاتم میں باسناد صحیح عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا تھا کہ جس شخص پر میری شباہت ڈالی جائے گی وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 574 ج 1 اور تفسیر قرطبی ص 110 ج 4 اور سورة آل عمران اور اسی طرح مجاہد اور قتادہ اور سدی سے تفسیر ابن جریر ص 11 ج 6 میں مذکورہ کہ جس پر حضرت عیسیٰ کی شباہت ڈالی گئی وہ انکے حواریین میں سے تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص حضرت عیسیٰ کے مطع اور فرمانبرداروں میں سے تھا اور ابن عباس کی مفصل روایت تفسیر قرطبی اور تفسیر ابن کثیر میں مذکور ہے کہ جس کو ہم ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جب اللہ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان پر اٹھانے کا ارادہ کیا تو گھر میں ایک چشمہ تھا وہاں جا کر عیسیٰ نے غسل کیا اور غسل فرما کر باہر مجلس میں تشریف لائے جہاں بارہ حواری موجود تھے غالبا یہ غسل آسمان پر جانے کے لیے تھا جیسے مسجد میں آنے سے پہلے وضو کرتے ہیں۔ حواریوں کو دیکھ کر یہ ارشاد فرمایا بلاشبہ تم میں سے ایک شخص مجھ پر ایمان لانے کے بعد بارہ مرتبہ میرا کفر (انکار) کرے گا بعد ازاں یہ فرمایا کہ تم میں سے کون شخص اس پر راضی ہے کہ اس پر میری شباہت ڈال دی جائے اور وہ میری جگہ قتل ہو اور پھر وہ جنت میں میرا رفیق ہو یہ سنتے ہی ایک نوجوان کھڑا ہوگیا۔ اور اپنے آپ کو اس جاں نثاری کے لیے پیش کیا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بیٹھ جا اور پھر عیسیٰ نے اپنے اسی سابق کلام کا اعادہ فرمایا پھر وہی نوجوان کھڑا ہو اور عرض کیا کہ میں حاضر ہوں عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا تو ہی وہ شخص ہے اس کے فورا بعد اس نوجوان پر عیسیٰ (علیہ السلام) کی شباہت ڈال دی گئی اور عیسیٰ (علیہ السلام) مکان کے ایک روشن دان سے آسمان پر اٹھا لیے گئے بعد ازاں یہود کے پیادے عیسیٰ (علیہ السلام) کے پکڑنے کے لیے گھر میں داخل ہوئے اور اسی شبیہ کو عیسیٰ سمجھ کر گرفتار کرلیا اور قتل کرکے صلیب پر لٹکا دیا گیا اور ایک شخص نے بارہ مرتبہ عیسیٰ کا انکار کیا بعد ازاں لوگوں میں تین فرقتے ہوگئے ایک فرقہ نے تو یہ کہا کہ اللہ ہمارے درمیان میں جب تک چاہا رہا پھر وہ آسمان پر چڑھ گیا اس فرقہ کو یعقوبیہ کہتے ہیں دوسرے فرقہ نے یہ کہا کہ اللہ کا بیٹا ہمارے درمیان تھا پھر جب تک چاہا رہا پھر اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اس فرقہ کو نسطوریہ کہا جاتا ہے تیسرے فرقہ نے کہا کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے برگزیدہ بندہ اور رسول تھے جب تک اللہ نے چاہا ہمارے درمیان رہے پھر اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا یہ لوگ مسلمان تھے اول کے دو کافروں فرقوں نے اس مسلمان فرقہ پر چڑھائی کرکے اس کو قتل کردیا اس دن سے اسلام یعنی حق بےنام ونشان ہوگیا یہاں تک کہ اللہ نے محمد رسول اللہ کو بھیجا جنہوں نے آکر دنیا کو صحیح حقیقت بتائی کہ حضرت عیسیٰ مقتول ومصلوب نہیں ہوئے بلکہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ابن عباس تک روایت کی سند نہایت صحیح ہے اور اسی طرح نسائی نے بھی روایت کیا ہے اور اسی طرح بہت سے سلف نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہ فرمایا کہ جس پر میری شباہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلہ میں قتل ہو تو وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا۔ بہر حال جس پر بھی حضرت عیسیٰ کی شباہت ڈالی گئی خواہ وہ یہودی ہو یا حواری تھا اس بات پر تمام روایات متفق ہیں کہ عیسیٰ قتل اور صلب سے بالکل محفوظ رہے اور یہود نے کسی اور شخص کو عیسیٰ سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا جس نے یہود ونصاری سب کو شبہ اور اشتباہ میں ڈال دیا اور ان کے باہمی اختلاف کا سبب بن گیا اور وہ اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت اور اس کی حکمت تھی کماقال تعالی، ولکن شبہ لھم، وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ۔ آیت۔ مسیلمہ قادیان کا ہذیان۔ یہود اور نصاری اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو سولی دے کر ماردیا گیا بعد میں ان میں اختلاف ہوا کہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہوئے یا نہیں سو یہود کا قول ہے کہ وہ زندہ نہیں ہوئے اور نصاری کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہوئے اور آسمان پر چلے گئے۔ اور اس چودھویں صدی کا مسیلمہ پنجاب یعنی متنبی قادیان یہ کہتا ہے کہ عیسیٰ قتل تو نہیں ہوئے مگر سولی ضرور دیے گئے جب وہ بےہوش ہوگئے تو یہود نے ان کو مردہ سمجھ کر قبر میں دفن کردیا جب قبر میں ان کو ہوش آیا تو وہ قبر سے خفیہ طور پر نکلے اور ریاست کشمیر کے مشہور شہر سری نگر میں جاکرقیام کیا اور خفیہ طور پر اپنے زخموں کا علاج کراتے رہے اور ستاسی سال زندہ رہ کر فوت ہوئے اور ہیں محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور واہی ان کا مزار ہے یہ سب مزرائے قادیان کی بکواس ہے جس پر کسی ققسم کی کوئی دلیل نہیں دیوانہ گفت ابلہ باور کرد۔ کا مصداق ہے مرزائے قادیان کے قول کی بناء پر آیت اس طرح ہونی چاہیے تھی وماقتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الی کشمیر۔ اللہ جل شانہ نے ان آیات میں یہود ونصاری دونوں ہی کا رد فرمایا اور اگرچہ دونوں کے رد کے لیے صرف وماقتلوہ کافی تھا مگر علام الغیوب نے اس کے ساتھ وماصلبوہ بھی بڑھادیا یعنی دشمن حضرت مسیح کو سولی پر بھی نہیں چڑھا سکے جس سے یہود ونصاری کا نہایت بلیغ طریقہ سے رد ہوگیا یعنی قتل تو درکنار انکو تو سولی بھی نہیں دی گئی جس کے وہ مدعی ہیں اور جس کو سولی دی گئی وہ حضرت مسیح کا شبیہ اور مثیل تھا۔ اور یہود ونصاری کے رد کے ساتھ قادیانی فرقہ کا بھی رد ہوگیا جو اس بارے میں ان کا مقلد تھا اور اللہ نے قتل اور صلب کی علیحدہ علیحدہ نفی فرمادی تاکہ ان کی حیات اور سلامتی اور محفوظیت میں کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قتل اور صلب سے بالکل محفوظ رہے اور قادیان کے دہقان یہ کہتے ہیں کہ مسیح بن مریم صلیب سے نجات پاکر خفیہ طور پر کشمیر چلے آئے شاید مرزا صاحب کے نزدیک اس زمانہ میں کشمیر بیت المقدس سے زیادہ متبرک ہوگا حیرت کا مقام ہے کہ قرآن کریم نے جس زمین کے متعلق الی الارض التی بارکنا فیھا فرمایا ہو اور جو زمین انبیاء بنی اسرائیل کامولد اور مسکن ہو اور جس زمین میں ان کا قبلہ ہو یعنی مسجد اقصی ہو حضرت عیسیٰ اس مبارک زمین کو چھوڑ کر سرزمین کشمیر کی طرف ہجرت فرمائیں جہاں اس وقت سوائے شرک اور بت پرستی کے خدا پرستی کا نام ونشان نہ ہو اور پھر ہجرت فرمانے کے بعد حضرت عیسیٰ اپنی تمام زندگی خاموشی اور گمنامی میں گذار دیں اور کشمیر پہنچ کر کسی کو توحید کی دعوت نہ دیں اور نہ کسی کو قیامت سے ڈرائیں اور نہ کسی کو خدا کی عبادت کی تعلیم فرمائیں اسی طرح خاموشی میں زندگی بسر کرکے شہر سری نگر میں انتقال فرماجائیں اور محلہ خان یار میں اس طرح دفن ہوجائیں کہ سوائے مرزا قادیان کے روئے زمین پر کسی کو اس کا علم نہ ہو، لاحول ولاقوۃ الا باللہ العظیم۔ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم۔ اللہ جل شانہ نے اس آیت میں خبر دی کہ اہل کتاب حضرت عیسیٰ کے قتل اور صلیب کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ یہ قرآن کریم کی شہادت ہے جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ سچی شہادت ہے۔ نصاری کے متعدد فرقے اس کے قائل ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول ومصلوب نہیں ہوئے بلکہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے جیسا کہ تواریخ میں مذکور ہے اور پادری سیل نے بھی اپنے ترجمہ میں سورة آل عمران میں ان بعض فرقوں کا ذکر کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح مقتول ومصلوب نہیں ہوئے اور یہ بتلایا ہے کہ محمد رسول اللہ سے بہت مدت پہلے عیسائیوں کے بہت سے فرقوں کا یہی اعتقاد تھا کہ عیسیٰ مقتول ومصولب نہیں ہوئے چناچہ فرقہ بےسی ڈین اور فرقہ سیر نہ تھیں اور فرقہ کارپار کر پشن جو سب کے سب نبی ﷺ سے پہلے گذرے ہیں ان سب کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ مصلوب نہیں ہوئے بلکہ ایک دوسر اشخص جو آپ کے ہم شکل تھا وہ صلیب دیا گیا ختم ہوا خلاصہ کلام جارج سیل کا۔ معلوم ہوا کہ واقعہ صلیب نصار کے نزدیک متفق علیہ نہیں بلکہ نصاری کے بہت سے قدیم فرقوں کا مذہب یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ مقتول مصلوب نہیں ہوئے جیسا کہ قرآن کریم نے خبر دی ہے۔ مولانا سید ابومنصور امام فن مناظرہ نوید جاوید ص 382 میں لکھتے ہیں اور قرآن مجید کے اس ترجمہ میں جس پر عیسائی علماء نے اپنے طور کا حاشیہ لکھا اور پرہیز بیٹرین مشن پریس الہ آباد میں 1844 کو چھپایا۔ ترجمہ آل عمران آیت 53 کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ زمانہ اسلام سے آگے عیسائیوں میں باسیلیدی ایک فرقہ تھا جو خیال کرے تھے کہ آپ مسیح آپ مصلوب نہ ہوا پر شمعون قرینی جو صلیب اٹھا کر چل رہا تھا اس کے عوض پکڑا گیا اور مصلوب بھی ہوا پھر سر نہ تھی اور کارپوک راتی اور دوسیتی تین فرقے تھے جو زمانہ اسلام سے پیشتر یہی خیال رکھتے تھے انتہی وتم کلامہ نوید جاوید۔ ص 382) گناستی فرقہ کے عیسائیوں کا یہ قول تھا کہ دنیا مادہ سے پیدا ہوئی اور مادہ کے لیے شرارت اور معصیت ضرور ہے اور مسیح مادہ سے پیدا نہیں ہوا تھا اس لیے مصلوب نہیں ہوسکا کیونکہ اس کا جسم نہ تھا چناچہ تعلیم الایمان چھاپہ لدھیانہ 1869 ص 236 لکھتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں ایک فرقہ نے یہ گمان کیا کہ مسیح کا حقیقی جسم نہ تھا اور نہ وہ پیدا ہوا نہ اس نے دکھ اٹھایا پر اس کا جسم ایک مجازی طور پر تھا جیسا کہ فرشتے اکثر اوقات انسانیت کو اختیار کرلیتے تھے یا جیسا کہ روح کبوتر کی مانند اتری تھی چناچہ محمد ﷺ نے بھی اسی تعلیم کو اختیار کرکے اپنے تابعین کو تلقین کی کہ مسیح خود نہیں مارا گیا انتہ اور دیکھو رومن تواریخ کلیسا چھاپہ مرزا پور 1856 ص 96 دین حق کی تحقیق مصنفہ پادری اسمتھ صاحب وغیرہ مطبوعہ الہ آباد ارفن پریس ص 88 میں لکھا ہے کہ عیسیٰ مسیح کا احوال کس طرح وہ ہندو لے میں بولا مٹی کی چڑیاں بنائیں اور یہودیوں کو بندر بنایا اور یہ کہ نہیں مارا گیا بلکہ دوسرا اس کے عوض مصلوب ہوا یہ باتیں اس نے یعنی محمد رسول اللہ نے ناصریوں کے قصے سے نکالیں جن کو دو تین شخصوں نے مسیح کو چار یا پانچ سو برس بعد بنایا تھا انتہی۔ اور برنباس کی انجیل میں مسیح نے اپنی مصلوبی کا بطلان صاف بیان کردیا یہ کہتے ہوئے کہ میں صلیب پر کھینچا گیا پر یہ ساری ہتک اور ہنسائی محمد رسول اللہ کے آنے تک رہے گی جب وہ دنیا میں آئے گا تو ہر ایک ایمان دار کو اس غلطی سے آگاہ کردے گا اور یہ دھوکہ لوگوں کے دل سے اٹھا دے گا انتہی ترجمہ قرآن شریف مصنفہ سیل صاحب صفحہ 43، انتہ دیکھو (نوید جاوید ص 383) اور دیکھو دلیل ثانی عشر از کتاب الفارق ص 289) ۔ پس ان عبارات سے یہ امر بخوبی واضح ہوگیا کہ اسلام سے پیشتر نصاری کے متعدد فرقے اسی بات کے قائل تھے جو قرآن کریم نے خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب اسی بناء پر بہت سے محققین علماء نصاری اس طرف گئے ہیں کہ عقیدہ صلیب اور کفارہ اور الوہیت یہ سب پولوس کی اختراع ہے حواریین اور متقدمین نصاری اس کے قائل نہ تھے دیکھو الدلیل الحادی عشر من کتاب الفارق ص 288) ۔ شک اور اختلاف کے متعلق حضرت مسیح کی پیشین گوئی۔ انجیل مرقس ومتی ولوقا ویوحنا اور ان کی تفاسیر میں یہ مذکور ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب حواریین کے ساتھ جبل زیتون کی طرف گئے تو شاگردوں سے یہ فرمایا (تم سب اس رات میرے بارے میں شک کرو گے) ناظرین غور فرمائیں کہ چاروں انجیلوں میں حضرت مسیح کا یہ لفظ کلکم تشکون بی قرآن کریم کے اس ارشاد وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الاتباع اظن۔ آیت۔ کے حرف بحرف اور لفظ بلفظ مطابق ہے دیکھو دلیل عاشر از کتاب الفارق ص 288 اور الجواب الفسیح لمالفقہ عبدالمسیح ص 470 اور اجوبہ فاخرہ از ص 79 تا ص 82) ۔ وماقتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ۔ اور یہودیوں نے بالقین حضرت عیسیٰ کو نہیں قتل کیا بلکہ یقین بات یہ ہے کہ جس زندہ شخصیت کو وہ قتل کرکے اس کی حیات کو ختم کرنا چاہیے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کو زندہ اور صحیح سالم اپنی طرف اٹھا لیا تاکہ قتل اور صلب کا امکان ہی ختم ہوجائے اس لیے کہ قتل وصلب تو جب ہی ممکن ہے کہ وہ جسم ان کے اندر موجود رہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اس جسم ہی کو اپنی طرف اٹھا لیا تو قتل اور صلب کا امکان ہی ختم ہوا معلوم ہوا کہ آیت میں رفع سے اسی جسم کارفع مراد ہے جس کو قتل کرنا چاہتے تھے آیت میں نہ روح کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ روح کے قتل وصلب کا کوئی مسئلہ ہے جس کی طرف رفعہ کی ضمیر راجع ہوسکے لفظ بل کلام عرب میں اضراب اور ابطال کے لیے آتا ہے یعنی مضمون سابق کی نفی کرکے اس کے منافی اور مقابل مضمون کو ثابت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ رفع قتل کے جب ہی منافی ہوسکتا ہے جب رفع سے جسم کا زندہ اور صحیح سالم اٹھانا مراد لیاجائے ورنہ رفع روح یا رفع روحانی بمعنی بلندی رتبہ قتل کے منافی نہیں جو شخص بھی خدا کی راہ میں ماراجائے گا اس کا مرتبہ ضرور بلند ہوگا پس رفع کے معنی بلندی رتبہ کے لینا کسی طرح بھی قتل کے منافی نہیں اور لفظ بل یہ بتلارہا ہے کہ یہاں رفع سراسر قتل کے منافی ہے لہذا قطعا ثابت ہوگیا کہ رفعہ میں رفع سے حضرت عیسیٰ کا جسم عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہے نیز یہودی جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے اللہ نے اولا جسم کے قتل اور صلب کی نفی فرمائی اور وماقتلوہ وماصلبوہ فرمایا اور پھر اسی جسم کے لیے رفع ثابت فرمایا بل رفعہ اللہ الیہ معلوم ہوا کہ جس جسم کا قتل اور صلب چاہتے تھے اسی جسم کو اللہ نے اپنی طرف صحیح سالم اٹھا لیا اور ظاہر ہے کہ قتل اور صلب جسم ہی کا ہوتا ہے نہ کہ روح کا اس لیے کہ روح کا قتل اور صلب ناممکن ہے معلوم ہوا کہ بل رفعہ اللہ میں جسم ہی کارفع مراد ہے۔ نیز رفع کے اصل معنی اٹھانے اور بلند کرنے اور اوپر لے جانے کے ہیں اس میں نہ جسم کی خصوصیت ہے اور نہ روح کی رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق کوئی جسمانی شی ہوگی تو اس جگہ یقیناً رفع جسمانی مراد ہوگا کما قال تعالیٰ ورفعنا فوقکم الطور۔ آیت۔ اٹھایا ہم نے تم پر کوہ طور اللہ الذی رفع السماوات بغیر عمد ترونھا۔ اللہ ہی نے بلند کیا آسمانوں کو بغیر ستون کے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت اسمعیل۔ آیت۔ یاد کرو اس وقت کو کہ جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھار ہے تھے اور اسماعیل ان کے ساتھ تھے ورفع ابویہ علی العرش یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو تخت کے اوپر اٹھایا اور ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام میں مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور رفعنالک ذکرک ہم نے آپ کا نام بلند کیا اور رفعنا بعضھم فوق بعض درجات۔ ہم نے بعض کو بعض پر درجہ اور مرتبہ کے اعتبار سے بلند کیا۔ اس قسم کے مواضع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے اس لیے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید مذکور ہے اور ایک حدیث میں ہے، اذا تواضع العبد رفعہ اللہ الی السماء السابعۃ رواہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق۔ (بندہ جب اللہ کے لیے تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ساتویں آسمان تک اٹھا لیتے ہیں) اس حدیث میں قرینہ کی بناء پر رفع معنوی مراد لیا گیا ہے اس لیے کہ ظاہر ہے کہ تواضع سے انسانی جسمانی طور پر آسمان پر نہیں اٹھالیا جاتا اور قرینہ کی بناء پر اگر کسی لفظ کے معنی مجازی ہی مراد لیے جائیں تو اس سے لازم نہیں آتا کہ جب کبھی یہ لفظ بولاجائے گا تو معنی مجازی ہی مراد ہوں گے ہی تو بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ لفظ اسد کے معنی شیر کے نہیں بلکہ بہادر آدمی کے ہیں اور مثال میں یہ مقولہ پیش کرے رایت اسدا یرمی کہ میں نے ایک شیر کو تیر چلاتے دیکھا تو کیا اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ لفظ اسد کے حقیقی معنی شیر کے نہیں اور یہ لفظ ہمیشہ بہادر ہی کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اسی طرح اگر لفظ رفع کسی جگہ کسی قرینہ کی بناء پر رفع درجات کے معنی میں مستعمل ہوجائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ لفظ رفع کبھی رفع جسمانی کے لیے مستعمل نہیں ہوتا مزید تفصیل کے لیے اس ناچیز کارسالہ کلمۃ اللہ فی حیات روح اللہ مطالعہ کریں۔ ایک شبہ) ۔ رفعہ اللہ الیہ میں خدا کی طرف اٹھانا مذکور ہے آسمان کا کوئی ذکر نہیں۔ ازالہ شبہ) ۔ جواب یہ ہے کہ خدا کی طرف اٹھانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ آسمان کی طرف اس کو اٹھایا گیا اس لیے کہ خدا کے لیے بےچون چگون فوقیت اور علویت ثابت ہے۔ نیز خود مرزائے قادیان نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے کیے ہیں لکھتا ہے قرآن کریم سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے فوت ہوجانے کے بعد ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ مرزا صاحب کی اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ رفع سے تو آسمان پر ہی اٹھایا جانا مراد ہے لیکن اختلاف اس میں ہے کہ آسمان پر روح کا اٹھایاجانا مراد ہے یا جسم مع الروح کا اور ہم یہ پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ آیت میں رفع جسم مراد ہے۔ نیز مرزا صاحب لکھتے ہیں الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ۔ (یعنی پاک روحیں خدا کی طرف صعود کرتی ہیں اور اعمل صالح ان کارفع کرتا ہے۔ اس جگہ بھی مرزاصاحب نے پاک روحوں کے صعود سے آسمان ہی کی طرف جانا مراد لیا ہے۔ مرزائے قادیان کا ھذیان) ۔ مرزائے قادیان یہ کہتا ہے کہ رفع کے معنی عزت کے موت دینا ہے یا مرنے کے بعد روحانی طور پر بہشت میں داخل ہونا مراد ہے۔ جواب) ۔ یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں جیسا کہ تمام لغت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے اور عزت کے موت یہ رفع کے معنی نہیں یہ مرزا صاحب کی گھڑت ہے نیز احادیث میں نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کی خبر دی گئی ہے اور اس نزول کو بمقابلہ ان کے مرفوع ہونے کے بیان کیا گیا ہے جیسا کہ سیاق احادیث سے ظاہر ہے پس جب دونوں لفظ اس حیثیت سے متقابل ٹھہرے تو یقیناً جو ایک لفظ معنی ہوں گے دوسرے لفظ میں اس کا مقابل مراد ہوگا پس اگر رفع سے مع الجسم آسمان پر اٹھایاجانا مراد لیاجائے تو نزول سے مع الجسم زمین پر اترنا ہوگا جس میں نہ تقابلہ فوت ہو اور نہ کوئی خرابی لازم آئی اور اگر بقول منکرین رفع جسمانی رفع سے عزت کی موت مراد لی جائے تو نزول سے بقرینہ مقابلہ ذلت کے پیدائش مراد لینی چاہیے پس معنی حدیث نزول کے یہ ہوں گے کہ معاذ اللہ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) ذلت کے ساتھ پیدا ہوں گے اور اگر یہاں یہ معنی مراد نہ لیے جائیں تو مقابلہ فوت ہوجائے گا پس ثابت ہوا کہ رفع سے عزت کی موت کے معنی مراد لیناصحیح نہیں نیز بعض روایات میں ینزل من السماء کا لفظ آیا ہے اور صحیح مسلم میں ہے فینزل بین مھرودتین واضعا کفیہ علی اجنحۃ ملکین پس بقول منکرین نزول من السماء کی حدیث کے معنی یہ ہوں گے عیسیٰ بن مریم آسمان سے پیدا ہوں گے اور دو رنگین کپڑے پہنے ہوئے اور دو فرشتوں کے بازوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے اول تو یہ مطلب مہمل ہے پھر افسوس کہ مدعی مسیحت میں یہ صفت بھی نہیں پائی جاتی اور اپنے کو اس کا مصداق بتانا صریح جھوٹ ہے۔ وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ قبل موتہ۔ اس آیت کی تفسیر میں ہم دو قول نقل کرچکے ہیں جمہور کے نزدیک جو قول راجح ہے اس بناء پر اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کی خبر دی گئی ہے جو احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور تمام امت محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ اخیر زمانہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور جس طرح ان علامات قیامت پر ایمان لانا فرض ہے جو قرآن اور احادیث متواترہ سے ثابت ہیں اسی طرح نزول عیسیٰ پر بھی ایمان لانا فرض ہے اس لیے کہ نزول عیسیٰ (علیہ السلام) بھی قرآن کریم سے اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے انشاء اللہ تعالیٰ اگر اللہ کی توفیق ہوئی تو مسئلہ نزول کے متعلق احادیث کو وانہ لعلم للساعۃ کی تفسیر میں ہدیہ ناظرین کریں گے وماتوفیقی الاباللہ۔ ناچیز نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھ دیا ہے جس کا نام القول المحکم فی نزول سیدنا عیسیٰ بن مریم ناظرین رسالہ کا مطالعہ فرمائیں۔ (نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کی حکمت) ۔ کتب سابقہ میں دو مسیح کی آمد کی پین گوئی کی گئی تھی ایک مسیح ہدایت کی اور ایک مسیح ضلالت کی مسیح ہدایت کے مصداق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور مسیح ضلالت کا مصداق دجال اکبر ہے جو قوم یہود سے ہوگا اور بنی اسرائیل ان دوشخصیتوں کے منتظر تھے کہ کب ان کا ظہور ہوتا ہے جس وقت مسیح ہدایت یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کا ظہور ہوا تو یہود نے ان کو مسیح ضلالت سمجھا اور ان کے قتل کے درپے ہوئے اور اپنے زعم میں ان کو قتل کرڈالا اور نصاری نے مسیح ہدایت کو مانا تو سہی مگر ان کی تعظیم میں غلو کیا اور نبوت و رسالت کے مرتبہ سے بڑھا کر ان کو خدا اور خدا کا بیٹا مان لیا اور اخیر زمانہ میں جب دجال ظاہر ہوگا تو یہود اس کو مسیح ہدایت سمجھ کر اس کا اتباع کریں گے اور اس وقت مسیح ہدایت یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا آسمان سے تاکہ اہل کتاب کے دونوں گروہ یہود اور نصاری کی غلطی واضح ہوجائے یہود پر تو یہ واضح ہوجائے کہ جس مسیح ہدایت کو تم نے اپنے زعم میں قتل کردیا تھا وہ زندہ آسمان پر اٹھایا گیا اور اب زندہ آسمان سے نازل ہورہا ہے تاکہ مسیح ضلالت یعنی دجال کو قتل کرے اور تم جس مسیح کے قتل کی مدعی تھے تم اس کو قتل نہیں کرسکے تھے بلکہ اللہ نے اس وقت ان کو زندہ آسمان پر اٹھایا اور اب وہ زندہ آسمان سے یہودیوں کے سردار مسیح دجال کے قتل کے لیے نازل ہورہا ہے تاکہ یہود جب مسیح ہدایت کے ہاتھ سے مسیح ضلالت کا قتل دیکھیں گے تو اپنی گمراہی سے تائب ہوجائیں گے اور نصاری پر یہ واضح ہوجائے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بندے اور رسول برحق تھے معاذ اللہ خدا اور خدا کے بیٹے نہ تھے دیکھو الجواب الصحیح ص 341 ج 1، وص 181 ج 1 للحافظ ابن تیمیہ وفتح الباری ص 357 ج 6 باب نزول عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ اور اس بارے میں ناچیز کا مستقل رسالہ ہے جس کا نام لطائف الحکم فی اسرار نزول عیسیٰ بن مریم ہے جو چھپ چکا ہے اس کو دیکھ لیاجائے۔ (عقیدہ قتل وصلب میں یہود ونصاری کا فرق) ۔ یہود فخر کے ساتھ کہتے ہیں انا قتلنا المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ اور اس قتل کو حضرت مسیح کے لیے موجب لعنت سمجھتے ہیں اور انصاری یہود کی طرح قتل اور صلیب کے تو قائل ہیں مگر اس قتل اور صلب کو کفارۃ الذنوب سمجھتے ہیں، حق تعالیٰ نے اصل قتل اور صلب ہی کی نفی فرمادی کہ سرے ہی سے نہ قتل ہوا اور نہ صلب تاکہ جب اصل واقعہ ہی کی تردید کردی جائے تو یہود ونصاری کی یہ ذہنی اور خیالی تفریعات خود بخود ختم ہوجائیں گی اس لیے کہ قتل کو موجب لعنت سمجھنا یا موجب کفارہ سمجھنا یہ سب یہود ونصاری کے ذہنی خیالات اور فکری اور اختراعات ہیں جو سب کے سب وقوع قتل وصلب پر موقوف ہیں پس جب اصل ہی کی نفی ہوگئی اور ثابت ہوگیا کہ قتل کا سارا قصہ محض ایک افسانہ ہے تو اس فرضی اور افسانہ پر جو ذہنی تفریعات لگائی گئی ہیں اور وہ خود بخود ختم ہوجائے گی اس لیے کہ کاذب اور غلط پر جو تفریع قائم کی جائے گی اور وہ بھی کاذب اور غلط ہی ہوگی۔ قرآن کریم نے قتل وصلب کے بارے میں تو یہود اور نصاری دونوں ہی کی تردید کی مگر رفع الی السماء کے بارے میں نصاری کی تصدیق کی اور قتل وصلب کے نفی سے نصاری کا مسئلہ کفارہ بھی ختم ہوگیا جس کا بہت سے علماء نصاری کو بھی اقرار ہے کہ یہ مسئلہ کفارہ پولوس کی ایجاد اور اختراع ہے اور بہت سے علماء یہود اس بات کے معترف ہیں کہ پولوس نے قتل وصلب کا مسئلہ علماء یہود کے حکم سے یہودیت کی حمایت میں اختراع کیا اور منافقانہ طور پر اس کو دین نصاری کا ایک بنیادی عقیدہ بنا دیا دیکھو عقیدۃ الاسلام از ص 161 تا ص 166) ۔ آیت نساء اور آیت آل عمران کے سیاق میں فرق) ۔ سورة نساء کی آیات کا سیاق اہل کتاب کی تردید میں ہے اس لیے ان آیات میں نہایت تاکید کے ساتھ قتل وصلب کی نفی کی گئی اور رفع الی السماء کو ثابت کیا ہے اور حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر اہل کتاب کے ایمان لانے کو نہایت تاکید کے ساتھ بیان کیا بخلاف آل عمران کی آیتوں کے ان کا تمام سیاق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تسلی کے لیے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ کی تسلی کے لیے توفی اور رفع اور تطہیر اور غلبہ متبعین عیسیٰ وغیرہ وغیرہ کا ذکر فرمایا تاکہ یہود کے مکروفریب سے قلب پر جو خوف وہراس تھا وہ یکلخت دور ہوجائے اور یہ تمام امور جب ہی باعث تسلی ہوسکتے ہیں کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ اور صحیح وسالم آسمان پر اٹھائے جائیں اگر سورة آل عمران میں توفی سے وفات بمعنی موت مراد ہوتی ہے تو اس سے حضرت عیسیٰ کو تو تسلی نہ ہوتی بلکہ یہود کو تسلی اور بشارت ہوجاتی کہ تم بےفکر رہو کہ قتل سے جو تمہارا مقصود ہے وہ ضرور حاصل ہوجائے گا دیکھو عقیدہ الاسلام۔ ص 169، پس آل عمران میں تو فی کا ذکر حضرت عیسیٰ کی تسلی کے لیے ہے کہ اے عیسیٰ میں تم کو پورا پورا لے لوں گا۔ اور آیات نساء کا سیاق تسلی کے لیے نہیں بلکہ یہود ونصاری کے قول کی تردید کے لیے اس لیے ہے کہ سورة نساء میں قتل اور صلب کی نفی کی اور رفع الی السماء کو ثابت کیا اور توفی سے کوئی تعرض نہ کیا نیز آل عمران میں حضرت عیسیٰ کی تسلی کے لیے رفع الی السماء کا وعدہ فرمایا کماقال تعالیٰ ورافعک الی، اور سورة نساء میں سابق وعدہ رفع الی السماء کے ایفاء کا ذکر ہے بل رفعہ اللہ الیہ کہ اللہ نے رفع کا وعدہ پورا کردیا۔ اور سورة مائدہ کے اخیر میں فقط تو فی کا ذکر فرمایا وکنت علیھم شہیدا مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم۔ آیت۔ اس لیے کہ سورة مائدہ میں بنی اسرائیل کے خلاف حضرت عیسیٰ کی شہادت کا ذکر ہے اس لیے وہاں فقط تو فی کا ذکر فرمایا کہ تو فی کے بعد کا حال مجھ کو معلوم نہیں کہ جس کی میں گواہی دیسکوں اور اس جگہ قتل اور صلب کی نفی کا کوئی ذکر نہیں فرمایا صرف توفی کا ذکر فرمایا کہ جو مانع شہادت تھی اس لیے سیاق شہادت میں صرف مانع شہادت کو ذکر فرمایا دیکھو عقیدۃ الاسلام ص 191۔ (خلاصہ کلام) ۔ یہ کہ سورة آل عمران اور سورة نساء کی آیات میں امور ذیل کا بغیر کسی ایہام کے نہایت واضح الفاظ میں یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قتل اور صلب سے بالکلیہ محفوظ رہے اور اسی جسم عنصری کے ساتھ صحیح سالم زندہ آسمان پر اٹھائے گئے عہد صحابہ وتابعین سے لے کر چودہ صدی کے علماء مفسرین نے ان آیات کا یہی مطلب بیان کیا ہے جو ہم نے ہدیہ ناظرین کیا ہے اس کے خلاف جو تفسیر ہے وہ تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے۔ (تنبیہ) ۔ اس مقام پر تین چیزیں ہیں اول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دشمنوں کے قتل اور صلب سے بالکلیہ محفوظ رہنا دوم مسیح (علیہ السلام) کا زندہ مع جسم کے آسمان پر اٹھایاجانا سوم ان کا دوبارہ دنیا میں آسمان سے نازل ہونا امر اول اور امر دوم کا نہایت صراحت اور وضاحت کے ساتھ آیات قرآنیہ میں بیان ہوا ہے اور امر سوم کا قرآن کریم کی متعدد آیات میں اجمالا بیان ہوا ہے مگر احادیث صحیحہ اور صریحہ جو حد تواتر کو پہنچی ہیں ان میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا نزول اس درجہ تفصیل اور توضیح کے ساتھ مذکور ہے کہ ان میں ذرہ برابر کسی تاویل اور تحریف کی گنجائش نہیں۔ حیات عیسیٰ ونزول عیسیٰ (علیہ السلام) مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے۔ جاننا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے اور پھر قیامت کے قریب آسمان سے دنیا میں نازل ہونے کا عقیدہ تمام اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے جو آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ اور صحابہ وتابعین کے وقت سے لے کر آج تک تمام علماء امت اس پر متفق چلے آئے ہیں اس اجمالی عقیدہ کا انکار سب سے پہلے سرسید علی گڈھی نے کیا اور پھر اس کی تقلید میں مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا اور وفات مسیح کو اپنی صداقت کا معیار قرار دیا حالانکہ بفرض محال اگر تھوڑی دیر کے لیے حضرت مسیح کی وفات کو مان بھی لیاجائے تو اس سے مرزائے قادیان کی نبوت کیسے ثابت ہوسکتی ہے۔ مان لو کہ ایک بادشاہ مرگیا اور اس کا تخت بھی خالی ہے اور بادشاہت کا سلسلہ بھی بند نہیں ہوا تو کیا اس سے کسی بھنگی یا چمار کی بادشاہت ثابت ہوسکتی ہے جس میں نہ کسی قسم کی قابلیت ہے اور نہ کوئی لیاقت بلکہ اس میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو منصب بادشاہی کے بالکل مباین اور مخالف ہیں۔ کس نیاید بزید سایہ بوم، درہما از جہاں شود معدوم۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ جب کسی مرزائی شخص سے بحث کا موقع آجائے تو یہ کہہ دے کہ حیات اور فات کی بحث کو علماء پر چھوڑ مرزا میں اوصاف نبوت کو ثابت کرو خود مرزا کو اپنے مراق اور خرابی حافظ کا اقرار کیا ہے کیا معاذ اللہ خبطی اور مراقی بھی نبی ہوسکتا ہے اور علماء اسلام نے کتابوں میں مرزا کے جھوٹ نقل کیے ہیں کیا جھوٹا بھی نبی ہوسکتا ہے دعوائے نبوت سے پہلے خود مرزائے قادیان کا یہی عقیدہ تھا چناچہ مرزا صاھب اپنی الہامی کتاب میں لکھتے ہیں اور جب مسیح (علیہ السلام) دوبارہ اس دنیا میں تشریف لاویں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا براہین احمدیہ ص 498، وص 499 مصنفہ مرزاصاحب اور مرزائے قادیان لکھتا ہے اس بات پر تمام سلف وخلف کا اتفاق ہوچکا ہے کہ عیسیٰ جب نازل ہوگا تو امت محمدیہ میں داخل ہوگا (ازالہ الاوھام ص 569 ج 2 سطر 6) ۔
Top