Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
(قانون میراث) یعنی تفصیل حصص میراث۔ ربط) اوپر کی آیتوں میں اجمالی طور پر استحقاق میراث کا بیان تھا کہ میت کے اقارب خواہ مرد ہوں یا عورت بالغ ہوں یا نابالغ سب وارث ہیں اور ترکہ میں سب کا حق ہے اب ان آیات میں حصوں کی تفصیل بیان فرماتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں ارث کے تین سبب تھے (اول نسب) مگر نسب کی رو سے صرف ان مردوں کو حصہ ملتا تھا کہ جو قبیلہ کی طرف سے دشمنوں سے جنگ کی قابلیت رکھتے ہوں لڑکوں اور عورتوں اور ضعیفوں کو میراث کا مستحق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دوم) تبنی یعنی کسی کو اپنا متبنی بنالینا یعنی بیٹا بنا لینا مرنے کے بعد وہ متبنی اس کی میراث کا حق دار ہوتا تھا جیسا کہ ہندوؤں میں اس کارواج ہے (تیسرا) عہد وحلت، عہد کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے یہ کہتا کہ میرا خون تیرا خون ہے میری جان تیری جان ہے میرے خون کارائگاں جانا تیرے خون کارائیگاں جانا ہے میں تیرا وارث اور تو میرا وارث میرے بدلے تو پکڑا جائے گا اور تیرے بدلے میں پکڑا جاؤں گا جب وہ دونوں شخص اس طرح کا باہم عہد کرلیتے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوتے جو پہلے مرجاتا دوسرا اس کا وارث ہوتا۔ شروع اسلام میں توارث کے دو سبب تھے ایک ہجرت اور دوسرا مواخاۃ اسلامی بھائی چارہ یعنی جب کوئی صحابی ہجرت کرکے آتا تھا تو دوسرا مہاجر ہی اس کا وارث ہوتا اگرچہ وہ اس کا رشتہ دار نہ ہو اور غیر مہاجر مہاجر کا وارث نہیں ہوتا اگرچہ وہ اس کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور مواخاۃ کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دو دو مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے مگر بعد میں اسلام نے زمانہ جاہلیت اور شروع زمانہ اسلام کے طریق توارث کو منسوخ کردیا اور توریث کا دارومدار تین چیزوں پر رکھا۔ اول نسب۔ یعنی اولاد اور والدین۔ دوم۔ نکاح یعنی خاوند اور بیوی بوجہ نکاح کے ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔ تیسرے۔ ولاء یعنی باندی غلام کی آزادی جس کی بنا پر آقا اپنے آزاد کردہ غلاموں اور باندیوں کا اور آزاد شدہ غلام اور باندی اپنے آزاد کرنے والے آقا کی میراث کے وارث ہیں۔ (حصہ اولاد) ۔ شان نزول۔ ابن ابی شیبہ، احمد، ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہم نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ سود بن ربیع کی بیوی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ سعد بن ربیع کی دو لڑکیاں ہیں اور ان کا باپ حضور کے ہمراہ جنگ احد میں شہید ہوگیا اور ان کا جو مال تھا وہ کل ان کے چچا نے لے لیا ہے اور بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا اور بغیر مال کے ان کا نکاح نہیں ہوسکتا آپ نے فرمایا کہ اللہ ان کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا اس پر میراث کی یہ آیت یوصیکم اللہ نازل ہوئی اس کے نازل ہونے کے بعد آپ نے ان لڑکیوں کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر کہلا بھیجا کہ سعد کے ترکہ میں سے اس کی لڑکیوں کو تہائی دے دو اور اس کی بیوی کو آٹھواں حصہ اور باقی تیرا ہے علماء فرماتے ہیں کہ یہ سب سے پہلا ترکہ ہے جو اسلام میں تقسیم کیا گیا چناچہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ تم کو وصیت کرتا ہے یعنی تاکیدی حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں وہ یہ کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصہ کے برابر ہے پس اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں دو سے زائد تو ان لڑکیوں کو اس مال میں کا دو تہائی ملے گا جو مورث چھوڑ کر مرا ہے یعنی اگر میت کی اولاد ذکور نہ ہونری لڑکیاں ہی ہوں اور ہوں دو سے زیادہ تو اس صورت میں ان کا حق اس ترکہ میں سے کل مال کادوتہارئی ہے باقی ایک تہائی دوسرے وارثوں کا حق ہے۔ ّ (ف) ۔ جاننا چاہیے کہ اللہ نے اس آیت میں دو سے زائد لڑکیوں کا حصہ بیان فرمایا اور دو لڑکیوں کا حصہ صراحتہ بیان نہیں فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ آیت، للذکر مثل حظ الانثین۔ آیت۔ سے معلوم ہوچکا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کی برابر ہے یعنی دو تہائی ہے تو لامحالہ اس سے ثابت ہوگیا کہ دو لڑکیوں کا حصہ دو تہائی ہے نیز جب ایک لڑکے کی موجودگی میں لڑکی کا تہائی حصہ ہے تو دوسری لڑکی کی موجودگی میں بدرجہ اولی اس کا حصہ تہائی ہونا چاہیے کیونکہ لڑکا بہ نسبت لڑکی کے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔ نیز اس آیت میں شان نزول میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ نے سعد بن الربیع کی دو لڑکیوں کو اس کے ترکہ میں دو تہائی دینے کا حکم دیا۔ نیز اللہ نے اس آیت میں ایک لڑکی کا اور تین اور تین سے زائد لڑکیوں کا حکم بیان فرمایا اور دو لڑکیوں کا صراحتا کوئی حکم بیان نہیں فرمایا اور بہنوں کی میراث میں دو بہنوں کا دو تہائی حصہ بیان فرمایا، ان امرو ھلک لیس۔۔۔۔ الی۔۔۔ مماترک۔ آیت۔ پس جب دو بہنوں کا حصہ دو تہائی ہے تو دو لڑکیوں کا حصہ بدرجہ اولی دو تہائی ہونا چاہیے کہ کیونکہ لڑکیاں بہ نسبت بہنوں کے زیادہ قریب ہیں غرض یہ کہ دو لڑکیوں کو دو تہائی ملنا پہلی آیت سے معلوم ہوچکا تھا اب شبہ یہ تھا کہ اگر کسی کے تین لڑکیاں ہوں تو شاید ان تین لڑکیوں کو تین تہائی یعنی کل مال مل جائے تو اللہ نے اس آیت میں یہ بتلا دیا گیا کہ اگر لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی سے نہ بڑے گا اور اگر میت کے ایک ہی لڑکی ہو تو اس کو کل مال میں سے نصف مال مل گا اور نصف باقی دوسرے وارثوں کا حق ہے۔ (نکتہ) ۔ مرد کا حصہ عورتوں کے حصہ سے دو چند اس لیے قرار دیا گیا کہ مرد بہ نسبت عورت کے مال کا زیادہ حاجت مند ہے گھر کا تمام خرچ اس کے ذمہ ہے حتی کہ بیوی کا خرچ بھی اس کے ذمہ ہے۔ (نکتہ 2) ۔ اللہ جل شانہ نے عنوان تعبیر یہ اختیار فرمایا، للذکر مثل حظ الانثیین۔ آیت۔ یعنی مرد کا حصہ دوعورتوں کی برابر ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ دوعورتوں کا حصہ ایک مرد کے حصہ کے برابر ہے یا عورت کا حصہ مرد کے حصہ سے نصف ہے اس طرح بیان کے اختیار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کی رسم عدم توریث نسوان کا پوری طرح ابطال ہوجائے کیونکہ یہ طرز بیان اس طرف مشیر ہے کہ عورت کی میراث مقرر معلوم ہے اور مرد کی میراث اس سے دو چند ہے لہذا مرد اپنی میراث کو عورت کی میراث سے دو چند سمجھ کر اللہ کا شکر کرے کہ اس نے مجھ کو فضیلت دی اور یہ طمع نہ کرے کہ عورت کو بالکل میراث سے محروم کرے یہ اس کے لیے کافی ہے کہ اس کا حصہ عورت سے دو چند ہے۔ حصہ والدین۔ اور میت کے ماں باپ کے لیے ترکہ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ہے اگر میت کے کچھ اولاد ہے خواہ مذکر ہو یا مونث پس اگر میت کے کچھ اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس صورت میں پورے مال میں سے اس کی ماں کا تہائی حصہ ہے اور باقی دو تہائی باپ کا پس اگر میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو پھر اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے جاننا چاہے کہ ماں باپ کی میراث میں اللہ نے تین صورتیں بیان فرمائیں پہلی صورت یہ ہے کہ اگر ماں باپ کے ساتھ میت کی اولاد بیٹا یا بیٹی ہو تو اس صورت میں میت کے ماں باپ کو ترکہ میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ملے گا دوسری صورت یہ ہے کہ میت کی اولاد کچھ نہ ہو بھائی بہن بھی نہ ہوں اور صرف ماں باپ ہوں تو اس صورت میں ماں کو ایک ثلث ملے گا اور باقی دو ثلث باپ کو ملیں گے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اولاد نہ ہو مگر میت کے ایک سے زیادہ بہن بھائی ہوں خواہ حقیقی ہوں یا علاتی یا اخیافی تو اس صورت میں ماں کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقی سب اس کے باپ کو ملے گا بھائی بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔ وارثوں کے جس قدر حصے اب تک بیان کیے گئے یہ سب حصے بعد اداء وصیت کہ جو میت نے کی ہے اور بعدا دائے قرض وارثوں کو دیے جائیں گے یعنی میت کے مال میں سے اول بمقدار وصیت اور بقمدار قرض روپیہ نکال کر پھر ورثہ پر تقسیم ہوگا اور باجماع امت ترکہ میں جو پہلا حق متعلق ہوتا ہے وہ میت کے تجہیز وتکفین اور تدفین ہے اس لیے میت کے مال میں سب سے پہلے اس کے کفن اور دفن میں لگایاجائے گا اور پھر میت کے قرض میں اور پھر اس کی وصیت میں دیا جائے گا اور پھر جو باقی رہے گا وہ وارثوں پر تقسیم کیا جائے گا۔ (نکتہ) ۔ ماں باپ کا حق اگرچہ اولاد سے کہیں زیادہ ہے مگر اللہ نے میت کے ترکہ میں سے ماں باپ کا حصہ، اولاد کے حصہ سے کم رکھا ہے کیونکہ جب آدمی صاحب اولاد ہوکرمرتا ہے تو عادۃ اس عمر میں اس کے والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں اور ان کی عمر کا تھوڑا حصہ باقی رہ جاتا ہے ان کو زیادہ مال کی ضرورت نہیں ہوتی بخلاف اولاد کے کہ وہ کم عمر ہونے کی وجہ سے زیادہ حاجت مند ہوتے ہیں نیز ماں باپ کے پاس اپنا اندوختہ اور اپنے والدین کا کچھ ترکہ بھی ہوتا ہے اور میت کی اولاد کا سرمایہ سردست صرف یہی باپ کی کمائی ہوتی ہے اس لیے شریعت نے بہ نسبت ماں باپ کے اولاد کا حصہ زائد رکھا تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم نہیں جانتے کہ باعتبار نفع رسانی کے ان میں سے کون سا تم سے زیادہ قریب ہے۔ یعنی تم نہیں جانتے کہ تمہارے اصول و فروع میں سے دنیا وآخرت میں تمہارے لیے کون زیادہ نفع رساں اور فائدہ مند ہے اور جب تمہیں یہ خبر نہیں تو تقسیم میراث میں تم اپنی عقل اور رائے کو دخل نہ دو خدا کے حکم کے مطابق چلو اللہ کی طرف سے جو حصہ مقرر ہے اس کی پیروی کرو بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں کو جاننے والا ہے اور بڑی حکمت والا ہے اس نے جو میراث کے حصے مقرر فرمادیے حصوں کی پابندی کرو اور اپنی رائے سے اس میں دخل نہ دو اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اس نے اپنی حکمت سے جو حصے مقرر کردیے اسی میں حکمت اور مصلحت ہے۔ حصہ زوجین۔ اب آئندہ آیت میں زوجین کی میراث کا بیان فرماتے ہیں اور زوجہ اور زوج کی ہر ایک کی میراث کی دو دو صورتیں بیان کیں۔ 1۔ میت اگر زوجہ ہو اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں زوج یعنی شوہر کو نصف مال ملے گا۔ 2۔ اور اگر اولاد ہو تو چوتھائی حصہ اور علی ہذا اگر میت زوج ہو اور زوجہ اس کی وارث ہو تو اس کے بھی دو حال ہیں۔ 1۔ زوج کے کوئی اولاد نہ ہو تو زوجہ کو چوتھائی حصہ ملے گا۔ 2۔ اور اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ۔ چناچہ فرماتے ہیں اور تمہارے لیے یعنی شوہروں کے لیے اس مال میں کا نصف حصہ ہے جو تمہاری بیبیاں چھوڑ جائیں اگر ان کے کوئی اولاد نہ ہو نہ مذکر نہ مونث نہ واحد نہ کثیر اور اگر ان بیبیوں کے کچھ اولاد ہو خواہ تم سے ہو یا پہلے شوہر سے تو اس صورت میں تم کو ان کے ترکہ سے چوتھائی ملے گا اور دونوں صورتوں میں تم کو یہ حصہ بعد وصیت کے جو کرگئی ہیں یا قرض کی ادائیگی کے بعد جو انہوں نے چھوڑا ہے ملے گا اور بیبیوں کو چوتھائی مال ملے گا اس ترکہ میں سے جو تم چھوڑ جاؤ اگر تمہارے کوئی اولاد نہ ہو پس اگر تمہارے کوئی اولاد ہو اس عورت سے یا کسی دوسری عورت سے تو بیبیوں کو تمہارے ترکہ میں آٹھواں حصہ ملے گا بعد وصیت کے جو تم کرجاؤ یا قرض کے بعد جو تم چھوڑ جاؤ تو اس وصیت اور قرض کے ادا کرنے کے بعد جو مال بچے گا تو اس سے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا خواہ بیوی ایک ہو یا چار۔ فائدہ) عورت چونکہ مہر بھی پاتی ہے اور شوہر کے مرنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے اس لیے اس کا حصہ ہر حال میں شوہر کے حصہ سے نصف رہا۔ حصہ برادر وخواہر اخیافی۔ اب اس کے بعد ایسے شخص کا حال بیان فرماتے ہیں کہ جس کے وارثوں میں نہ باپ دادا ہو اور نہ اولاد ہو صرف اس کے اخیافی بھائی بہن ہوں تو اگر ایک ہو تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ہے اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک اور برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرد یا عورت جس کی میراث دوسروں کو ملے گی کلالہ ہو یعنی باپ دادا اور بیٹا نہ رکھتا ہو اور اس کے ایک اخیافی بھائی یا ایک اخیافی بہن ہو تو اس کلالہ کے مال میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر یہ اخیافی بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی حصہ میں برابر کے شریک ہوں گے اور یہ تقسیم بعد اس وصیت کے نافذ کرنے کے ہوگی جو ہوچکی ہے یا ادائے قرض کے بعد بشرطیکہ وہ وصیت کرنے والا کسی کو ضرر یا نقصان پہنچانے والا نہ ہو یہ جو کچھ کہا گیا یہ سب اللہ کی جانب سے وصیت یعنی تاکیدی حکم ہے اور اللہ خوب جانتا ہے ضرر دینے والے کو اور نہ دینے والے کو بڑا بردبار ہے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ فائدہ) ۔ جاننا چاہیے کہ بھائی اور بہن تین طرح کے ہوتے ہیں۔ 1۔ سگے۔ جن کے ماں اور باپ دونوں ایک ہوں ان کو عینی اور بنوالاعیان کہتے ہیں۔ 2۔ سوتیلے جو صرف باپ میں شریک ہو یعنی باپ تو ایک ہو اور ماں دو ہوں ان کو علاتی کہتے ہیں۔ 3۔ وہ سوتیلے کہ جن کی ماں تو ایک ہوں اور باپ دو ہوں ان کو اخیافی کہتے ہیں۔ اس آیت میں اس آخری قسم کا ذکر ہے جیسا کہ ابی بن کعب اور سعد بن ابی وقاص کی قرات میں ولہ اخ اواخت۔ آیت۔ کے بعد من الام لفظ آیا ہے جس سے آیت کی تفسیر ہوگئی کہ اس جگہ کون سا بھای اور بہن مراد ہے اور اسی پر سب کا اجماع ہے اور عینی اور علاتی بھائی بہنوں کی میراث کا حکم اس سورت کے آخر میں آئے گا۔ (نکتہ) ۔ اخیافی بھائی بہن کو میت کی طرف جو نسبت ہے وہ صرف ماح کے واسطہ سے اور ماں کا حصہ تہائی سے زیادہ نہیں لہذا وہ صرف اپنی ماں کا حصہ پانے کے مستحق ہیں اور اسی وجہ سے ذکور اور اناث میں کوئی فرق نہیں کیا گیا سب کا حصہ برابر رہا کیونکہ نسبت مذکور میں سب مساوی ہیں۔ تاکید اطاعت وتہدید برمعصیت۔ یہ تمام احکام اللہ کی مقرر کردہ حدیث ہیں لوگوں کو چاہیے کہ ان حدود کے اندر رہیں اور ان سے باہر قدم نہ نکالیں اور جس طرح انسان کسی مکان کی حدود سے باہر نکل کر خطرہ میں پڑجاتا ہے اسی طرح احکام الٰہی کی حدود سے باہر نکلنے میں جان اور ایمان کا خطرہ ہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلے گا اللہ اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ایسے اشخاص، ہمیشہ ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ جنگ ہمیشگی کا گھر ہے اور اس کا آرام خالص ہے جس میں کسی قسم کے دکھ درد کا شائبہ بھی نہیں اور دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی آخرت کی کامیابی کے مقابلہ میں ہیچ ہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے آگے بڑھے سو اس کو اللہ تعالیٰ آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلیل اور رسوا کرنے والا عذاب ہے یعنی ہمیشہ کے لیے مصیبت اور ذلت میں گرفتار رہے گا۔ مسئلہ میراث انبیاء کرام علیہم الف الف صلوۃ والف الف سلام۔ بابت آیت، یوصیکم اللہ فی اولادکم۔ آیت۔ شیعہ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت فاطمہ کو پیغمبر علیہ الصلوۃ کے ترکہ میں سے جو ان کو اپنے والد محترم کی طرف سے پہنچتا تھا کوئی حصہ نہیں دیا اور عذر یہ کیا کہ میں نے رسول اللہ سے خود سنا ہے کہ یہ فرماتے تھے کہ ہم گروہ انبیاء نہ کسی کے وارث ہوتے اور نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے حالانکہ یہ حدیث صریح نص قرآنی، یوصیکم اللہ فی اولادکم۔ کے خلاف ہے۔ اور یہ آیت عام ہے اس میں نبی اور غیر نبی کی کوئی تخصیص نہیں لہذا یہ کہنا کہ رسول اللہ کا کوئی وارث نہیں اس آیت کی تکذیب کرنا ہے نیز دوسری نصوص کے بھی خلاف ہے یعنی وورث سلیمان داؤد۔ آیت۔ اور آیت وھب لی من لدنک۔۔ الی۔۔۔ یعقوب۔ آیت۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام کے بھی وارث ہوتے ہیں۔ (جواب) 1۔ آیت یوصیکم اللہ فی اولادکم، آیت۔ عام مخصوص البعض ہے جس سے بحکم حدیث نبوی لانرث ولانورث انبیاء کرام مخصوص ہیں اور چونکہ یہ حدیث صدیق اکبر ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے بلاواسطہ سنی اس لیے علم قطعی اور یقینی کو مفید ہے اور جو چیز نبی اکرم ﷺ سے بلاواسطہ سنی اس پر عمل کرنا قطعا فرض ہے خواہ کسی اور سے اس حدیث کو سنے یا نہ سنے اور اسی پر شیعہ اور سنی تمام اہل اصول کا اجماع ہے اور متواتر اور غیر متواتر حدیث کی تقسیم ان لوگوں کے اعتبار سے ہے جنہوں نے اللہ کے نبی کو نہیں دیکھا اور دوسروں کے واسطہ سے حدیث سنی اور جس شخص نے خود اللہ کے نبی کو دیکھا اور بلا واسطہ ان سے حدیث سنی و یہ حدیث کے اس کے حق میں متواتر سے بھی بالا اور برتر ہے بلکہ مشاہدہ عینی سے بھی زیادہ قطعی اور یقینی ہے چونکہ ابوبکر صدیق ؓ نے اس حدیث کو بلاواسطہ رسول اللہ سے سنا تھا اس لیے انہیں دوسروں سے تحقیق وتفتیش کی حاجت نہ تھی۔ نیز اس حدیث کے راوی صرف ابوبکر ہی نہیں بلکہ اس حدیث کو حضرت حذیفہ اور حضرت زبیر، حضرت ابودرداء، اور حضرت ابوہریرہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عباس اور حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ نے بھی روایت کیا ہے غرض یہ کہ حدیث تمام صحابہ میں معروف ومشہور تھی اور درجہ تواترکو پہنچی ہوئی تھی اور حدیث متواتر سے قرآن کی تخصیص بالاجماع جائز ہے۔ اور آیت میراث میں حدیث نبوی سے تخصیص ایسی ہے جیسے انما الصدقات للفقراء والمساکین۔ آیت۔ کے عموم سے انبیاء کرام اور ان کے موالی مخصوص ہیں کہ انبیاء کرام اور ان کے موالی کو باوجود فقر وفاقہ کے زکوٰۃ اور صدقات کالینا حرام ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آل محمد کے لیے زکوٰۃ اور صدقہ کا مال حلال نہیں۔ نبی ﷺ کی شان فقیری اور درویشی ضرب المثل ہے مگر حضور پرنور بلاشبہ وریب آیت صدقات کے عموم سے مخصوص اور مستثنی ہیں اور آیت صدقات کے عموم کی تخصیص انہی احادیث سے ثابت ہے جن میں زکوٰۃ وصدقات کا آل رسول پر حرام ہونا مروی ہوا ہے اسی طرح سمجھیے کہ جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ انبیاء کرام کے ترگہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ تمام احادیث آیت میراث کی مخصص ہوں گی دیکھو ہدیۃ الشیعہ ص 310 مصفنہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی۔ 2۔ نیز آیت یوصیکم اللہ کا سیاق وسباق اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حکم امتیوں ہی کے لیے ہے جیسا کہ گزشتہ آیات میں چار عورتوں کی تحدید اور مہر اور عدل بین النساء کا واجب ہونا یہ سب امتوں کا حکم ہے نبی اکرم ﷺ پر ان میں سے کوئی شے واجب نہیں آیت، فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع۔ آیت۔ اگرچہ عام ہے مگر بحکم آیت احزاب یا ایھا النبی۔۔ الی۔۔ اجورھن۔ آیت۔ نبی اکرم ﷺ اس چادر کی تحدید سے مستثنی ہیں سورة احزاب کی یہ آیت صراحۃ اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی ﷺ کے لیے چار عورتوں سے زیادہ بھی نکاح جائز ہے اور اتوالنساء صدقاتھن نحلہ۔ آیت۔ بظاہر اگرچہ عام ہے علی العموم سب سپر مہر کے واجب ہونے کی دلالت کرتی ہے لیکن رسول اللہ ﷺ اس حکم سے مخصوص اور مستثنی ہیں جیسا کہ سورة احزاب کی یہ آیت وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی آیت۔ اسی پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ پر کسی قسم کا مہرواجب نہیں۔ اور آیت نساء بظاہر اگرچہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ سب عدل بین النساء واجب ہے مگر حسب ارشاد خداوندی، ترجی من تشاء۔۔۔ الی۔۔ من تشاء۔ آیت۔ نبی اکرم ﷺ اس حکم سے مستثنی ہیں۔ اسی طرح اگر حکم میراث سے بھی انبیاء کرام مستثنی ہوں تو کیا تعجب ہے مال و جائیداد میں میراث کا جاری ہونا امتیوں کا حکم ہے انبیاء کرام اس حکم سے مستثی ہیں۔ 3۔ نیز آیت یوصیکم اللہ باتفاق فریقین اور بہت سی تخصیص ہوئی ہیں چناچہ کافر وارث نہیں ہوتا غلام وارث نہیں ہوتا قاتل مورث وارث نہیں ہوتا اور ان تخصیصات پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ آیت مذکورہ سے نہ متصل مذکور ہے نہ منفصل بجز اس کے کہ احادیث سے ان لوگوں کی تخصیص کی گئی تو پھر حدیث ماترکنا صدقتہ کا کیا قصور ہے کہ وہ آیت میراث کے لیے مخصص نہ ہوسکے۔ (شیعہ) ۔ حدیث سے قرآن کریم کی تخصیص کرنے کی وجہ سے ابوبکر پر معترض ہیں لیکن اپنے لیے س کو جائز سمجھتے ہیں خود ان کے نزدیک اخبار آحاد سے قرآن کریم کی تخصیص ثابت ہے ان کا مذہب ہے کہ زمین میں زوجہ کو میراث نہیں پہنچتی اور میت کے ترکہ میں سے قرآن اور تلوار انگشتری اور پہننے کے کپڑوں کا وارث صرف بیٹا ہے۔ نیز اگر آیت یوصیکم اللہ متروکہ رسول کو بھی شامل ہو تو اسی متروکہ کو تو شامل ہوگی کہ جو مملوکہ نبوی بھی ہو کیونکہ میراث تو اشیاء مملوکہ ہی میں جاری ہوتی ہے اور وقف کے مال میں میراث جاری نہیں ہوتی اور سب کو معلوم ہے کہ فدک منجملہ اموال فی وقف تھا مملوکہ نبوی نہ تھا کیونکہ آیت ما آفاء اللہ علی رسولہ۔ آیت۔ اس پر صاف دلالت کرتی ہے کہ اموال بنی نضیرہ وفد وغیرہ وغیرہ سب کے سب من جملہ فئی کے تھے اور سب وقف تھے اور حضور ﷺ کا پنی زندگی میں ان میں جو تصرف تھا وہ محض متولیانہ تھا نہ کہ مالکانہ کیونکہ ما آفاء اللہ سے صاف ظاہر ہے کہ مال فئی میں ذوی القربا اور یتامی اور مساکین اور فقراء مہاجرین اور انصار اور قیامت تک آنے والے مسلمان سب شریک اور حق دار ہیں جن کی تعداد معین نہیں اور نہ ہوسکتی ہے سو اموال فئی کے مملوک ہونے کی کوئی صورت نہیں اور کتب شیعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ فدک منجملہ اموال فئی تھا۔ پس جب فدک مملوک ہی نہ ہوا تو وہ آیت یوصیکم اللہ کے عموم میں کیسے داخل ہوگا اور جس طرح مال غیر مملوک میں میراث جاری نہیں ہوسکتی اسی طرح اس میں ھبہ اور عطیہ بھی جاری نہیں ہوسکتا اور معلوم ہوا کہ اہل تشیع جو ھبہ فدک کی روایت نقل کرتے ہیں وہ قطعا غلط ہے اور بلاشبہ شیعوں کی ساختہ اور پرداختہ ہے۔ نیز جب حضرت علی ؓ خلیفہ ہوئے اور نبی ﷺ کا ترکہ ان کے قبضہ میں آیا تو انہوں نے اس میں سے نہ حضرت عباس ؓ کا حصہ دیا اور نہ حضرت عباس کے بعد ان کے بیٹوں اور نہ ازدواج مطہرات کو اگر آپ کے ترکہ میں میراث جاری ہوتی تو یہ سب حضرات کیوں حق میراث سے محروم رہے جس طرح جناب سیدہ آپ کے ترکہ کی حق دار تھیں اسی طرح یہ سب حضرات بھی اس کے حق دار تھے حضرات شیعہ اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ائمہ غضب شدہ چیز کو واپس نہیں لیتے اور باغ فدک چونکہ غضب ہوچکا تھا اس لیے حضرت علی نے اس میں تصرف مناسب نہ سمجھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے نزدیک جیسا باغ فدک غصب ہوچکا تھا اسی آپ کے نزدیک خلافت بھی غصب ہوچکی تھی تو پھر اس کی کیا وجہ کہ جناب امیر نے ایک ادنی درجہ کی غصب شدہ چیز (باغ فدک) کو تو چھوڑ دیا اور خلافت جیسی کارآمد غصب شدہ چیز کو قبول کرلیا جس کے پیٹ میں لاکھوں باغ فدک سماجائیں اور پتہ بھی نہ چلے اور آیت وورث سلیمان داؤد اور آیت۔ ھب لی من لدنک ولیا یرثنی۔ اس قسم کی آیات میں علم وار حکمت اور منصب نبوت کی وراثت مراد ہے دنیاوی ولی عہدی اور مالی وراثت مراد نہیں دیکھو اجوبہ اربعین ص 65 ج 2۔ ) باتفاق اہل تاریخ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے جو مالی وراثت میں سب برابر کے مستحق تھے پس اگر آیت مذکورہ میں مالی وراثت مراد ہوتی تو اللہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سب بیٹوں اور وارثوں کے ذکر کو چھوڑ کر سلیمان (علیہ السلام) کی تخصیص نہ فرماتے اس لیے کہ مالی وراثت میں سب بیٹے برابر ہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خصوصیت نہیں نیز مالی وراثت میں دنیا کہ تمام نیک وبد اپنے باپ کے مال کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی فضیلت اور بزرگی نہیں جس کو اللہ نے حضرت سلیمان کے فضائل ومناقب میں بطور مدح ذکر فرمایا اللہ کو ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جسیے جلیل القدر نبی کے فضائل ومناقب میں باپ کی مالی وراثت کا ذکر کیا جس میں دنیا کے تمام نیک وبد شریک ہیں غرض یہ کہ آیت مذکورہ میں وراثت سے مالی وراثت مراد لینے کی صورت میں نہ تو حضرت سلیمان کی تخصیص کا کوئی فائدہ معلوم ہوتا ہے اور نہ اس سے ان کا کچھ فضل و کمال ظاہر ہوتا ہے بخلاف وراثت علم ونبوت سو اس صورت میں حضرت سلیمان کا فضل و کمال بھی ظاہر ہوتا ہے اور ان کی تخصیص کی وجہ سے بھی ظاہر ہے کیونکہ علم ونبوت ایسی چیز نہیں کہ سب لوگ اس کے وارث ہوسکیں۔ اور علی ہذا آیت، ھب لی من لدنک۔۔۔ یعقوب۔ آیت۔ میں بھی وراثت مالی مراد نہیں بلکہ علم نبوت کی وراثت مراد ہے اس لیے کہ اگر اس آیت میں وراثت سے مال کی وراثت مراد ہو تو یہ کلام محض لغو اور مہمل ٹھہرتا کیونکہ اس صورت میں الفاظ ویرث من آل یعقوب۔ کی کوئی صحیح تاویل نہیں ہوسکتی اگر آل یعقوب سے مراد نفس یعقوب ہو تو لازم آئے گا کہ یعقوب کا مال زکریا (علیہ السلام) کے زمانہ تک بغیر تقسیم کے باقی رہا اور اس بات کو کوئی عاقل تسلیم نہیں کرسکتا کیونکہ حضرت زکریا کا زمانہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے زمانہ سے تقریبا دو ہزار سال برس پیچھے ہے اتنے عرصے تک ان کے مال کا بغیر تقسیم کے باقی رہنا قیاس میں نہیں آسکتا اور اگر آل یعقوب سے مراد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی جملہ اولاد ہو تو لازم آئے گا کہ یحییٰ (علیہ السلام) تمام زندہ اور مردہ بنی اسرائیل کے وارث ہوں اور یہ بات پہلی بات سے بھی زیادہ غیر معقول ہے اور اگر آل یعقوب سے بعض اولادمراد ہو تو پھر یہ معلوم نہیں کہ وہ کون بعض مراد ہیں نیز حضرت زکریا جیسے پاک نفس کی نسبت جن کے دل میں دنیا کے مال ومتاع کی ایک مچھر کے برابر بھی وقعت نہ تھی وہ اللہ سے صرف اس لیے بیٹا مانگیں کہ ان کے بعد وہ ان کے مال ومتاع کا وارث ہوسکے اور مبادا ان کے چچا زاد بھائی ان کے مال کے وارث نہ ہوجائیں اس بات کو کوئی عاقل ایک منٹ کے لیے بھی تسلیم نہیں کرسکتا کہ اللہ کا نبی مال وراثت کی وجہ سے اس درجہ رنجیدہ اور غمگین ہو۔
Top