Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 7
وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَالِ : کیسا ہے ھٰذَا الرَّسُوْلِ : یہ رسول يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشِيْ : چلتا (پھرتا) ہے فِي : میں الْاَسْوَاقِ : بازار (جمع) لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْهِ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : کوئی فرشتہ فَيَكُوْنَ : کہ ہوتا وہ مَعَهٗ : اس کے ساتھ نَذِيْرًا : ڈرانے والا
اور کہتے ہیں یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس پر کیوں نازل نہیں کیا گیا اس کے پاس کوئی فرشتہ کہ اسکے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا ؟
منکرین نبوت کا تیسرا شبہ اور اس کا جواب قال اللہ تعالیٰ وقالوا مال ھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق۔۔۔ الی۔۔۔ ویجعل لک قصورا۔ (ربط) منکرین نبوت کا یہ تیسرا شبہ ہے۔ منکرین نبوت یہ کہتے ہیں کہ یہ مدعی نبوت پانچ صفتوں کے ساتھ موصوف ہے اور یہ پانچوں صفتیں نبوت کے منافی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ شخص ہماری طرح کھانا کھاتا ہے۔ دوم یہ کہ یہ شخص ہماری طرح بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، پھر اس کو کیا فضیلت اور برتری کہ یہ ہمارا نبی بنے۔ سوم یہ کہ آپ ﷺ کے ہمراہ خدا کا کوئی فرشتہ نہیں جو لوگوں کو آپ ﷺ سے ڈرائے۔ چہارم یہ کہ آپ کے پاس آسمان سے کوئی خزانہ نہیں اترتا۔ جسے آپ لوگوں پر بےدریغ خرچ کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں۔ اور اپنے پیرؤں کو بھوک اور فاقہ سے بچائیں۔ پنجم یہ کہ اگر آپ ﷺ کے پاس آسمان سے کوئی خزانہ اترتا تو کم از کم آپ کے پاس ایک باغ تو ہوتا جس سے آپ بےفکری سے کھالیا کرتے، جب آپ ﷺ میں کوئی شان امتیازی نہیں تو ہم کیسے یقین کریں کہ آپ اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ان خیالات مہملہ کو نقل کر کے بتلا دیا کہ یہ سب نادانی اور جہالت کی باتیں ہیں اور اس قسم کے خیالات کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے، جزاء اور سزا کے قائل نہیں اس لئے احکام اور قوانین کی پابندی ان پر شاق اور گراں ہے۔ جب قیامت آئے گی تو پچھتائیں گے اور حسرتوں سے ہاتھ ملیں گے اور عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ پھر اخیر وما ارسلنا قبلک من المرسلین۔ میں ان کے تمام شبہات کا مختصر طور پر ایک الزامی جواب دیا کہ دیکھو کہ اگلے پیغمبر بھی کھاتے اور پیتے تھے اور بشری ضرورتوں کے لئے بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور نہ کسی کے ساتھ کوئی فرشتہ تھا اور نہ کسی کے پاس آسمان سے کوئی خزانہ اترا تھا اور نہ کوئی باغ اور زمین و جائیداد کا مالک تھا۔ معلوم ہوا کہ جو باتیں تم کہتے ہو وہ نبوت و رسالت کے منافی نہیں اور نہ شان نبی کے خلاف ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور کہا سرداران قریش نے جیسے ابو جہل اور عتبہ اور امیہ وغیرہم نے کہ کیا حال ہے اس رسول کا کہ دعویٰ تو رسالت کا کرتا ہے اور لوگوں کی طرح کھانا کھاتا ہے اور طلب معاش کے لئے اوروں کی طرح بازاروں میں چلتا پھرتا ہے تو اس کو ہم پر کیسے فضیلت حاصل ہوگئی اور یہ نبی کیسے ہوگیا یہ شخص تو ہم جیسا آدمی ہے، چاہئے تو یہ تھا کہ فرشتہ ہوتا خیر اگر یہ خود فرشتہ نہیں تو اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا۔ جس کو ہم بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے پس وہ اس کی نبوت کی گواہی دیتا اور اس کے ساتھ ہو کر لوگوں کو اس کی مخالفت سے ڈرانے والا ہوتا یا یہی ہوتا کہ اس پر آسمان سے کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا تاکہ تحصیل معاش کے لئے بازاروں میں جانے سے مستغنی ہوجاتا اور لوگوں کو داد و دہش کرتا اور لوگ اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کی اس خصوصیت کو دیکھ کر لوگ اس کو رسول مان لیتے یا ادنیٰ درجہ یہ ہوتا کہ اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ کھاتا اور کسب معاش کا محتاج نہ رہتا ان لوگوں نے نبوت و رسالت کو دنیاوی ریاست پر قیاس کیا اور نبی اور رسول میں دنیاوی امیروں اور رئیسوں کی طرح دنیاوی سامان عیش و عشرت کے طلبگار اور جو یا بنے اور ان ظالموں نے تو ظلم وستم کی حد ہی کردی کہ مسلمانوں سے یہ کہا کہ بس تم تو ایسے شخص کے پیرو بن گئے ہو کہ جس پر جادو کردیا گیا ہے اور وہ بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اور وہ عجیب عجیب قسم کی باتوں سے تم کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ یہ کہتے کہ اس مدعی رسالت کو کوئی شان امتیازی حاصل نہیں، ہماری طرح یہ بھی کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اور جب آپ ﷺ سے معجزات دیکھتے تو یہ کہتے کہ یہ شخص جادوگر ہے اور کبھی کہتے کہ یہ شاعر ہے اور کبھی کہتے کہ کاہن ہے اور کبھی کہتے کہ مجنون ہے۔ ان کا یہ اضطراب اس بات کی دلیل ہے کہ جو کہتے وہ آپ ﷺ پر منطبق نہیں ہوتا تھا کسی بات پر قرار نہیں تھا کبھی کچھ کہتے اور کبھی کچھ کہتے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے نبی دیکھئے تو سہی کہ ان ظالموں نے کیسی کیسی مثالیں آپ کے لئے بنائی ہیں جو ان کے اضطراب اور سراسیمگی کی ذلیل ہیں کسی بات پر ان کو قرار نہیں پس یہ لوگ حق سے بہک گئے پس اب راہ راست پر نہیں آسکتے بھٹکتے پھرتے ہیں اور پریشان باتیں بکتے ہیں کسی بات پر قائم نہیں ایسے کو راہ حق کہاں ملتی ہے۔ تفصیلی جواب یہاں تک کافروں کے شبہ کا اجمالی جواب دیا، اب آئندہ آیات میں اس کا تفصیلی جواب ارشاد فرماتے ہیں۔ بڑی ہی برکت والا ہے وہ خدا جس نے آپ ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ ﷺ پر یہ مبارک کتاب نازل کی ہے وہ اگر چاہے تو دنیا میں آپ کو اس سے بہتر چیزیں عطا کرے۔ جن کی کفار آپ ﷺ سے فرمائش کرتے ہیں یعنی دنیا ہی میں آپ کو ایسے باغات دے دے جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں اور دنیا ہی میں آپ کو ایسے عالیشان محل دے دے جو دنیا میں کسی فرمانروا نے دیکھے ہی نہ ہوں جن چیزوں کو کفار عجیب و غریب سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے اعتبار سے بہت حقیر ہیں۔ مال داران قریش نے جب حضرت رسالت پناہ کو فقروفاقہ کی وجہ سے حقیر سمجھا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھ سے میرے پروردگار نے کہا کہ اگر تو چاہے تو میں تیرے لئے مکہ کے پتھروں کو سونا بنا دوں میں نے عرض کیا کہ پروردگار میں یہ نہیں چاہتا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھروں اور ایک دن بھوکا رہوں۔ جب بھوکا رہوں تو تیری طرف رجوع کروں اور گڑ گڑاؤں اور تجھے یاد کروں اور جب پیٹ بھروں تو تیری تعریف کروں اور شکر کروں اور اس قسم کی بیشمار حدیثیں ہیں جن میں آپ نے فقیری کو امیری پر ترجیح دی ان سب سے مقصود امت کی تعلیم و تفہیم تھی دنیاوی ثروت فتنہ ہے اس میں نہ پڑیں بلکہ آخرت کی فکر کریں۔
Top