Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
خَرَجُوْا
: نکلے
مِنْ
: سے
دِيَارِھِمْ
: اپنے گھر (جمع)
وَھُمْ
: اور وہ
اُلُوْفٌ
: ہزاروں
حَذَرَ
: ڈر
الْمَوْتِ
: موت
فَقَالَ
: سو کہا
لَهُمُ
: انہیں
اللّٰهُ
: اللہ
مُوْتُوْا
: تم مرجاؤ
ثُمَّ
: پھر
اَحْيَاھُمْ
: انہیں زندہ کیا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَذُوْ فَضْلٍ
: فضل والا
عَلَي النَّاسِ
: لوگوں پر
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اَكْثَرَ
: اکثر
النَّاسِ
: لوگ
لَا يَشْكُرُوْنَ
: شکر ادا نہیں کرتے
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ بھی کردیا کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
خاتمہ احکام معاشرت برتذکیر آخرت۔ حکایت قصہ گریز ندگاں از موت دوبابرائے تنبیہ شیفتگان حیات دنیا وتمہید تشجیع برجہاد و قتال وترغیب انفاق مال۔ قال تعالی، الم تر الذین۔۔۔ الی۔۔۔ لایشکرون۔ ربط) ۔ یہاں تک ابواب البر والصلہ کے متعلق الانواع اور مختلف الاقسام احکام مذکور ہوئے مگر ان احکام میں سب سے زیادہ اہم اور مہتم بالشان اور نفس پر شاق اور گراں دو حکم ہیں ایک جہاد و قتال کا اور دوسرا انفاق مال کا چناچہ اصول بر کے بیان میں واتی المال علی حبہ ا لصابرین فی الباساء والضراء وحین الباس، کا خاص طور پر ذکر فرمایا اس لیے کہ انسان کو خداوند ذوالجلال کی اطاعت سے روکنے والی زیادہ تردو ہی چیزیں ہوتی ہیں ایک حب دنیا اور ایک کراہت موت بلکہ یہی دوچیزیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مخل اور مزاحم ہوتی ہیں اس لیے اللہ جل شانہ نے اولا بنی اسرائیل کا ایک قصہ ذکر فرمایا جو موت اور وباء کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور غضب خداوندی سب ہلاک ہوئے اور پھر حضرت حزقیل (علیہ السلام) کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے تاکہ اس بلاسبب موت اور بلاسبب حیات کے مشاہدہ سے یہ یقین کرلیں کہ موت اور حیات کسی ظاہری سبب پر موقوف نہیں موت اور حیات کا خالق اور مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ بغیر وباء اور طاعون کے اور بغیر میدان کارزار کے بھی موت دے سکتا ہے لہذا موت کے خوف سے بھاگنا بےسود ہے نیز اس بلاسبب موت اور بلاسبب دوبارہ زندگی کے مشاہدہ سے گویا کہ آخرت اور حشر اور نشر اور قیامت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیا جس سے آخرت کے بارے میں کسی قسم کے شک اور شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی اور اب تک آخرت اور قیامت کے بارے میں جو ایمان استدلالی اور برہانی تھا اب وہ اس دوبارہ زندگی کے مشاہدہ کے بعد بمنزلہ شہودی اور عیانی کے ہوگیا جس میں ارتدادکا احتمال نہیں استدلال میں احتمال کی گنجائش ہے مشاہدہ اور معاینہ میں شبہ کی گنجائش نہیں۔ پائے استدلالیاں چوبیں بود، پائے چوبیں سخت بےتمکین بود۔ پس یہ قصہ ان دو حکموں کی تمہید ہے جو آئندہ آیات میں مذکور ہوں گے ایک جہاد و قتال کا حکم جو اس قصہ کے متصل مذکور ہے یعنی وقاتلوا فی سبیل اللہ واعلموا ان اللہ سمیع علیم، دوسرا حکم انفاق مال کا ہے جس کو من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا۔ سے بیان فرمایا پھر ان دو حکموں کے بعد اولا جہاد و قتال کی ترغیب اور تاکید کے لیے قصہ طالوت وجالوت ذکر فرمایا اور ثانیا خدا کی راہ میں صدقہ اور خیرات کے احکام اور فضائل بیان فرمائے جو دور تک چلے گئے اور پھر احکام صدقات سے فراغت کے بعد ربا اور سود کے احکام بیان فرمائے اور اس لیے کہ ربا اور سود صدقہ اور خیرات کی ضد اور نقیض ہے اور پھر اس سورت کو ایمان اور اطاعت اور دعا رحمت ومغفرت پر ختم فرمایا۔ اس سورت کا آغاز بھی ایمان اور ہدایت اور تقوی اور فلاح سے ہوا تھا ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب۔۔ الی۔۔ ھم المفلحون۔ اور خاتمہ بھی ایمان اور طاعت اور دعا رحمت پر ہوا جو کہ عین فلاح اور عین سعادت ہے۔ بیان ربط بطریق دیگر) ۔ دور سے نکاح اور طلاق کے احکام کا سلسلہ چلا آرہا تھا یہاں آکر احکام معاشرت پورے ہوئے اس لیے اب احکام معاشرت کے بعد ایک قصہ تذکیر آخرت کے لیے ذکر فرمایا جس کو عدت وفات کے احکام سے خاص مناسبت ہے یعنی اگر تم بےکس عورتوں کا عرصہ حیات تنگ کرو گے اور ان کے مہر اور متعہ کے دینے میں کوتاہی کرو گے تو عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عدول حکمی کی سزا میں تمہارے اموال اور ذخائر کو اور تمہای مستعار حیات کو تم سے واپس لے لو جیسا کہ پہلی امتوں میں اس قسم کے واقعات پیش آچکے ہیں چناچہ فرماتے ہیں کہ کیا اے دیکھنے والے اور اے سننے والے تو نے بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ سنا مگر کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل گئے تھے پس اللہ نے بطور سزا اور تنبیہ یہ حکم دیا کہ مرجاؤ یہ حکم تکوینی تھا اسی وقت سب مرگئے اور جس موت کے ڈر سے بھاگے تھے اسی میں اچانک پکڑے گئے پھر اللہ نے ان کو ایک نبی کی درخواست اور استدعا پر دوبارہ زندہ کردیا جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ یہ لوگ طاعون سے بھاگ کر نکلے تھے ایک بیابان میں جا کر اترے اور یہ گمان کہ اب ہم سلامتی اور تندرستی کی جگہ پہنچ گئے تب بحکم خداوندی سب کے سب وہیں مرگئے اور ایک ہفتہ یا کچھ عرصہ بعد حزقیل (علیہ السلام) جو انبیاء بنی اسرائیل میں سے تھے وہاں سے گذرے اور یہ منظر دیکھا کہ ہزاراں ہزار آدمی مرا پڑا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان سب کو دوبارہ زندہ کردیا عبداللہ بن عباس ؓ سے اسی طرح منقول ہے۔ ضحاک اور مقاتل اور کلبی سے ی منقول ہے کہ یہ لوگ جہاد سے بھاگے تھے کہ غنیم سے لڑنا نہ پڑے موت کے ڈر سے وطن چھوڑ کر نکل گئے بھاگ کر جہاں پہنچے اللہ کے حکم سے موت بھی وہیں پہنچ گئی اور سب کا کام تمام کیا پھر بعد چندے اس زمانہ کے پیغمبر کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے۔ نکتہ) ۔ قاضی ابوبکر بن العربی فرماتے ہیں کہ یہ موت موت عقوبت تھی یعنی بطور سزا اور تنبیہ تھی موت اجل نہ تھی جو کہ عمر پوری ہونے کے بعد آتی ہے اس لیے سزا اور تنبیہ کے بعد دوبارہ حیات عطا کردی گئی تاکہ اپنے عمروں کو پورا کرلیں اور اگر یہ موت موت اجل ہوتی یعنی عمریں پوری کرچکے ہوتے تو پھر حیات واپس نہ ہوتی اس لیے کہ موت اجل کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جاتا۔ (تفسیر قرطبی ص 331 ج 3) ۔ فائدہ) ۔ اللہ کے یہاں عام قاعدہ تو یہی ہے کہ کوئی مرنے کے بعد قیامت سے پہلے دنیا میں نہیں آتا لیکن بطور خرق عادت کبھی احیانا اللہ تعالیٰ مردہ کو دنیا میں زندہ کرتے، تاکہ اس کی قدرت کا کرشمہ ظاہر ہو اور منکرین قیامت پر حجت تمام ہو۔ اور تحقیق بلاشبہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے کہ اس طرح دوبارہ زندہ کرکے اپنی قدرت کا کرشمہ اور قیامت کانمونہ ایک نبی کی نبوت کی دلیل اور معجزہ لوگوں کو دکھلادیا تاکہ ملاحدہ اور منکرین قیامت اور مکذبین نبوت و رسالت عبرت حاصل کریں اور سمجھ جائیں کہ نہ تو مردوں کو دوبارہ زندہ ہونا محال ہے اور نہ خدا کے کسی برگزیدہ بندے کے ہاتھ پر کسی خارق عادت کرشمہ کا ظاہر ہونا ناممکن ہے اور ایمان کے اصل اصول بھی یہی تین امر ہی یعنی ایمان بااللہ اور ایمان باالرسول اور ایمان بالاخرت جو اس واقعہ سے ثابت ہوئے، اور ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرہ۔ میں جو قصہ ذکر کیا ہے وہ بھی اسی طرح ان تین امور کی دلیل کے تھا اور آئندہ پارہ میں حضرت ابراہیم کا جو قصہ آنے والا ہے وہ بھی ان ہی تین باتوں کی دلیل واضح ہے اب دیکھ لو کہ کس طرح سے سورة کا اول اور آخر اور اوسط باہم متناسب اور مرتبط ہیں ملاحدہ کو چاہیے تھا کہ اس واقعہ کو سامان ہدایت سمجھتے اور اس کو خدا کی نعمت جان کر شکر ادا کرتے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے اور ایسے واقعات سے عبرت اور ہدایت حاصل کرنے والے بہت کم ہیں یہ واقعہ کوئی معمولی نعمت نہ تھا کہ ایمان بالغیب کو شہودی اور عیانی بنادیا اور ارتداد کے خطرہ سے نکال دیا اس نعمت پر توا گر لاکھوں اور کروڑوں جانیں بھی قربان ہوجائیں تو بہت کم ہیں اور ان نبی پر بھی اللہ تعالیٰ کی بیشمار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں جن کی توجہ اور دعا سے یہ نعمت ظہور میں آئی، صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی سیدنا مولانا محمد خاتم النبین علی الہ و اصحابہ اجمعین۔ 1) ۔ الم تر کے معنی کیا تو نے نہیں دیکھا مگر محاورہ میں اس کے معنی الم تعلم کے ہیں کیا تم کو معلوم نہیں ظاہرا چونکہ رویت بصری علم کا ذریعہ ہے اس لیے لفظ رویت بول کر علم کے معنی مراد لیے گئے فصحاء اور بلغاء کے نزدیک یہ لفظ تنبیہ اور تشویق کے لے مستعمل ہوتا ہے یعنی متنبہ کرنے اور شوق دلانے کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے اسی وجہ سے سیبویہ سے منقول ہے کہ الم ترک معنی تنبہ الی امرالذین کے ہیں یعنی یہ واقعہ عجیب و غریب ہے اس قابل ہے کہ اس کو شوق اور رغبت کے ساتھ سنا جائے یہ چیز قابل دیدتھی۔ اور چونکہ یہ واقعہ شہرت اور تواتر کی وجہ سے بمنزلہ محسوس اور مشاہد کے تھا اس لیے بجائے الم تعلم کے لفظ الم تر لایا گیا جیسا کہ حضرات فقہاء اور محدثین نے لکھا ہے کہ خبر متواتر سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ بمنزلہ مشاہدہ اور رویت بصری کے ہوتا ہے اس لیے کہ جو امور خبر متواتر سے ثابت تھے اللہ نے قرآن کریم میں جابجا ان کو الم تر سے تعبیر کیا ہے۔ 2) ۔ ہی بھاگنے والے بنی اسرائیل میں سے ایک قوم تھی جو واسط کے قریب قصبہ داوردان میں رہتی تھی۔ 3) ۔ وھم الوف۔ اور یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے بعض کہتے ہیں کہ چالیس ہزار تھے بعض کہتے ہیں کہ تیس ہزار تھے بعض کہتے ہیں کہ آٹھ ہزار تھے بعض کہتے ہیں کہ چار ہزار اور بعض کہتے ہیں کہ تین ہزار تھے امام قرطبی فرماتے ہیں، ترجمہ۔ صحیح ہے کہ دس ہزار سے زیادہ تھے اس لیے کہ الوف جمع کثرت ہے اس کا اطلاق دس اور دس سے کم پر نہیں آتا (تفسیر قرطبی ص 231 ج 3) ۔ 4) ۔ حدیث میں ہے کہ جب تم یہ سنو کہ فلاں زمین میں وباء اور طاعون ہے تو تم اس زمین میں داخل نہ ہونا اور اگر وباء طاعون اس زمین میں پھیل جائے جس میں تم رہتے ہو تم اس سے بھاگ کر نہ نکلنا۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) ۔ حضرت عمر جب ملک شام تشریف لے گئے تو مقام سرغ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شام میں طاعون اور وبا پھیلی ہوئی ہے اس وقت عبدالرحمن بن عوف نے یہ حدیث سنائی حضرت عمر یہ حدیث سن کر سرغ سے واپس آگئے ابوعبیدہ نے کہا اے امیر المومنین کیا اللہ قضا وقدر سے بھاگتے ہیں، کاش تیرے سوا کوئی یہ شبہ کرتا (عین یہ کلمہ تیری شان کے مناسب نہیں) ہاں ہم اللہ کی قضا وقدر سے خدا کی دوسری قضاء وقدر کی طرف بھاگ رہے ہیں جس طرح بیماری میں علاج کرنا ایک قضا وقدر سے دوسری قضا وقدر کی طرف بھاگنا ہے اس لیے کہ بیماری بھی اللہ کی قضا وقدر سے ہے اور علاج اور دوا بھی اللہ کی قضا وقدر ہے اسی طرح ہمارا وبائی زمین میں داخل ہونا اور وطن کی طرف لوٹ جانا ایک قدر سے دوسری قدر کی طرف جانا ہے۔ 5) ۔ یہ آیت معاد جسمانی کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل ہے معاد جسمانی کا اقرار اصول ایمان میں سے ہے اور معاد جسمانی کا منکر باجماع امت بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
Top