Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ بھی کردیا کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
خاتمہ احکام معاشرت برتذکیر آخرت۔ حکایت قصہ گریز ندگاں از موت دوبابرائے تنبیہ شیفتگان حیات دنیا وتمہید تشجیع برجہاد و قتال وترغیب انفاق مال۔ قال تعالی، الم تر الذین۔۔۔ الی۔۔۔ لایشکرون۔ ربط) ۔ یہاں تک ابواب البر والصلہ کے متعلق الانواع اور مختلف الاقسام احکام مذکور ہوئے مگر ان احکام میں سب سے زیادہ اہم اور مہتم بالشان اور نفس پر شاق اور گراں دو حکم ہیں ایک جہاد و قتال کا اور دوسرا انفاق مال کا چناچہ اصول بر کے بیان میں واتی المال علی حبہ ا لصابرین فی الباساء والضراء وحین الباس، کا خاص طور پر ذکر فرمایا اس لیے کہ انسان کو خداوند ذوالجلال کی اطاعت سے روکنے والی زیادہ تردو ہی چیزیں ہوتی ہیں ایک حب دنیا اور ایک کراہت موت بلکہ یہی دوچیزیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مخل اور مزاحم ہوتی ہیں اس لیے اللہ جل شانہ نے اولا بنی اسرائیل کا ایک قصہ ذکر فرمایا جو موت اور وباء کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور غضب خداوندی سب ہلاک ہوئے اور پھر حضرت حزقیل (علیہ السلام) کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے تاکہ اس بلاسبب موت اور بلاسبب حیات کے مشاہدہ سے یہ یقین کرلیں کہ موت اور حیات کسی ظاہری سبب پر موقوف نہیں موت اور حیات کا خالق اور مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ بغیر وباء اور طاعون کے اور بغیر میدان کارزار کے بھی موت دے سکتا ہے لہذا موت کے خوف سے بھاگنا بےسود ہے نیز اس بلاسبب موت اور بلاسبب دوبارہ زندگی کے مشاہدہ سے گویا کہ آخرت اور حشر اور نشر اور قیامت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیا جس سے آخرت کے بارے میں کسی قسم کے شک اور شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی اور اب تک آخرت اور قیامت کے بارے میں جو ایمان استدلالی اور برہانی تھا اب وہ اس دوبارہ زندگی کے مشاہدہ کے بعد بمنزلہ شہودی اور عیانی کے ہوگیا جس میں ارتدادکا احتمال نہیں استدلال میں احتمال کی گنجائش ہے مشاہدہ اور معاینہ میں شبہ کی گنجائش نہیں۔ پائے استدلالیاں چوبیں بود، پائے چوبیں سخت بےتمکین بود۔ پس یہ قصہ ان دو حکموں کی تمہید ہے جو آئندہ آیات میں مذکور ہوں گے ایک جہاد و قتال کا حکم جو اس قصہ کے متصل مذکور ہے یعنی وقاتلوا فی سبیل اللہ واعلموا ان اللہ سمیع علیم، دوسرا حکم انفاق مال کا ہے جس کو من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا۔ سے بیان فرمایا پھر ان دو حکموں کے بعد اولا جہاد و قتال کی ترغیب اور تاکید کے لیے قصہ طالوت وجالوت ذکر فرمایا اور ثانیا خدا کی راہ میں صدقہ اور خیرات کے احکام اور فضائل بیان فرمائے جو دور تک چلے گئے اور پھر احکام صدقات سے فراغت کے بعد ربا اور سود کے احکام بیان فرمائے اور اس لیے کہ ربا اور سود صدقہ اور خیرات کی ضد اور نقیض ہے اور پھر اس سورت کو ایمان اور اطاعت اور دعا رحمت ومغفرت پر ختم فرمایا۔ اس سورت کا آغاز بھی ایمان اور ہدایت اور تقوی اور فلاح سے ہوا تھا ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب۔۔ الی۔۔ ھم المفلحون۔ اور خاتمہ بھی ایمان اور طاعت اور دعا رحمت پر ہوا جو کہ عین فلاح اور عین سعادت ہے۔ بیان ربط بطریق دیگر) ۔ دور سے نکاح اور طلاق کے احکام کا سلسلہ چلا آرہا تھا یہاں آکر احکام معاشرت پورے ہوئے اس لیے اب احکام معاشرت کے بعد ایک قصہ تذکیر آخرت کے لیے ذکر فرمایا جس کو عدت وفات کے احکام سے خاص مناسبت ہے یعنی اگر تم بےکس عورتوں کا عرصہ حیات تنگ کرو گے اور ان کے مہر اور متعہ کے دینے میں کوتاہی کرو گے تو عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عدول حکمی کی سزا میں تمہارے اموال اور ذخائر کو اور تمہای مستعار حیات کو تم سے واپس لے لو جیسا کہ پہلی امتوں میں اس قسم کے واقعات پیش آچکے ہیں چناچہ فرماتے ہیں کہ کیا اے دیکھنے والے اور اے سننے والے تو نے بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ سنا مگر کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل گئے تھے پس اللہ نے بطور سزا اور تنبیہ یہ حکم دیا کہ مرجاؤ یہ حکم تکوینی تھا اسی وقت سب مرگئے اور جس موت کے ڈر سے بھاگے تھے اسی میں اچانک پکڑے گئے پھر اللہ نے ان کو ایک نبی کی درخواست اور استدعا پر دوبارہ زندہ کردیا جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ یہ لوگ طاعون سے بھاگ کر نکلے تھے ایک بیابان میں جا کر اترے اور یہ گمان کہ اب ہم سلامتی اور تندرستی کی جگہ پہنچ گئے تب بحکم خداوندی سب کے سب وہیں مرگئے اور ایک ہفتہ یا کچھ عرصہ بعد حزقیل (علیہ السلام) جو انبیاء بنی اسرائیل میں سے تھے وہاں سے گذرے اور یہ منظر دیکھا کہ ہزاراں ہزار آدمی مرا پڑا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان سب کو دوبارہ زندہ کردیا عبداللہ بن عباس ؓ سے اسی طرح منقول ہے۔ ضحاک اور مقاتل اور کلبی سے ی منقول ہے کہ یہ لوگ جہاد سے بھاگے تھے کہ غنیم سے لڑنا نہ پڑے موت کے ڈر سے وطن چھوڑ کر نکل گئے بھاگ کر جہاں پہنچے اللہ کے حکم سے موت بھی وہیں پہنچ گئی اور سب کا کام تمام کیا پھر بعد چندے اس زمانہ کے پیغمبر کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے۔ نکتہ) ۔ قاضی ابوبکر بن العربی فرماتے ہیں کہ یہ موت موت عقوبت تھی یعنی بطور سزا اور تنبیہ تھی موت اجل نہ تھی جو کہ عمر پوری ہونے کے بعد آتی ہے اس لیے سزا اور تنبیہ کے بعد دوبارہ حیات عطا کردی گئی تاکہ اپنے عمروں کو پورا کرلیں اور اگر یہ موت موت اجل ہوتی یعنی عمریں پوری کرچکے ہوتے تو پھر حیات واپس نہ ہوتی اس لیے کہ موت اجل کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جاتا۔ (تفسیر قرطبی ص 331 ج 3) ۔ فائدہ) ۔ اللہ کے یہاں عام قاعدہ تو یہی ہے کہ کوئی مرنے کے بعد قیامت سے پہلے دنیا میں نہیں آتا لیکن بطور خرق عادت کبھی احیانا اللہ تعالیٰ مردہ کو دنیا میں زندہ کرتے، تاکہ اس کی قدرت کا کرشمہ ظاہر ہو اور منکرین قیامت پر حجت تمام ہو۔ اور تحقیق بلاشبہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے کہ اس طرح دوبارہ زندہ کرکے اپنی قدرت کا کرشمہ اور قیامت کانمونہ ایک نبی کی نبوت کی دلیل اور معجزہ لوگوں کو دکھلادیا تاکہ ملاحدہ اور منکرین قیامت اور مکذبین نبوت و رسالت عبرت حاصل کریں اور سمجھ جائیں کہ نہ تو مردوں کو دوبارہ زندہ ہونا محال ہے اور نہ خدا کے کسی برگزیدہ بندے کے ہاتھ پر کسی خارق عادت کرشمہ کا ظاہر ہونا ناممکن ہے اور ایمان کے اصل اصول بھی یہی تین امر ہی یعنی ایمان بااللہ اور ایمان باالرسول اور ایمان بالاخرت جو اس واقعہ سے ثابت ہوئے، اور ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرہ۔ میں جو قصہ ذکر کیا ہے وہ بھی اسی طرح ان تین امور کی دلیل کے تھا اور آئندہ پارہ میں حضرت ابراہیم کا جو قصہ آنے والا ہے وہ بھی ان ہی تین باتوں کی دلیل واضح ہے اب دیکھ لو کہ کس طرح سے سورة کا اول اور آخر اور اوسط باہم متناسب اور مرتبط ہیں ملاحدہ کو چاہیے تھا کہ اس واقعہ کو سامان ہدایت سمجھتے اور اس کو خدا کی نعمت جان کر شکر ادا کرتے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے اور ایسے واقعات سے عبرت اور ہدایت حاصل کرنے والے بہت کم ہیں یہ واقعہ کوئی معمولی نعمت نہ تھا کہ ایمان بالغیب کو شہودی اور عیانی بنادیا اور ارتداد کے خطرہ سے نکال دیا اس نعمت پر توا گر لاکھوں اور کروڑوں جانیں بھی قربان ہوجائیں تو بہت کم ہیں اور ان نبی پر بھی اللہ تعالیٰ کی بیشمار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں جن کی توجہ اور دعا سے یہ نعمت ظہور میں آئی، صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی سیدنا مولانا محمد خاتم النبین علی الہ و اصحابہ اجمعین۔ 1) ۔ الم تر کے معنی کیا تو نے نہیں دیکھا مگر محاورہ میں اس کے معنی الم تعلم کے ہیں کیا تم کو معلوم نہیں ظاہرا چونکہ رویت بصری علم کا ذریعہ ہے اس لیے لفظ رویت بول کر علم کے معنی مراد لیے گئے فصحاء اور بلغاء کے نزدیک یہ لفظ تنبیہ اور تشویق کے لے مستعمل ہوتا ہے یعنی متنبہ کرنے اور شوق دلانے کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے اسی وجہ سے سیبویہ سے منقول ہے کہ الم ترک معنی تنبہ الی امرالذین کے ہیں یعنی یہ واقعہ عجیب و غریب ہے اس قابل ہے کہ اس کو شوق اور رغبت کے ساتھ سنا جائے یہ چیز قابل دیدتھی۔ اور چونکہ یہ واقعہ شہرت اور تواتر کی وجہ سے بمنزلہ محسوس اور مشاہد کے تھا اس لیے بجائے الم تعلم کے لفظ الم تر لایا گیا جیسا کہ حضرات فقہاء اور محدثین نے لکھا ہے کہ خبر متواتر سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ بمنزلہ مشاہدہ اور رویت بصری کے ہوتا ہے اس لیے کہ جو امور خبر متواتر سے ثابت تھے اللہ نے قرآن کریم میں جابجا ان کو الم تر سے تعبیر کیا ہے۔ 2) ۔ ہی بھاگنے والے بنی اسرائیل میں سے ایک قوم تھی جو واسط کے قریب قصبہ داوردان میں رہتی تھی۔ 3) ۔ وھم الوف۔ اور یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے بعض کہتے ہیں کہ چالیس ہزار تھے بعض کہتے ہیں کہ تیس ہزار تھے بعض کہتے ہیں کہ آٹھ ہزار تھے بعض کہتے ہیں کہ چار ہزار اور بعض کہتے ہیں کہ تین ہزار تھے امام قرطبی فرماتے ہیں، ترجمہ۔ صحیح ہے کہ دس ہزار سے زیادہ تھے اس لیے کہ الوف جمع کثرت ہے اس کا اطلاق دس اور دس سے کم پر نہیں آتا (تفسیر قرطبی ص 231 ج 3) ۔ 4) ۔ حدیث میں ہے کہ جب تم یہ سنو کہ فلاں زمین میں وباء اور طاعون ہے تو تم اس زمین میں داخل نہ ہونا اور اگر وباء طاعون اس زمین میں پھیل جائے جس میں تم رہتے ہو تم اس سے بھاگ کر نہ نکلنا۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) ۔ حضرت عمر جب ملک شام تشریف لے گئے تو مقام سرغ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شام میں طاعون اور وبا پھیلی ہوئی ہے اس وقت عبدالرحمن بن عوف نے یہ حدیث سنائی حضرت عمر یہ حدیث سن کر سرغ سے واپس آگئے ابوعبیدہ نے کہا اے امیر المومنین کیا اللہ قضا وقدر سے بھاگتے ہیں، کاش تیرے سوا کوئی یہ شبہ کرتا (عین یہ کلمہ تیری شان کے مناسب نہیں) ہاں ہم اللہ کی قضا وقدر سے خدا کی دوسری قضاء وقدر کی طرف بھاگ رہے ہیں جس طرح بیماری میں علاج کرنا ایک قضا وقدر سے دوسری قضا وقدر کی طرف بھاگنا ہے اس لیے کہ بیماری بھی اللہ کی قضا وقدر سے ہے اور علاج اور دوا بھی اللہ کی قضا وقدر ہے اسی طرح ہمارا وبائی زمین میں داخل ہونا اور وطن کی طرف لوٹ جانا ایک قدر سے دوسری قدر کی طرف جانا ہے۔ 5) ۔ یہ آیت معاد جسمانی کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل ہے معاد جسمانی کا اقرار اصول ایمان میں سے ہے اور معاد جسمانی کا منکر باجماع امت بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
Top