Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
حکم نہم متعلق بہ قتال کفار۔ قال تعالی، وقاتلوا فی سبیل اللہ۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ مع المتقین۔ گزشتہ آیات میں حج اور روزہ کے لیے خاص مہینہ کا ہونا بیان فرمایا کہ سوائے ان ایام مقررہ کے دوسرے ایام میں حج نہیں ہوسکتا اسی طرح ملت ابراہیمی میں یہ حکم تھا کہ چار مہنوں میں قتل و قتال حرام ہے، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب۔ یہ چار مہینے اشہر حرم کہلاتے تھے اور یہ چاروں مہینے امن کے کہلاتے تھے ان دنوں میں تمام ملک عرب میں لڑائی موقوف ہوجاتی تھی اور کوئی کسی سے تعرض نہ کرتا تھا اس بناء پر نبی صلی اللہ نے ذی قعدہ الحرام س 6 ھجری میں صحابہ کی ایک کثیر جماعت کے ہمراہ عمراہ کا قصد فرمایا جب مکہ مکرمہ پہنچے تو مشرکین مکہ لڑنے کے لیے تیار ہوگئے اور مسلمانوں کو عمرہ کرنے اور مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا بالاآخر اس پر صلح ہوئی کہ آپ اس وقت بدون عمرہ کیے ہوئے واپس ہوجائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ کریں چناچہ آپ سال آئندہ ذی قعدہ 7 ہجری میں مع اصحاب عمرۃ القضاء کے لیے مکہ تشریف لائے تو اندیشہ ہوا کہ اگر مشرکین مکہ اس ماہ حرام میں خلاف عہدہم سے لڑنے پر تیارہوجائیں تو ہم کیا کریں اور شہر حرام اور بلد حرام میں کیوں کر لڑیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو مگر ابتداء اور زیادتی تمہاری طرف سے نہ ہونی چاہیے چونکہ گزشتہ آیات میں حج کا ذکر تھا حج کی مناسبت سے عمرہ حدیبیہ اور زمانہ حج اور عمرہ میں قتال کا حکم بیان فرمایا اس کے بعد پھر دور تک احکام حج کے بیان کا سلسلہ چلا گیا اصل مقصود عمرہ حدیبیہ کے متعلق حکم بتلانا تھا شہر حرام اور حالت احرام میں جہاد و قتال کا حکم عمرہ اور احرام کی تبیعت میں ذکر فرمایا اس لیے اس حکم کے بعد پھر حج کے احکام بیان فرمائے اور بےتکلف لڑو تم خدا کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور حدود شریعت سے تجاوز نہ کرو یعنی ماہ حرام اور سرزمین حرام میں اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کرو اور بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں کو نہ قتل کرو اور نہ کسی کا مثلہ کرو یعنی ناک، کان وغیرہ نہ کاٹو اور نہ کسی کی آنکھ پھوڑو یہ سب حد سے تجاوز کرنا ہے بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے اورا گر وہ خود حد سے تجاوزکریں اور عہد شکنی کریں اور تم سے لڑیں تو پھر تم ان کو مارو جہاں کہیں بھی پاؤ حل میں یاحرم میں اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو تنگ کرکے نکالا ہے یعنی مکہ سے یعنی تم کو اتنا ستایا کہ تم نکلنے پر مجبور ہوگئے ایسے لوگوں کو جہاں کہیں پاؤ مارو اور یہ خیال نہ کرو کہ ماہ حرام اور سرزمین حرم میں کیسے قتل و قتال کریں اس لیے کہ کفر وشرک کا فتنہ اور عداء اللہ کا غلبہ اور انکی شوکت کا فتنہ اور مفسدہ سرزمین میں قتل و قتال اور اخراج کے فتنہ سے کہیں زیاد سخت ہے ماہ محترم میں مار ڈالنا اتنا گناہ نہیں جتنا کہ خود علی الاعلان کفر وشرک کرنا اور دوسروں کو دین حق سے بچلانا اور گمراہ کرنا گناہ ہے قتل میں تو مصلحتیں اور منفعتیں ہوسکتی ہیں لیکن کفر اور شرک سراسر شرمحض ہے اس میں کسی مصلحت اور منفعت کا امکان نہیں لہذآ تم اس کفر کے شر اور فتنہ کے ازالہ کے لیے کمربستہ رہو اور اس کا خاص طور پر لحاظ رکھو کہ مسجد حرام کے قریب ان سے نہ لڑو تاوقتیکہ وہ اس جگہ خود تم سے نہ لڑیں اس لیے کہ مسجد حرام اور حرم کا احترام بہت ضروری ہے پس اگر وہ کفر ناہنجار مسجد حرام کی حرمت اور احترام کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے اس مسجد میں قتال کریں تو پھر تم کو اجازت ہے کہ تم بےکھٹکے ان کو مارو ایسے کافروں کی کہ جو حرم کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں یہی سزا ہے یعنی بلاشبہ مکہ جائے امن ہے لیکن جب انہوں نے ابتداء کی اور تم پر ظلم کیا اور محض اللہ پر ایمان لانے کی وجہ سے تمہاری ایذارسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو اب مستحق امن کے نہ رہے جہاں پاؤ مارو پس اگر یہ لوگ اب بھی کفر اور شرک سے باز آجائیں یعنی تمہارے قتل کے بعد کفر سے توبہ کرلیں اور مسلمان ہوجائیں تو ان کی توبہ قبول ہے اور گزشتہ کیا ہوا سب معاف ہے اسلام اور توبہ کے بعد کسی گزشتہ خون کامواخذہ اور مطالبہ نہ ہوگا اور فقط معافی پر اکتفا نہیں فرماتے بلکہ انعام و احسان اور مہربانی بھی فرماتے ہیں اس لیے کہ تحقیق اللہ بہت بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے اسلام اور توبہ کے بعد تمام گزشتہ گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں لیکن حالت کفر میں رحمت نہیں فرماتے کیونکہ کفر وشرک محل رحمت نہیں بلکہ مورد غض ولعنت ہے اور اے مسلمانو جب تم کو یہ معلوم ہوگیا کہ کفر محل رحمت نہیں تو ان کافروں سے لڑو اور ان اعداء اللہ سے اس وقت تک جنگ کا سلسلہ جاری رکھو جب تک کہ کفر اور شرک کا فتنہ اور فساد ختم نہ ہوجائے اور خالص حکم اللہ ہی کا چلنے لگے یعنی کفر مغلوب ہوجائے اور اسلام غالب آجائے کہ کفر کو اسلام کے مقابلہ میں سراٹھانے کی مجال باقی نہ رہے اور کفر اسلام کے سامنے ہتھیا ار ڈال دے اور کفر میں اتنی طاقت نہ رہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے کسی دینی یا دنیوی امر میں مزاحمت کرسکے شروع آیت میں اصل قتال کا وجوب بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں جہاد و قتال کی غرض وغایت بیان فرمائی کہ جہاد سے مقصد کفر کے فتنہ کو ختم کرنا ہے اس لیے کہ اللہ کی زمین پر کفر سے بڑھ رک کوئی فتنہ نہیں پس اگر یہ کافر شرک اور کفر کے فتنہ اور فساد سے باز آجائیں تو پھر ان سے کوئی زیادتی اور دست درازی نہ کی جائے اس لیے کہ دست درازی سوائے ظالموں اور ستم گاروں کے اور کسی پر روا نہیں اور شر اور فساد سے باز آجانے کے بعد ظالم نہیں رہے عمرہ حدیبیہ میں صحاہ کو یہ تردد تھا کہ اگر کفار سے لڑائی کی نوبت آئی جیسا کہ بظاہر غالب گمان ہے تو اگر خاموش رہیں تو مشکل اور اگر ان سے جنگ کریں تو ایک تو سرزمین حرم کی بےحرمتی اور دوسرے ماہ محترم یعنی ذی قعدہ کی بےحرمتی ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم، رجب یہ مہینے اشہر حرم اور اشہر حرام کہلاتے تھے ان میں قتل و قتال ممنوع تھا مکان محترم یعنی ارض حرم کے متعلق جو تردد تھا اس کا گزشتہ آیات میں جواب دیا اب ان آیات میں زمان محترم یعنی شہر حرام کی بےحرمتی کا جو تردد تھا اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں اور اے مسلمانوں تم کو مکان محترم میں جنگ وجدال کے متعلق جو تردد تھا وہ زائل کردیا گیا رہا زمان محترم یعنی شہر حرام میں جنگ کے متعلق جو تردد تھا سو اس کا جواب یہ ہے کہ حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینہ کے بدلہ اور عوض میں ہے اگر وہ اس مہینہ کی حرمت کا لحاظ اور ادب رکھیں اور تم سے نہ لڑیں تو تم بھی اس مہینہ کی حرمت کا ادب اور لحاظ کرکے ان سے نہ لڑو اور وجہ یہ ہے کہ حرمت کی چیزوں میں عوض اور بدلہ ہے یعنی برابری ہے پس اگر وہ اس شہر حرام کا احترام نہ کریں تو تم بھی اس کا احترام نہ کرو اور اگر وہ اس محترم مہینہ میں تم پر کوئی زیادتی کریں تو تم بھی اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر کہ انہوں نے تم پر کی ہے اور زیادتی کا بدلہ لینے میں اللہ سے ڈرتے رہو کہیں زیادتی کا بدلہ لینے میں تم سے زیادتی نہ ہوجائے کہ اپنے حق سے زائد بدلہ لے لو اور مستقبل میں کافروں کے غلہ کے خطرہ کو خاطر ہی میں نہ لاؤ اللہ تمہارے ساتھ ہے تم یقین رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے اور فتح اور کامیابی کا تمام دارومدار اللہ کی معیت اور اس کی نصرت وحمایت پر ہے اور بغیر تقوی اور پرہیزگاری اللہ کی معیت حاصل نہیں ہوسکتی حاصل ان آیات شریفہ کا یہ ہے کہ حدود حرم اور شہر حرام میں تم ابتداء بالقتال نہ کرو اور اگر کفار ابتداء باتصال کریں تو تم قتال سے دریغ نہ کرو یہ تمہارا قتل و قتال بلد حرام اور شہر احرام کی حرمت کے منافی نہیں جیسے ابتداء کسی مسلمان کو قتل کرنا روا نہیں لیکن قصاص میں کسی مسلمان کو قتل کرنا خون ناحق نہیں کہلاتا۔ 1) ۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ جہاد کے بارے میں جو آیت سب سے پہلے نازل ہوئی وہ یہ آیت ہے یعنی وقاتلوا فی سبیل اللہ۔۔ الی۔۔ تعتدوا۔ آیت۔ ابتداء میں یہی حکم تھا کہ جو لوگ آپ سے قتال کریں آپ ان سے قتال کریں اور جو آپ سے قتال نہ کریں آپ بھی ان سے قتال نہ کریں بعد میں یہ حکم اقتلوالمشرکین کا فہ۔ سے منسوخ ہوگیا یعنی تمام مشرکین سے قتال کرو خواہ وہ تم سے قتال کریں یا نہ کریں۔ اور صدیق اکبر اور سعید بن جبیر اور زہری سے منقول ہے کہ سب سے پہلی آیت جو جہاد و قتال کے بارے میں نازل ہوئی وہ سورة حج کی یہ آیت ہے اذن للذین یقاتلون۔۔ الی۔۔ لقدیر۔ آیت۔ امام ابوبکر رازی فرماتے ہیں کہ جائز ہے کہ ابتداء بالقتال کرنے والوں سے قتال کی اجازت میں سب سے پہلی آیت وقاتلوفی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم۔ اور عام کافروں سے جہاد و قتال کی اجازت کے بارے میں خواہ وہ ابتداء بالقتال کریں یا نہ کریں سورة حج کی آیت پہلی آیت ہو یعنی تمام کفار سے جہاد و قتال کی اجازت میں پہلی آیت اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا۔ آیت۔ ہوکذا فی احکام القرآن ص 257 ج 1) ۔ 2) ۔ فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ محض کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کے لیے جہاد و قتال ہو قومیت اور وطنیت کی بناء پر نہ ہو حدیث میں ہے کہ جو قتال حمیت اور قومیت اور اظہار شجاعت کے لیے ہو وہ فی سبیل اللہ ہنیں جو قتال محض اس لیے ہو کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو وہ فی سبیل اللہ ہے۔ 3) ۔ جمہور ائمہ دین کا مسلک یہ ہے کہ اشہر حرام میں قتل و قتال ابتداء میں ممنوع تھا بعد میں اجازت ہوگئی مگر بہتر اب بھی یہی ہے کہ اشہر حرم میں اتبداء بالقتال نہ کی جائے، اور بعض علماء کا قول ہے کہ آیت کا حکم اب بھی باقی ہے منسوخ نہیں ہوا اور اب بھی حرام اور اشہر حرم میں ابتداء بالقتال حرام ہے اور یہی مجاہد کا قول ہے صحیح بخاری میں اور مسلم میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ شہر یعنی مکہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے صرف میرے لیے ایک ساعت کے واسطے حلال کردیا گیا باقی قیامت تک حرام ہے یہاں کا گھانس اور تنکا بھی نہ کاٹا جاوے اور نہ یہاں کا شکار بدکایاجاوے اور جو لوگ نسخ کے قائل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ابن خطل مسجد حرام میں قتل کیا گیا حالانکہ وہ خانہ کعبہ کے پردہ سے لٹکا ہوا تھا جواب یہ ہے کہ یہ قتل اس ساعت میں ہوا کہ جس ساعت میں مکہ میں قتل و قتال آپ کے لیے حلال کردیا گیا تھا۔
Top