Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (رشوتاً ) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر نہ کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو
حکم ششم منع از مال حرام۔ قال تعالی، ولاتاکلو اموالکم بینکم۔۔۔ الی۔۔۔ تعلمون۔ گزشتہ آیات میں روزہ اور دعا کا ذکر تھا اس آیت میں حرام مال کھانے کی ممانعت ہے اشارہ اس طرف ہے کہ روزہ اور دعا کی قبولیت کے لیے اکل حلال شرط ہے نیز پہلے افطار اور سحری کا ذکر تھا اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ افطار اور سحری حلال روزی سے ہونا چاہیے نیز اصلی مقصود روزہ سے طہارت نفس ہے تو جب طہارت نفس کے لیے روزہ میں حلال مال کے استعمال کی اجازت نہ رہی تو حرام مال کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے حلال مال سے روزہ تو صرف تیس دن کا ہے اور حرام مال سے روزہ مدت العمر کے لیے ہے یعنی ساری عمر کا صوم وصال ہے چناچہ فرماتے ہیں اور مت کھاؤ ایک دوسرے کے مال ناحق طریقہ سے ہر ایک کو چاہیے کہ دوسرے کے مال کو اپنا مال سمجھ کر حفاظت کرلے اور مت لے جائے مال کے جھوٹے مقدمے حکام کی طرف اس غرض سے کہ کھاجاؤ کہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ ظلم اور ستم اور فریب کے ذریعہ سے اور حالانکہ تم جانتے ہو کہ تم اس معاملہ میں حق پر نہیں رشوت دے کر اپنے موافق فیصلہ کر الینے سے وہ مال تمہارا نہیں ہوجاتا وہ مال لوگوں ہی کا رہتا ہے جیسا کہ لفظ اموال الناس سے مفہوم ہوتا ہے یعنی باطل فیصلہ سے وہ مال لوگوں کی ملک سے نہیں نکل سکتا جو اس کے اصل مالک ہیں البتہ حکام چونکہ حقیقت حال سے واقف نہیں ظاہر حال کے موافق فیصلہ کردیتے ہیں وہ معذور ہیں ان پر کوئی گناہ نہیں معلوم ہوا کہ اگر حاکم ظاہرا شریعت کے موافق فیصلہ کردے اور دل سے کسی جانب اس کا میلان نہ ہو تو اس کو عنداللہ اجر ملے گا اور اگرچہ وہ فیصلہ فی نفسہ ناحق اور گناہ ہو۔ مسئلہ) ۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ قضاء قاضی سے کوئی حرام شے حلال نہیں ہوتی جیسا کہ بخاری ومسلم میں ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اے لوگو میں تمہارے طرح بشر ہوں اور تم میرے پاس اپنے جھگڑے اور مقدمے فیصلہ کرانے کے لیے لاتے ہو اور ممکن ہے تم میں سے بعض لوگ اظہار مدعا میں دوسرے سے زیادہ لسان اور فصیح اللسان ہوں اور میں اس کے ظاہری بیان پر اور برہان پر اس کے موافق فیصلہ کردوں تو تم کو چاہیے کہ اگر میں شہادت کے اعتبار سے اس کو دوسرے مسلمان بھائی کا حق دلادوں تو اس کو ہرگز نہ لو کیونکہ حقیقت میں میں نے اس کو آگ کا انگارہ دے دیا ہے۔ اور یہی تمام علماء کا مذہب ہے کہ یہ مال اس پر حرام ہے اور قضاء قاضی فقط ظاہرا نافذ ہوتی ہے باطنا نافذ نہیں ہوتی اور امام ابوحنیفہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ املاک مرسلہ میں قضاء قاضی فقط ظاہرا نافذ ہوتی ہے باطنا نہیں یعنی جس صورت میں مالک کی پہلے سے ملک ثابت ہو وہاں اگر کوئی جھوٹا دعوی اور جھوٹی شہادت کے ذریعہ سے اپنے موافق فیصلہ کرالے تو وہ شے اس کے لیے حلال نہ ہوگی لیکن اگر عقود اور فسوخ میں قاضی نے کوئی فیصلہ کردیا تو قاضی کا حکم ظاہرا یعنی دنیوی احکام اور باطنا یعنی عنداللہ یکساں طور پر نافذ اور جاری ہوگا عقود سے معاملات مثل بیع وشراء اور اجارہ ونکاح مراد ہیں اور فسوخ سے معاملات کا فسخ کرنا اور توڑنا مراد ہے جمہور علماء اس صورت میں امام ابوحنیفہ کے خلاف ہیں امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ دو گواہوں نے حضرت علی کے سامنے گواہی دی کہ فلاں شخص کا فلاں عورت سے نکاح ہوگیا حضرت علی نے یہ فیصلہ فرمایا کہ یہ عورت اس مرد کو دلادی جائے اس عورت نے کہا اے امیر المومنین میرا اس شخص سے نکاح نہیں ہوا گر آپ کو یہی منظور ہے تو میرا نکاح اس کے ساتھ پڑھا دیجیے حضرت علی نے فرمایا ان گواہوں نے تیرا نکاح کردیا واللہ اعلم۔ یہ عورت پہلے سے کسی کی منکوحہ نہ تھی اس لیے یہ شہادت زور نکاح کے لیے کافی سمجھی گئی اور اگر کسی کی منکوحہ ہوتی تو بالاجماع اس کے لیے حلال نہ ہوتی امام اعظم کے نزدیک عقود وفسوخ سے اس قسم کی صورت مراد ہے۔
Top