Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
حکم سوم صوم۔ قال تعالی، یا ایھا الذین امنو کتب۔۔۔ الی۔۔ کنتم تعلمون۔ اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ بجائے اہل ایمان کے اپنے نفس موذی کو مارو کہ جو ہر وقت تمہاری تاک میں ہے اور تمہارے خدا کے درمیان سدراہ ہے تمہارا دشمن ہے اور تمہارے جانی اور ایمانی دشمن یعنی شیطان کادوست بلکہ حقیقی اور جڑواں بھائی ہے مثل مشہور ہے کہ شیطان اور نفس دونوں حقیقی بھائی ہیں ساتھ پیدا ہوئے اس لیے ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ اس دشمن کو ماردو اور روح کو زندہ کرو جو تمہارے پاس فرشتوں کی جنس کی ایک چیز ہے نفس کے مارنے اور روح کو زندہ کرنے کا بہترین طریقہ صبر ہے اور صبر حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ چند روز روزے رکھو قوت شہویہ اور قوت غضبیہ جو تمام معاصی کا منبہ ہے اس کے کچلنے کے لیے روزہ تریاق اور اکسیر کا حکم رکھتا ہے لیکن یہ روزہ ہنود اور صائبین کی طرح نہ رکھو کہ دن میں تو خد رو اشیاء اور پھل اور میوے کھاتے رہو اور بوقت شب کھانے سے رکو، یہ طریقہ شریعت الٰہی کے خلاف ہے بلکہ تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا جیسے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا کہ مطلقا کھانے اور پینے سے اور عورتوں کی صحبت سے دن میں کامل پرہیزرکھیں حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر حضرت عیسیٰ کے زمانہ تک یہی طریقہ رہا البتہ تعین ایام میں اختلاف رہا حضرت آدم پر ہر مہینہ میں تین دن کے روزے یعنی ایام بیض کے فرض تھے یہود پر یوم عاشورا اور ہفتہ اور اس کے سوا اور چند روز کے روزے فرض تھے نصاری پر ماہ رمضان کے روزے فرض تھے۔ معاذ بن جبل اور ابن مسعود اور ابن عباس اور عطاء اور ضحاک اور قتادہ سے منقول ہے کہ عاشورہ اور ہر مہینہ میں تین دن کے روزے حضرت نوح کے وقت سے لے کر حضور ﷺ کے زمانہ تک مقرر رہے رمضان کے روزوں کے حکم سے یہ حکم منسوخ ہوا حسن بصری سے منقول ہے کہ واللہ ہرگز شتہ امت پر پورے ایک ماہ کے روزے فرض رہے جس طرح ہم پر فرض ہیں اور عبداللہ بن عمر سے مرفوعا روایت ہے کہ اللہ نے رمضان کا روزہ اگلی امتوں پر فرض کیا تھا الغرض روزہ کی فرضیت قدیم ہے کوئی شریعت اس کی فرضیت سے خالی نہ رہی اس لیے یہ مبارک عبادت تم پر فرض کی گئی تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ کیونکہ روزہ کی خاصیت ہی یہ ہے کہ روزہ کی عادت اور کثرت آدمی کو پرہیزگار بنادیتی ہے اور یہ روزے تم پر شمار کیے ہوئے دنوں کے لیے فرض کیے گئے ہیں جو ایک مہینہ کی مدت ہے نہ بہت کم اور نہ بہت زیادہ اگر بہت کم ہوتی تو تھوڑی مدت کی عبادت سے نفس عبادت کے رنگ سے رنگین نہ ہوتا اور اگر روزہ کی مدت بہت زیادہ ہوتی تو مشقت میں پڑجاتے اس لیے تھوڑے ہی دنوں کا روزہ تم پر فرض کیا گیا مگر اس میں تمہاری سہولت کی رعایت کی گئی پس ایک سہولت تو یہ ہے کہ ہ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنا دشوار ہو تو اس کو اجازت ہے کہ روزہ افطار کرلے مگر اتنے دنوں کو شمار کرکے بجائے رمضان کے دوسرے دنوں میں روزہ رکھ لے خواہ مسلسل یا فاصلہ سے اور دوسری سہولت یہ ہے جو بعد میں منسوخ کردی گئی کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں مگر باوجود اس کے روزہ رکھنے کا دل نہ چاہ رہا ہو تو اس کے ذمہ اس کا فدیہ یعنی روزہ کا بدلہ دینا ہے اور وہ فدیہ ایک مسکین کی خوراک ہے اس لیے یہ شخص خدا کے خود ترک طعام و شراب نہیں کرسکتا تو کسی مسکین ہی کو کھلادے کہ جب وہ کھا کر عبادت کرے گا تو ثواب میں اس کا بھی حصہ ہوجائے گا اور یہ بدلہ بہت ہی کم ہے، فمن تطوع خیرافھوخیرلہ، لیکن جو شخص خوشی سے خیر اور نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے ایک مسکین کے کئی مسکینوں کو کھانا دے تو وہ بھی بہتر ہے جتنی نیکی زیادہ کرو گے اتنا ہی اجر زیادہ ملے گا لیکن تمہارا خود روزہ رکھنا فدیہ سے کہیں بہتر ہے اگرچہ فدیہ مقدار واجب سے کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو اگر تم روزہ کے فضائل اور فوائد کو جانتے ہو اور کہ روزہ کس درجہ کی عبادت ہے روح کے زندہ کرنے اور نفس اور شہوات کے کچلنے میں کوئی اس کا بدل نہیں یہی وجہ ہے کہ ہر عمل کا اجر محدود ہے مگر صبر اور روزہ کا اجر غیر محدود ہے نماز اور زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ایک محسوس صورت ہے جو ریا وغیرہ کے ذریعے سے توڑی جاسکتی ہے مگر روزہ کی کوئی صورت محسوسہ نہیں کہ جس کو توڑا جاسکے۔
Top