Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کر جائے (خدا سے) ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے
حکم دوم وصیت۔ قال تعالی، کتب علیکم۔۔۔ الی۔۔۔۔ رحیم۔ گزشتہ آیات میں قصاص کو حیات فرمایا آئندہ آیات میں وصیت کا ذکر فرماتے ہیں کہ جو خاندان کی حیات اور زندگی کا سامان ہے شروع اسلام میں جب تک میراث کا حکم نازل نہ ہوا تھا تو والدین اوراقارب کے لیے وصیت فرض تھی مقدار کی کوئی تعیین نہ تھی وصیت کرنے والے کی صواب دید پر تھا کہ جتنی مقدار مناسب سمجھے اتنی مقدار کی وصیت کردے اس کے بعد جو باقی بچے وہ سب اولاد کا ہے اس آیت میں اسی حکم کا ذکر ہے اور چونکہ وصیت اوراقارب کی اعانت امر فطری اور جبلی ہے اور ہر ملت و مذہب میں رائج ہے اس لیے اس آیت کو پچھلی آیت کی طرح یا ایھا الذین آمنوا۔ سے شروع نہیں فرمایا چناچہ فرماتے ہیں کہ تم پر فرض کیا گیا کہ جب تم میں سے موت کسی کے سامنے آجائے بشرطیکہ وہ اتنا مال چھوڑ جائے کہ تجہیز وتکفین کے بعد بچ رہے تو اس پر لازم ہے وصیت کرنا والدین اور دیگر اقارب کے لیے مگر یہ ضروری ہے کہ وہ وصیت شریعت کے مطابق ہو، مثلا یہ نہ کرے کہ والدین کو نظر انداز کردے اور دور کے رشتہ داروں کو مقدم کردے یا فقیر اور رشتہ داروں کو محروم کردے اور دولت مند کے لیے وصیت کرے غرض یہ کہ جو وصیت شریعت کے مطابق ہوجاتی ہے اس کا پورا کرنا خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ضروری ہے کسی کو اس میں تغیر اور تبدل کا اختیار نہیں پس جو شخص حق لازم کی وصیت سن لینے کے بعد وصیت کے مضمون میں کچھ تغیر اور تبدل کرے اس تغیر وتبدل سے جو حق تلفی ہوگی اس کا گناہ تبدیل کرنے والوں پر ہوگا حاکم اور مفتی نے اگر ظاہر اور قواعد شریعت کی بناء پر فیصلہ کیا ہے اور فتوی دیا ہے تو حاکم اور مفتی گناہ گار نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ سننے والے اور جاننے والے ہیں تبدیل کرنے والوں کے اقوال کو سنتے ہیں اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو جانتے ہیں اور حاکم اور مفتی کی معذوری کو بھی جانتے ہیں البتہ ایک صورت میں وصیت میں تغیر وتبدل جائز ہے وہ یہ کہ وصیت کرنے والے سے کسی غلطی یا دیدہ دانستہ صریح گناہ کا اندیشہ ہو کہ غیر مستحق کو دے اور مستحق کو محروم کردے یا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے پس یہ شخص اگر اس وصیت کو درست کردے یعنی اس وصیت کو شریعت کے مطابق کردے تو ایسے تغیر وتبدل میں اس پر کوئی گناہ نہیں بیشک اللہ بڑے معاف کرنے والے اور بڑی رحمت فرمانے والے ہیں نیت فاسدہ سے گناہ کرنے والوں کو بھی بخش دیتے ہیں اور جو شخص نیک نیتی سے کوئی تغیر اور تبدل کرے اس پر کیوں نہ رحمت ہوگی ؟۔
Top