Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 172
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاک مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تم کو دیا وَاشْكُرُوْا : اور شکر کرو لِلّٰهِ : اللہ کا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو اِيَّاهُ : صرف اسکی تَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے ہو
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو
خطاب خاص بہ اہل اختصاص۔ قال تعالی، یا ایھا الذین آمنو کلوا من طیبات۔۔۔ الی۔۔۔ رحیم۔ ربط) ۔ گزشتہ آیات میں خطاب عام تھا اور اس آیت میں خاص اہل ایمان کو خطاب ہے اشارہ اس طرف ہے کہ ایمان اور محبت خداوندی کا اقتضاء یہ ہے کہ خدا کے رزق کو کھاؤ اور شکر کرو کلو من رزق ربکم وشکرولہ۔ آیت۔ نعمت کے استعمال سے منع کی محبت پیدا ہوتی ہے اور شکر کرنے سے نعمت میں زیادتی ہوتی ہے نیز احادیث سے ثابت ہے کہ اکل حلال سے دعا اور عبادت قبول ہوتی ہے اور اکل حرام سے دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی اکل حلال سے مسجاب الدعوات ہوجاتا ہے چناچہ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو ایمان اور محبت کا یہ مقتضی نہیں کہ تم اپنے خیال سے لذید اور پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا کی ہیں ان کو رغبت سے کھاؤ عاشق تو معشوق کے ہاتھ کی دی ہوئی تلخ چیز کو بھی شیریں سمجھ کر کھاتا ہے تو ہمارے رزق کو اس خیال سے کھاؤ کہ ہم نے تم کو یہ رزق دیا ہے اسباب اور وسائط کو محض پردہ سمجھو اصل مالک اور معطی ہم ہیں عطیہ کے ساتھ بےرغبتی معطی کے ساتھ بےرغبتی کو موہم ہے لہذا منعم حقیقی کی طرف سے جو نعمت آئے اس کو بصد شوق ورغبت استعمال کرو تاکہ منعم تم سے راضی ہوجائے اور یہ مت سمجھو کہ پاکیزہ چیزوں کے استعمال سے حظ نفس میں گرفتار ہوجائیں گے جو عبادت سے غفلت کا سبب بنے گا اس کی تدبیر یہ کرو کہ تم اللہ کا شکر کرو تاکہ تمہاری یہ لذت عین عبادت بن جائے کیونکہ پاکیزہ رزق کھانے سے اللہ کی محبت پیدا ہوگی اور محبت سے شکر نکلے گا اور شکر ایک عظیم عبادت ہے جس سے اللہ کی نعمت اور غایت میں زیادتی ہوتی ہے اور اس طرح تم لذت کو عبادت بناسکتے ہو اور اگر تم خالص اللہ کی عبادت کرتے ہو تو اپنے خیال کو اس میں دخل نہ دو اس لیے کہ عبادت سے مقصود رضاء حق ہے وہ جس طرح بھی حاصل ہو۔ چوں طمع خواہد زمن سلطان دیں خاک برفرق قناعت بعد ازیں۔ الغرض پاکیزہ چیزوں کا کھانا ایمان اور محبت کے منافی نہیں البتہ حرام چیزوں کا استعمال اللہ کی ناراضی اور اس سے دوری کا سبب ہے چناچہ فرماتے ہیں جزایں نیست کہ اللہ نے تم پر صرف ایسی چیزوں کو حرام فرمایا جو جسمانی اور روحانی حیثیت سے تمہارے لیے مضر ہیں ایک مردار کو جو خود بخود مرگیا ہو یا شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو اور بہتے ہوئے خون کو اور خنزیر کے گوشت کو کیونکہ یہ جانور حرص اور بےحیائی اور بےغیرتی اور نجاست خوری میں مشہور ہے جو قومیں خنزیر کھاتی ہیں ان سے حیا اور عزت وناموس رخصت ہوجاتی ہے نیز یہ جانور انسان کے فضلہ کو بہت رغبت کے ساتھ کھاتا ہے اور فضلہ انسانی خنزیر کی خاص خوراک ہے اور اس کو گوشت پوست زیادہ تر فضلہ انسانی سے پیدا ہوتا ہے لہذا خنزیر کا گوشت کھانا گویا کہ اپنا ہی فضلہ کھانا ہے اور اس لیے اللہ نے اس کی نسبت فرمایا فانہ رجس۔ یعنی یہ نجس العین ہے۔ اور حرام کیا اللہ نے اس جانور کو جو بقصد تقرب غیر اللہ کے نام زد کردیا گیا ہو جس جانور کی جان کو اللہ کے سوا کسی بت یا کسی نبی یا ولی کی روح کے لیے نذر کردیا جائے اور ان کی رضا خوشنودی کے لیے اس کو ذبح کیا جائے تو اس جانور کا کھانا حرام ہے اگرچہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو اس لیے کہ جانور کی جان صرف اللہ کی ملک ہے آدمی کی ملک نہیں کہ دوسرے کو بخش دے اس لیے جانور کی جان کو غیر اللہ کے نامزد کرنا صریح شرک ہے اور ظاہر ہے کہ شرک کی نجاست اور گندگی تمام نجاستوں سے زیادہ سخت ہے لہذا جو جانور غیر اللہ کے نام زد کردیا جائے تو اس شرک کی نجاست اور خباثت اس جانور میں اس درجہ سرایت کرجاتی ہے کہ اگر ذبح کے وقت اللہ کا نام بھی لیاجائے تب بھی وہ جانور حلال نہیں ہوتا جیسے کتا اور سور خدا کا نام لے کر ذبح کرنے سے بھی حلال نہیں ہوتا آخر مردار اسی وجہ سے تو حرام ہے کہ اس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا لہذا جو جانور غیر اللہ کے نام زد کردیا جائے وہ بدرجہ اولی حرام ہوگا البتہ اگر غیر اللہ کے نامزد کرنے کے بعد ذبح سے پہلے ہی اپنی اس فاسد نیت سے توبہ کرلے اور اس ارادہ فاسد سے رجوع کرلے تو پھر وہ جانور اللہ کے نام پر ذبح کرنے سے حلال ہوجاتا ہے حدیث شریف میں آیا ہے، لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ۔ اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو غیر اللہ کی تعظیم اور تقریب کی نیت سے جانور ذبح کرے۔ لغیر اللہ کے معنی یہ ہیں کہ نیت غیر اللہ کی ہو خواہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لے یا نہ لے اسی طرح مااھل بہ لغیر اللہ کے معنی یہ ہیں کہ جو جانور غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو جس سے مقصود غیر اللہ کی تعظیم ہو وہ حرام ہے خواہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو یہ لفظ قرآن کریم میں چار جگہ آیا ہے اور سب جگہ مااھل بہ لغیر اللہ فرمایا اور کسی جگہ یہ نہیں فرمایا ماذبح باسم غیر اللہ کہ غیر اللہ کا نام پر ذبح کیا گیا ہو غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا اور ہے اور غیر اللہ کے تقرب اور رضاحاصل کرنے کے لیے ذبح کرنا اور ہے اور ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے لغیر اللہ اور باسم غیر اللہ کا فرق معمولی استعداد والوں پر بھی مخفی نہیں اہلال کے لغوی معنی عربی زبان میں شہرت اور آواز دینے کے ہیں لفظ اہلال لغت عرب میں ذبح کے معنی میں نہیں آتا چناچہ سورة مائدہ میں مااھل لغیر اللہ کے بعد ماذبح علی النصب کو علیحدہ ذکر فرمایا معلوم ہوا کہ اہلال لغیر اللہ اور شے ہے اور ذبح لغیر اللہ اور شے ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ اللہ نے آیت مااھل بہ لغیر اللہ کی تفسیر میں 45 صفحہ پر ایک طویل مکتوب تحریر فرمایا ہے جو فارسی میں ہے اور عجیب و غریب حقائق ومعارف پر مشتمل ہے اس وقت ہم اس کا خاص اور اہم اقتباس ہدیہ ناظرین کرتے ہیں، وھو ھذا۔ حلت اور حرمت کا دارومدار نیت پر ہے اور ذکر لسانی اس نیت قلبی کا ترجمان ہے اس لیے بغیر ذکر لسانی نیت قلبی کی اطلاع ناممکن ہے حدیث میں ہے، انماالاعمال بالنیات۔ عمل کی حقیقت یہی نیت قلبی ہے اور حرکات خاصہ صورت میں عمل ہیں اگر عمل ہے اور نیت نہیں تو جسم بےجان ہے اور کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمان ماء۔ آیت۔ کا مصداق ہے معلوم ہوا کہ حلت اور حرمت کی علت ذبح کے وقت فقط زبان سے اللہ یا غیر اللہ کا نام لینا نہیں بلکہ حلت کی اصل علت خاص اللہ کی نیت ہے اور حرمت کی اصل علت غیر اللہ کی نیت ہے اور یہ آیت فکلوا مماذکراسم اللہ علیہ ان کنتم بایاتہ مومنین۔ آیت۔ میں فقط ذکر لسانی مراد نہیں اس لیے کہ اصل ذکر اور ذکر حقیقی وہ ذکر قلبی ہے اور ذکر لسانی کو اس لیے ذکر کہا جاتا ہے کہ وہ ذکر قلبی کا ترجمان ہے اس لے کہ اگر کوئی شخص دل سے کسی کی یاد میں محو ہو اور زبان سے ساکت ہو تو وہ ذاکر سمجھا جاتا ہے لیکن اگر زبان سے کسی کا نام لے اور دل میں کوئی اور بسا ہوا ہو تو حقیقت شناس لوگوں کے نزدیک یاد کرنے والوں میں اس کا شمار نہیں ہوسکتا نیت قلبی ایمان کی طرح باطنی ہے اور ذکر لسانی کلمہ شہادت کی طرح اس کا ترجمان ہے کلمہ شہادت کو ایمان کی حقیقت نہیں کہا جاسکتا ورنہ لازم آئے گا کہ مومن کلمہ اسلام کے تلفظ کے وقت مومن ہو اور اس تلفظ سے پہلے مومن نہ ہو اس طرح جس شخص نے کسی جانور کے متعلق نیت تو غیر اللہ کی کی اور اس جانور کو غیر خدا کے لیے تجویز کیا مگر ذبح کے وقت زبان سے نام اللہ کا لیا تو اس کا اعتبار نہ ہوگا اس لیے کہ تقرب غیر اللہ کی نیت کے بعد ذبح کے وقت محض زبان سے اللہ کا نام لیناعمل بےروح ہے۔ مشرکین عرب نیت بھی غیر اللہ ہی کی کرتے تھے اور ذبح کے وقت بھی نام غیر اللہ کا ہی لیتے تھے اور مومنین مخلصین نیت بھی خاص اللہ ہی کی کرتے تھے اور نام بھی خاص اللہ ہی کا لیتے تھے اور مبتدعین نیت تو غیر اللہ کی اور ذبح کے وقت نام لیتے ہیں اللہ کا یہ بین بین صورت شرک بھی ہے اور نفاق بھی ہے کہ صورت توحید کی ہے اور معنی شرک کے ہیں اس تیسری قسم کا مصداق اس امت کے مشرک ہیں، ومایومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون۔ آیت۔ اول دو صورتوں میں ظاہر اور باطن میں کوئی تخالف نہیں اس لیے کہ اس کا حکم ظاہر ہے اور اس تیسری صورت میں ظاہر اور باطن میں تخالف ہے اس لیے کہ باطن میں نیت تو ہے غیر اللہ کی اور ظاہر میں ذبح کے وقت نام ہے اللہ کا، اس لیے اعتبار ظاہر کانہ ہوگا ایسا جانور اگرچہ ظاہر میں فکلو مماذکراسم الہ علیہ۔ کی قسم سے معلوم ہوتا ہے لیکن باطن اور حقیقت میں لاتاکلوا ممالم یذکراسم اللہ علیہ۔ کے قبیل سے ہے جس کا مقتضی صریح ممانعت اور حرمت ہے ذکر لسانی کو اگر حلت اور حرمت میں داخل ہے تو باعتبار صورت کے ہے اور مرتبہ ثانیہ میں ہے اور ذکر پنہانی اور نیت اندرونی کو باعتبار حقیقت کے مرتبہ اولی میں داخل ہے یہ ناممکن ہے کہ حلت و حرمت میں ذکر لسانی کو تو دخل ہو اور ذکر پنہانی کو اس میں دخل نہ ہو پس جس جانور میں نیت غیر اللہ کی ہو اور ذبح کے وقت اللہ کا نام لیاجائے تو اس کی حقیقت تو دوسری قسم کی ہوگی اور صورت دوسری قسم کی ہوگی اور جب صورت اور حقیقت میں تعارض اور تخالف ہو تو ترجیح حقیقت کو ہوگی۔ نیز جان کی نذر اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے غیر اللہ کے لیے جان کی نذر جائز نہیں اور اگر بالفرض جان کی نذر غیر اللہ کے لیے جائز ہوتی تو قربانی من جملہ عبادات کے نہ ہوتی اور قربانی اور غیر قربانی کے احکام نیت کے فرق پر مبنی ہیں۔ بطور احتمال عقلی یہاں ایک چوتھی قسم اور بھی نکل سکتی ہے جو اس قسم ثالث کا بالکل عکس ہے وہ یہ کہ نیت تو ہے خاص اللہ کے لیے نذر کی مگر ذبح کے وقت نام لیاجائے غیر اللہ کا یہ قسم آج تک کبھی وجود میں نہیں آئی محض احتمال عقلی کا درجہ ہے وجود نفس الامری سے اس کو کوئی حصہ نہیں ملا نیز جاننا چاہیے کہ آیت شریفہ مااھل بہ لغیر اللہ میں اہلال باعتبار زمانہ کے عام ہے وقت ذبح کے ساتھ مخصوص اور مقید نہیں اور جن حضرات نے عندالذبح زیادہ فرمایا ہے اور ان کی مراد تقیید اور تخصیص نہیں بلکہ یہ لفظ اس لیے زیادہ کیا ہے کہ نیت سابقہ کا علم اور ظہور ذبح کے وقت ہوتا ہے اگر اللہ کے تقرب کی نیت ہے تو ذبح کے وقت اللہ کا نام لے گا اور اگر غیر اللہ کی نیت کی ہے تو ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لے گا نزول آیت کے زمانہ میں غیر اللہ کی نذر اور اللہ کی نذر میں امتیاز اور فرق اسی طرح ہوتا تھا کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا تو معلوم ہوا کہ یہ نذر اللہ کے لیے ہے اور غیر اللہ کا نام لیا تو معلوم ہوا کہ یہ نذر غیر اللہ کے لیے ہے اور مشرکین امت کی یہ تیسری قسم کہ نیت تو ہو غیر اللہ کی اور ذبح کے وقت نام ہو اللہ کا یہ قسم اس زمانہ میں موجود نہ تھی یہ شرک اور توحید کا معجون مرکب بعد میں نمودار ہوا یہ بین بین قسم اگر ظاہر اور صورت کے اعتبار سے جائز ہوگی تو باطن اور حقیقت کے اعتبار سے ناجائز ہوگی حاصل یہ کہ عندالذبح کی قید اس زمانے کے دستور کی طرف اشارہ کے لیے ہے احترازی قید نہیں عندالذبح کی قید اس لیے ذکر فرمائی کہ اشارہ اس طرف ہے کہ اگر کسی نے حیوان کو غیر اللہ کے نام زد کیا اور غیر خدا کے تقرب کی نیت کی تو اس جانور کی حرمت اس شرط پر موقوف ہے کہ اس کی یہ نیت ذبح کے وقت تک باقی رہے اور اگر ذبح سے پہلے اس نیت فاسدہ سے توبہ کرلے اور اللہ کے نام پر ذبح کرے تو پھر یہ جانور حرام نہ رہے گا بلکہ حلال ہوجائے گا غرض یہ کہ عندالذبح کی قید نیت اور فعل ذبح میں مقارنت اور اتصال کے بیان کرنے کے لیے ہے اور تبدل نیت اور تغیر ارادہ سے احتراز کے لیے ہے اگر غیر اللہ کی نیت فعل ذبح کے ساتھ متصل اور مقرون ہے تب وہ جانور حرام ہے اور اگر ذبح سے پہلے نیت بدل جائے تو حرمت بھی مبدل بہ حلت ہوجائے گی۔ نیز عندالذبح میں لفظ عند ظرف زمان ہے جو محض اقتران پر دلالت کرتا ہے علیت پر دلالت نہیں کرتا اور حکم حلت و حرمت کا دارومدار علت پر ہے ظرفیت زمانہ اور مکانیہ پر اس کا مدار نہیں اور یہاں حرمت کی علت اہلال لغیر اللہ ہے اور عندالذبح کی قید اہلال اور ذبح میں اقتران بیان کرنے کے لیے ہے یعنی درمیان میں کوئی دوسری نیت فاصل اور متخیل نہیں پس اگر علت یعنی نیت غیر اللہ ابتداء سے اخیر تک یعنی وقت ذبح تک مستمر ہے تو حرمت بھی مستمر ہے اور اگر علت یعنی نیت بدل جائے تو معلول یعنی حرمت بھی بدل جائے گی۔ اور اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیاجائے کہ مااہل بہ لغیر اللہ سے صرف وہی جانور مراد ہیں کہ ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیاجائے اور تشہیر سابق اور نیت متقدمہ کو حرمت میں کوئی دخل نہیں تب بھی اثبات حلت کے لیے کافی نہیں اس لیے کہ حرمت فقط مااھل بہ لغیر اللہ میں منحصر نہیں سرقہ اور غصب کا گوشت اور مردار خور جانور کا گوشت بھی حلال نہیں حالانکہ وہ مااھل بہ لغیر اللہ میں داخل نہیں اسی طرح یہ جانور اگرچہ مااہل بہ لغیر اللہ میں داخل نہ ہو تب بھی حلال نہ ہوگا اس لیے کہ فقط غیر اللہ کے تقرب کے نیت حرمت کے لیے کافی ہے، واللہ سبحانہ وتعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ (ماخوذ از مکتوب سویم از مکاتب قاسم العلوم) ۔ الغرض حق جل شانہ نے ان چیزوں کو حرام فرمایا کہ یہ چیزیں گندی اور ناپاک ہیں ان چیزوں کے استعمال سے انسان کا قلب اور اس کی روح گندہ اور ناپاک ہوجاتی ہے حلال چیزوں کے کھانے سے قلب میں اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور حرام چیزوں کے استعمال سے دل سے اللہ کی محبت رخصت ہوجاتی ہے اور قلب میں بجائے اللہ کی اطاعت کے معصیت کی رغبت پیدا ہوجاتی ہے گندگی اور نجاست کا کیڑا گندگی ہی سے زندہ رہتا ہے عطر سونگھ کر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن اللہ نے شدید مجبوری کی حالت میں ان چیزوں کی حرمت میں کچھ سہولت اور رخصت عطا فرمائی ہے چناچہ فرماتے ہیں پس جو شخص بھوک سے بہت ہی مجبور اور لاچار ہو اور دل اس کا ان چیزوں کے کھانے سے متنفر اور بےزار ہو پس اگر ایسا شخص ان میں سے کسی چیز کو کھائے بشرطیکہ وہ طالب لذت نہ ہو اور مقدار حاجت سے تجاوز نہ کرنے والا ہو یعنی سدرمق سے زیادہ نہ کھائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اس لیے کہ خبیث اور گندی چیز کا بقدر ضرورت استعمال بحالت مجبوری، کراہت قلب اور دلی نفرت کے ساتھ روح اور قلب کو گندہ نہیں کرتا لیکن آخر گندی چیز تو گندی ہی ہے اس کا کچھ نہ کچھ اثر اور رنگ ضرور آئے گا مگر چونکہ یہ فعل بحالت مجبوری صادر ہوا ہے اس لیے کہ اللہ اس سے مواخذہ نہ فرمائیں گے اس لیے کہ تحقیق اللہ بڑے بخشنے والے ہیں کہ اس ناچاری کی حالت میں جو گندی چیز استعمال کی ہے اس پر مواخذہ نہیں فرمائیں گے اور بڑے مہربان ہیں کہ اس پر بڑا رحم فرمایا کہ اس بےچارگی کی حالت میں کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔
Top